کاش ہماری تمام بیٹیاں ایسی ہی خاص بن جائیں

چاند بابو

محفلین
اچھی بحث ہے بالکل ایسی ہی جیسی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہماری اسمبلیوں میں کی جاتی ہے کہ اگر یہ گناہ ہے تو فلاں کون سا بہت معصوم ہے اور فلاں نے بھی تو یہی کیا تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک نے غلطی کی تھی تو کیا یہ جواز اس غلطی کو دہرانے کے لئے کافی سمجھا جائے کہ اس کے پیش رو نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

غلط بات ہر طرح غلط ہی ہو گی چاہے افتخار چوہدری کرے چاہے عبدالحمید ڈوگر کرے۔ بجائے آپس میں کسی ایک فریق کے لئے لڑنے کے ایسی کاروائیوں کی پرزور مذمت کرنی چاہئے کیونکہ انہی لوگوں کا بچاؤ کرتے کرتے ہم لوگ اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھے ہیں اور وہ لوگ بڑے مزے سے ہمارے گھر کی آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہیں۔

خدارا ان رویوں کو چھوڑنے کی کوشش کیجئے ہوش میں آیئے اور اپنے ہاتھوں اپنے وطن کو لوٹنے مت دیجئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اچھی بحث ہے بالکل ایسی ہی جیسی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہماری اسمبلیوں میں کی جاتی ہے کہ اگر یہ گناہ ہے تو فلاں کون سا بہت معصوم ہے اور فلاں نے بھی تو یہی کیا تھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک نے غلطی کی تھی تو کیا یہ جواز اس غلطی کو دہرانے کے لئے کافی سمجھا جائے کہ اس کے پیش رو نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

غلط بات ہر طرح غلط ہی ہو گی چاہے افتخار چوہدری کرے چاہے عبدالحمید ڈوگر کرے۔ بجائے آپس میں کسی ایک فریق کے لئے لڑنے کے ایسی کاروائیوں کی پرزور مذمت کرنی چاہئے کیونکہ انہی لوگوں کا بچاؤ کرتے کرتے ہم لوگ اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھے ہیں اور وہ لوگ بڑے مزے سے ہمارے گھر کی آگ پر ہاتھ تاپ رہے ہیں۔

خدارا ان رویوں کو چھوڑنے کی کوشش کیجئے ہوش میں آیئے اور اپنے ہاتھوں اپنے وطن کو لوٹنے مت دیجئے۔

بھائی صاحب، میں تو اس بات کے حق میں ہوں کہ کسی بھی شخصیت کو قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے اور ہر کسی کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ مگر:

1۔ مسئلہ یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ آج چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی کی جا سکے۔ کیونکہ پہلے انہی حضرات نے افتخار چوہدری کے معاملے میں جو مثال قائم کر دی ہے وہ بہت خطرناک ہے اور انہیں اس چیز کا اُس وقت احساس نہیں ہوا کیونکہ مشرف دشمنی میں انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

2۔ میں اس چیز کے بہت حق میں ہوں کہ فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں تحقیق ہو۔
اور اگر فرح کے والد اس میں ملوث پائے جائیں تو انکی چھٹی کرا دی جائے۔
لیکن اگر وہ ملوث نہ ہوں اور فیڈرل بورڈ نے واقعی قانون کے مطابق دیگر 200 طلباء کے ساتھ فرح کے نمبر بڑھائے ہوں تو جنگ اخبار کے صحافی عباسی صاحب پر ہتک عزت کا دعوی ہونا چاہیے۔
اور ان سب چیزوں سے قطع نظر، جج صاحبان کی یونیورسٹییز اور کالجز میں جو ایک عدد سیٹ کا کوٹہ ہے، اُسے فورا ختم ہونا چاہیے۔ بلکہ یہی کوٹہ سسٹم نہیں، بلکہ ہر قسم کا کوٹہ سسٹم رفتہ رفتہ ختم ہونا چاہیے، اور جو پسماندہ علاقے ہیں، ان میں کوٹے سے بالکل الگ تعلیم کے لیے شہری علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ بجٹ مختص کیا جانا چاہیے۔ [اگر ہم پسماندہ علاقوں کی وجہ سے مکمل طور پر نہیں تب بھی جزوی طور پر جس حد تک ہو سکے کوٹہ سسٹم سے جان چھڑائیں]
 

