کالم نگار اور تجزیہ نگار

کالم نگار اور تجزیہ نگار
فخرالدین کیفی

ہمارا اپنا خیال ہے کہ کالم نگار کو تجزیہ نگاروں سے مختلف ہو نا چاہیے۔اب ہیں یا نہیں یہ دوسری بات ہے۔کالم کو مزاحیہ، طنزیہ اور ادبی ہونا چاہیے

کالم نگار کسی بھی ایسی خبر کو،جس سے عوام کا مفاد وابستہ ہوتاہے،اپنا موضوع بنا کر اس کے مزاحیہ پہلوئوں کو اس طرح اجاگرکرتا ہے کہ قاری بور نہیں ہوتا اور باتوں ہی باتوں میں اپنا مطمح نظر بھی ظاہر کردیتا ہے لیکن انداز یہ ہوتا ہے کہ
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے

یہ شعر لکھ تو دیا ہے لیکن ڈرتے ہیں کہ کہیں فلمی شاعری ہونے کی وجہ سے زیرِ عتاب نہ آجائے۔ادب کے ٹھیکے داروں سے ڈر ہی لگتا ہے

ہمارے خیال میں تجزیہ نگاروں کو چاہیے کہ کسی بھی بات، بیا ن یا واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے قطعی طور غیر جانب دار رہیں اپنا مووقف نہ ظایر کریں جج بن کر فیصلہ نہ سنائیں۔‘‘ تجزیہ نگاروں کو صرف تجزیہ کرنا چاہیے۔اب ایسا ہوتا ہے یا نہیں یہ دوسری بات ہے
۔
خار زار ادب میں بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے۔بس یہ سمجھیے کہ۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

ہماری حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ کیسا نازک موضوع لے بیٹھے ہیں لیکن وجہ یہ ہے کہ
؎ کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف۔۔ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل پہ ہے۔
یہ سمجھ کر کہ اس موضوع پر کوئی بھی قلم نہیں اٹھائے گا تو پھر کیوں نہ ہم ہی دل کی بات زباں پر لے آئیں کہ روزنہ ہی دل کا خون ہوتا ہے جب ہم تجزیہ نگاروں کو اپنی رائے دیتے دیکھتے ہیں۔غصہ آتا ہے جب اینکر پرسن بڑے ہی بھونڈے انداز میں اپنے الفاظ دوسرے کے مونہہ میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔شرم آتی ہے جب پروگراموں کا کوئی میزبان اپنے مہمان پر معترض ہو تاہے کہ اس نے یا اس کی پارٹی نے ایسا کیوں کیا جبکہ کسی دوسرے موقع پر ایسا نہ کرنے پر بھی لتے لیتا ہو نظر آتا ہے۔ یہ کیا تو کیوں کیا۔؟ اور نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟
کہتے ہیں کہ ناکام ادیب یا شاعر نقاد بن جاتا ہے پھر خوب خوب دل کے پھپھولے پھوڑتا ہے۔ اسی طرح دنیائے کھیل کا ناکام کھلاڑی مبصر بن جاتا ہے یا کمنٹیٹر، پھر ایسے تبصرے سننے کو ملتے ہیں ’’ جو ٹیم اچھا کھیلے گی وہ جیت جائے گی‘۔ یا ’’ ناظرین کھیل میں گہما گہمی آ گئی ہے۔ ہمارے ایک ایک کھلاڑی کے پیچھے گیارہ گیارہ کھلاڑی ہیں۔۔سینٹرفارورڈ نے ہٹ ماری مگر گیند لمبی ہو گئی‘‘۔ اگر چھکا لگ گیا تو تبصرہ ہوتا ہے بلے باز نے بالکل ایسے شاٹ لگایا جیسا لگانا چاہیے تھا۔اس لیے گیند پویلین کے باہر چلی گئی۔
یہی حال سیاست میں ہے۔لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ناکام سیاستدان ہی تجزیہ نگاری کرتے ہیں۔یہاں سلسلہ دوسرا ہوتا ہے۔یہاں زیادہ تر ریٹائرد بیوروکریٹ،جنرل،سفارت کار یا بزرگ صحافی یہ بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔کچھ جوان بھی ہیں لیکن یہ طالب علمی کے زمانے کے زخم خوردہ ہیں یا سویٹ یونین کے ٹوٹنے پر غمزدہ۔اس لیے ہر وقت مرچیں چبائے رہتے ہیں۔یہ لوگ اپنے مونہہ میاں مٹھو بھی بنتے ہیں۔ اگر کچھ نہیں ملتا تو نظریہ پاکستان تو ہے تختہء مشق کے لیے۔ایسے تجزیہ نگار بھی ہیں جن کے تجزیے سن کر دل چاہتا ہے کہ حکومت ان کو دے دی جائے۔افسوس ہوتا ہے انہوں نے اپنی پارٹی کیوں نہیں بنا لی۔

کچھ سہل پسند ہوتے ہیں اس لیے لہروں کی مخالفت نہیں کرتے۔کمزور کی بجائے طاقت ور کی طرفداری کرتے ہیں۔ان کی خوبی یہ ہے کہ کہتے کچھ ہیں اور سمجھتے کچھ ہیں۔ایک طرف تو مانتے ہیں کہ 9/11مسلمانوں کے بس کی بات نہیں لیکن طالبان اور القاعدہ پر تنقید بھی کرتے نہیں تھکتے۔مسلمانوں کے لیے نبیاد پرستی اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ عدم برداشت کے طعنے بھی نوک زباں یا نوک قلم رہتے ہیں۔۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جو کالم نگار یا اینکر انگارے چباتا ہوا نظر آئے یا جسے اسلام اور پاکستان میں کیڑے نظر آئیں تو سمجھ لیجے کہ طالب علمی کے دور میں اس کا تعلق نیپ (مرحوم نیشنل عوامی پارٹی )روس نواز سے رہا ہے۔
 
Top