مہوش علی

لائبریرین
اب آپ اپنا یہ پیغام دوبارہ پڑھے اور جو ہدایت آپ نے مجھے کی ہے اس پر خود بھی عمل کرے۔
آپ کس بنیاد پر میری بات کو غلط قرار دے رہی ہو؟؟؟،یا صرف ""حکومتی ""بیان پڑھ کرآپ نے بھی یہ بیان داغ دیا ہے ۔
چلیے بھائی جی، بات کو ختم کرتے ہیں۔ میں نے اگر سخت بات کہہ ہے تو معذرت۔ مجھے عبدالحمید صاحب سے ہمدردی ہے نہ حکومت سے، بلکہ صرف دلچسپی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
 

زین

لائبریرین
بہت شکریہ۔
معذرت کی کوئی بات نہیں، ہم لڑائی نہیں بحث کررہے ہیں اور ہر کسی کوحق آزادی اظہار رائے حاصل ہے ۔
بھائی صاحب، میں تو اس بات کے حق میں ہوں کہ کسی بھی شخصیت کو قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے اور ہر کسی کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ مگر:

1۔ مسئلہ یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ آج چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی کی جا سکے۔ کیونکہ پہلے انہی حضرات نے افتخار چوہدری کے معاملے میں جو مثال قائم کر دی ہے وہ بہت خطرناک ہے اور انہیں اس چیز کا اُس وقت احساس نہیں ہوا کیونکہ مشرف دشمنی میں انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

2۔ میں اس چیز کے بہت حق میں ہوں کہ فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں تحقیق ہو۔
اور اگر فرح کے والد اس میں ملوث پائے جائیں تو انکی چھٹی کرا دی جائے۔
لیکن اگر وہ ملوث نہ ہوں اور فیڈرل بورڈ نے واقعی قانون کے مطابق دیگر 200 طلباء کے ساتھ فرح کے نمبر بڑھائے ہوں تو جنگ اخبار کے صحافی عباسی صاحب پر ہتک عزت کا دعوی ہونا چاہیے۔
اور ان سب چیزوں سے قطع نظر، جج صاحبان کی یونیورسٹییز اور کالجز میں جو ایک عدد سیٹ کا کوٹہ ہے، اُسے فورا ختم ہونا چاہیے۔ بلکہ یہی کوٹہ سسٹم نہیں، بلکہ ہر قسم کا کوٹہ سسٹم رفتہ رفتہ ختم ہونا چاہیے، اور جو پسماندہ علاقے ہیں، ان میں کوٹے سے بالکل الگ تعلیم کے لیے شہری علاقوں کی نسبت کہیں زیادہ بجٹ مختص کیا جانا چاہیے۔ [اگر ہم پسماندہ علاقوں کی وجہ سے مکمل طور پر نہیں تب بھی جزوی طور پر جس حد تک ہو سکے کوٹہ سسٹم سے جان چھڑائیں]
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔
شکریہ
والسلام
 

چاند بابو

محفلین
1۔ مسئلہ یہ ہے کہ ناممکن ہے کہ آج چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی کی جا سکے۔ کیونکہ پہلے انہی حضرات نے افتخار چوہدری کے معاملے میں جو مثال قائم کر دی ہے وہ بہت خطرناک ہے اور انہیں اس چیز کا اُس وقت احساس نہیں ہوا کیونکہ مشرف دشمنی میں انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

کیوں نہیں‌ہو سکتی کاروائی لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات بیٹھا دی گئ ہے کہ یہ وہ اشرافیہ طبقہ ہے جو کچھ بھی کرے اس سے باز پرس کرنا ہمارے بس کی بات نہیں‌۔ آخر کب ہم آپس میں متحد ہو کر ان طاقتوں کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل ہوں گے کیا کبھی ایسا ہو بھی سکے گا کہ نہیں۔

2۔ میں اس چیز کے بہت حق میں ہوں کہ فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں تحقیق ہو۔
اور اگر فرح کے والد اس میں ملوث پائے جائیں تو انکی چھٹی کرا دی جائے۔
لیکن اگر وہ ملوث نہ ہوں اور فیڈرل بورڈ نے واقعی قانون کے مطابق دیگر 200 طلباء کے ساتھ فرح کے نمبر بڑھائے ہوں تو جنگ اخبار کے صحافی عباسی صاحب پر ہتک عزت کا دعوی ہونا چاہیے۔

بہن جی برا مت منایئے گا کیونکہ آپ ہر بات کو منفی طور پر لیتی ہیں اس لئے پیشگی کہتا ہوں۔
میرے خیال میں اپنی عزت کا انہیں اس سے زیادہ احساس ہے جتنا ہمیں ہے اور اگر انہوں نے اس بات کی تردید کرنا ہوتی اور ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کرنا ہوتا تو کبھی کا کر دیا ہوتا۔ سامنے کے حقائق سے نظر نہ چرائیں بلکہ ان کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم پر واضع ہو کہ کون ہمارا اپنا ہے اور کون اپنوں کے روپ میں‌بھیڑیا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بہن جی برا مت منایئے گا کیونکہ آپ ہر بات کو منفی طور پر لیتی ہیں اس لئے پیشگی کہتا ہوں۔
میرے خیال میں اپنی عزت کا انہیں اس سے زیادہ احساس ہے جتنا ہمیں ہے اور اگر انہوں نے اس بات کی تردید کرنا ہوتی اور ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کرنا ہوتا تو کبھی کا کر دیا ہوتا۔ سامنے کے حقائق سے نظر نہ چرائیں بلکہ ان کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم پر واضع ہو کہ کون ہمارا اپنا ہے اور کون اپنوں کے روپ میں‌بھیڑیا۔

بھائی جی، مسئلہ یہ ہے کہ انصاف کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں جو کہ ہمارے گہرے تجزیے کے باوجود ہم مجبور کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مجرم نہہیں جبتک کہ اُس پر جرم ثابت نہ ہو جائے اور یہ کہ اُسے اپنی صفائی کا پورا حق حاصل ہے۔
حمید ڈوگر صاحب ہوں، یا جنگ اخبار یا پھر افتخار چوہدری۔۔۔۔ انصاف کا معیار بالکل ایک ہے۔
اور انصاف یہ ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں اور ہر کسی کو جوابدہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا ہے۔

مگر یہ کیا کہ انصاف اور گہرائی کی نظر کو صرف عبدالحمید ڈوگر کے لیے مختص کر دیا جائے جبکہ افتخار چوہدری ان چیزوں سے اس قانون سے بالاتر ہو؟
تو گہرائی کی نظر سے دیکھنا ہی ہے تو کیا پھر اسکا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ افتخار چوہدری کے اندر چور تھا اس لیے اپنے خلاف کسی بھی تحقیقات کے خلاف تھا۔ اور اگر دل میں چور نہ ہوتا تو کہہ دیتا کہ کر لو تحقیقات۔

ہو سکتا ہے کہ افتخار چوہدری اچھا آدمی ہو۔ مگر اچھے آدمی بھی جرم کرتے ہیں، اور ان جرائم کی سزا ان اچھے آدمیوں کو بھی ملنی چاہیے۔ افتخار چوہدری نے اپنے بیٹے کو میڈیکل کالج اور پھر پولیس میں بھرتی کروایا ہے تو اگر عدالتی کمیشن اسکی تحقیقات کرتا تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے تھا۔

میں کہتی ہوں کہ:

1۔ نہ صرف یہ کہ عبدالحمید ڈوگر کے خلاف عدالتی تحقیقات ہوں۔
2۔ بلکہ افتخار چوہدری کو بھی بحال کیا جائے اور اسی بحالی کی حالت میں اسکے خلاف بھی تحقیقات ہوں۔

اور اگر ان کے جرائم ثابت ہو جائیں تو پھر انکو سزا بھی ہونی چاہیے۔ یہ چیز انصاف کے زیادہ نزدیک ہے۔
 

سعود الحسن

محفلین
اور مشرف صاحب کی حکومت کو مضبوط کہنے سے اصل حقائق تبدیل نہیں ہوتے کہ مشرف صاحب کی حکومت ایک آزادانہ ماحول فراہم کر رہی تھی جس میں میڈیا کو اور عدالت کو مکمل آزادی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ کریں۔
مگر سب سیاستدانوں نے مل کر [جو کہ ویسے تو ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے ہیں، مگر مشرف صاحب کے خلاف اکھٹے ہو گئے تھے] چوہدی افتخار کا قصہ سڑکوں پر لے آئے۔ اور میڈیا نے اس پر واویلا مچا دیا۔
اسکے بعد عدالت اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھِی، مگر اُس نے وہ تاریک فیصلہ کیا جس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور وہ یہ کہ چیف جسٹس ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہے۔
ایسا تو کسی اسلامی ریاست کے سربراہ کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ چیف جسٹس کی وقتی معطلی قانون کے خلاف ہے تو بھی فیصلہ صرف اس وقتی معطلی کے خلاف ہو سکتا تھا، مگر جب ججوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات ہی نہیں ہو سکتیں تو آپ اور زین زیڈ صاحب آج اسے مشرف صاحب کی مضبوط حکومت جیسے عجیب و غریب استدلال سے ٹھکرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ خود بتلائیے میں ایسے اعتراض کا کیا جواب دے سکتی ہوں۔
باقی سب تو آپ کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے جس سے پورے پاکستان نے کھلے عام اختلاف کیا ، بحر حال اس پر تفصیلی بحثیں ہو چکی ہیں ۔

لیکن آپ کا یہ فرمانا کہ " عدالت اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھِی، مگر اُس نے وہ تاریک فیصلہ کیا جس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور وہ یہ کہ چیف جسٹس ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہے۔"
میرے لیے حیران کن ہے کیا آپ حوالہ دے سکیں گی کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کب اور کہاں دیا ہے، ایک وکیل ہونے کے ناطہے یہ میرے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔
 

ارم

محفلین
نام نہاد چیف جسٹس صاحب کی اسی کمزوری کی وجہ سے تو ابھی تک وہ کرسی ان کے پاس ہے۔ جس وجہ سے این آر او کو بھی تحفظ ملا اور مشرف جی کو بھی سکون ملا۔

اللہ ڈوگر صاحب کو عقل و ہدایت دے۔

آمین
 

ارم

محفلین
1۔ نہ صرف یہ کہ عبدالحمید ڈوگر کے خلاف عدالتی تحقیقات ہوں۔
2۔ بلکہ افتخار چوہدری کو بھی بحال کیا جائے اور اسی بحالی کی حالت میں اسکے خلاف بھی تحقیقات ہوں۔
نہ صرف یہ کہ عبدالحمید ڈوگر کے خلاف عدالتی تحقیقات ہوں۔

ان کے خلاف انکوائری نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اگر انہوں نے اپنی بیٹی کے پیار میں کسی سے سفارش کر دی تو کیا گناہ کیا؟؟؟؟
گُناہ یہ ہے کہ جس نے اس سفارش پر غلط کام کیا۔ وہ کیوں نا اپنے اقرار ھلف پر پورا اترا اس نے کیوں اس کی سفارش مانی۔ اگر وہ اتنا پاکدامن تھا تو اسے چاہیے تھا یہ کام نا کرتا ۔


بلکہ افتخار چوہدری کو بھی بحال کیا جائے اور اسی بحالی کی حالت میں اسکے خلاف بھی تحقیقات ہوں۔
چیف جسٹس افتخار صاحب جو کہ میں نہیں سوچتی کہ وہ دودھوں دُھلے ہیں۔ لیکن انہوں نے کوئی غلط کام کیا تو محاسبہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر وہ بھی کسی کو سفارش کرتے ہیں ۔ تو اس سفارش پر غلط کام کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی تو سفارشات ہی کی ہیں۔ اب یہ حکومت پر ہے وہ غلط کام کرتی ہے یا درست۔
سفارشی بُرا نہیں ہوتا ہے ۔ سفارش پر بُرا کام کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔

اگر کوئی بندہ اپنی سابقہ غلطیوں سے توبہ تائب ہو کر مسیحا بن رہا ہے تو اس کو موقع دینا چاہیے۔
اگر ہم مسٹر دس پرسنٹ کو اس کے گناہ معاف کر کے صدر مان سکتے ہیں تو۔ کیا چیف جسٹس کی سفارش معاف نہیں کی جا سکتی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں لوگو کب منصف فریادی ہوا ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
نہ صرف یہ کہ عبدالحمید ڈوگر کے خلاف عدالتی تحقیقات ہوں۔

ان کے خلاف انکوائری نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اگر انہوں نے اپنی بیٹی کے پیار میں کسی سے سفارش کر دی تو کیا گناہ کیا؟؟؟؟
گُناہ یہ ہے کہ جس نے اس سفارش پر غلط کام کیا۔ وہ کیوں نا اپنے اقرار ھلف پر پورا اترا اس نے کیوں اس کی سفارش مانی۔ اگر وہ اتنا پاکدامن تھا تو اسے چاہیے تھا یہ کام نا کرتا ۔


بلکہ افتخار چوہدری کو بھی بحال کیا جائے اور اسی بحالی کی حالت میں اسکے خلاف بھی تحقیقات ہوں۔
چیف جسٹس افتخار صاحب جو کہ میں نہیں سوچتی کہ وہ دودھوں دُھلے ہیں۔ لیکن انہوں نے کوئی غلط کام کیا تو محاسبہ ہونا چاہیے۔ لیکن اگر وہ بھی کسی کو سفارش کرتے ہیں ۔ تو اس سفارش پر غلط کام کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی تو سفارشات ہی کی ہیں۔ اب یہ حکومت پر ہے وہ غلط کام کرتی ہے یا درست۔
سفارشی بُرا نہیں ہوتا ہے ۔ سفارش پر بُرا کام کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔

اگر کوئی بندہ اپنی سابقہ غلطیوں سے توبہ تائب ہو کر مسیحا بن رہا ہے تو اس کو موقع دینا چاہیے۔
اگر ہم مسٹر دس پرسنٹ کو اس کے گناہ معاف کر کے صدر مان سکتے ہیں تو۔ کیا چیف جسٹس کی سفارش معاف نہیں کی جا سکتی ہے۔

دنیا کی تاریخ میں لوگو کب منصف فریادی ہوا ہے

شکریہ ارم سسٹر۔
بہرحال آپ کو علم ہے کہ انسان کی فطرت میں اختلاف الرائے ہونا موجود ہے۔ اور یہ مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے تو ہے بھی بہت اچھا۔

سفارش کرنے والا مکمل بے گناہ نہیں، اور جب بھی وہ جانتے بوجھتے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا سفارش کرتا ہے یا رشوت دیتا ہے یا اپنے اختیارات کے بل بوتے پر دباو ڈالتا ہے۔۔۔۔۔ یہ تمام کی تمام صورتیں اسکے بذات خود مجرم ہونے کا ثبوت ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو چیف جسٹس حضرات والی سفارش سے ملانا کچھ صحیح نہیں۔ ایک قانونی ہے اور دوسری غیر قانونی۔

اور صدر مسٹر ٹین پرسنٹ کا استدلال پیش کرنا بھی درست نہ ہو گا۔ اگر مسٹر صدر واقعی ٹین پرسنٹ والی کرپشن میں مبتلا ہیں تو تحقیقات کے بعد انہیں اسکی سزا ملنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔ بائی دا وے، کیا آپ نے مسٹر ٹین پرسنٹ کے گناہوں کو واقعی معاف کر دیا ہے؟ اور کیا واقعی آپ سمجھتی ہیں کہ انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی ہے؟
اگر کوئی بندہ اپنی سابقہ غلطیوں سے توبہ تائب ہو کر مسیحا بن رہا ہے تو اس کو موقع دینا چاہیے۔
اگر ہم مسٹر دس پرسنٹ کو اس کے گناہ معاف کر کے صدر مان سکتے ہیں تو۔ کیا چیف جسٹس کی سفارش معاف نہیں کی جا سکتی ہے۔
مشرف دشمنی میں تو یہ سفارش کیا، قتل عام تک معاف کر دیں ۔۔۔۔ مگر حقیقی انصاف و عدالت ہمیشہ اسکے خلاف فیصلہ کریں گے۔
 

سعود الحسن

محفلین
اور مشرف صاحب کی حکومت کو مضبوط کہنے سے اصل حقائق تبدیل نہیں ہوتے کہ مشرف صاحب کی حکومت ایک آزادانہ ماحول فراہم کر رہی تھی جس میں میڈیا کو اور عدالت کو مکمل آزادی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ کریں۔
مگر سب سیاستدانوں نے مل کر [جو کہ ویسے تو ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے ہیں، مگر مشرف صاحب کے خلاف اکھٹے ہو گئے تھے] چوہدی افتخار کا قصہ سڑکوں پر لے آئے۔ اور میڈیا نے اس پر واویلا مچا دیا۔
اسکے بعد عدالت اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھِی، مگر اُس نے وہ تاریک فیصلہ کیا جس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور وہ یہ کہ چیف جسٹس ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہے۔
ایسا تو کسی اسلامی ریاست کے سربراہ کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ چیف جسٹس کی وقتی معطلی قانون کے خلاف ہے تو بھی فیصلہ صرف اس وقتی معطلی کے خلاف ہو سکتا تھا، مگر جب ججوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات ہی نہیں ہو سکتیں تو آپ اور زین زیڈ صاحب آج اسے مشرف صاحب کی مضبوط حکومت جیسے عجیب و غریب استدلال سے ٹھکرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ خود بتلائیے میں ایسے اعتراض کا کیا جواب دے سکتی ہوں۔
باقی سب تو آپ کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے جس سے پورے پاکستان نے کھلے عام اختلاف کیا ، بحر حال اس پر تفصیلی بحثیں ہو چکی ہیں ۔

لیکن آپ کا یہ فرمانا کہ " عدالت اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھِی، مگر اُس نے وہ تاریک فیصلہ کیا جس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور وہ یہ کہ چیف جسٹس ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہے۔"
میرے لیے حیران کن ہے کیا آپ حوالہ دے سکیں گی کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کب اور کہاں دیا ہے، ایک وکیل ہونے کے ناطہے یہ میرے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔

مہوش صاحبہ میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔۔
 

گرو جی

محفلین
وہ تمام صاحبان/صاحبات جو چیف جسٹس صاحب کو معصوم سمجہ رہے ہیں آج کا جنگ ملاحظہ فرمائیں‌
انصار عباسی صاحب کا ہی لکہا ہوا ہے ۔

لنک کے لئے جنگ کی ویب سائٹ ملاحظہ فرمائییں
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش صاحبہ میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔۔
سعود،
پتا نہیں آپ کون سے الفاظ کو سمجھ نہیں پا رہے کہ ججوں کی سپریم کورٹ نے آپ حضرات کے زعم کے مطابق مشرف کی مضبوط حکومت کے خلاف فیصلہ دیا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ اب پتا نہیں آپکو اس میں کیا چیز سمجھ نہیں آئی۔ بہتر ہے کہ اس مسئلے پر آپ اپنا موقف بتا دیں۔
 

سعود الحسن

محفلین
سعود،
پتا نہیں آپ کون سے الفاظ کو سمجھ نہیں پا رہے کہ ججوں کی سپریم کورٹ نے آپ حضرات کے زعم کے مطابق مشرف کی مضبوط حکومت کے خلاف فیصلہ دیا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ اب پتا نہیں آپکو اس میں کیا چیز سمجھ نہیں آئی۔ بہتر ہے کہ اس مسئلے پر آپ اپنا موقف بتا دیں۔
سپریم کورٹ تو ہمیشہ ججوں کی ہوتی ہے ، اس کے علاو ہ کوئی سپریم کورٹ میرے علم میں نہیں ہے۔۔۔

ویسے میں نے تو بڑے واضح طور پر آپ کے الفاظ بولڈ کیے تھے
اسکے بعد عدالت اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد تھِی، مگر اُس نے وہ تاریک فیصلہ کیا جس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی اور وہ یہ کہ چیف جسٹس ہر قسم کے مواخذے سے بالاتر ہے۔
ایسا تو کسی اسلامی ریاست کے سربراہ کے ساتھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر مسئلہ یہ ہوتا کہ چیف جسٹس کی وقتی معطلی قانون کے خلاف ہے تو بھی فیصلہ صرف اس وقتی معطلی کے خلاف ہو سکتا تھا، مگر جب ججوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ چیف جسٹس کے خلاف تحقیقات ہی نہیں ہو سکتیں

اصل میں میرے علم میں سپریم کورٹ کا ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہے جہاں سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو یا کسی بھی جج کو مواخذے سے بالا تر قرار دیا ہو ، جبکہ کسی بھی جج کے مواخذے کا طریقہ دستور میں بیان کردیا گیا ہو۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ جیسے کچھ لوگ مشرف کی محبت میں دستور کو ہی نہ مانتے ہوں۔۔۔۔

آپ کا اشارہ اگر سپریم کورٹ کے 20 جولائی 2007 کےفیصلہ کی طرف ہے تو یقینا آپ نے اسے پڑھا ہی نہیں اور اوپر جو آپ نے لکھا تو دنیا کے قوانین تو چھوڑیں ، پاکستان کے قوانین اوردینا بھر کی عدالتوں سے تسلیم شدہ بنیادی قانونی اصولوں تک سے آپ کی عدم واقفیت ظاہر کرتا ہے ، ورنہ 20 جولائی 2007 کا فیصلہ ایک مختصر فیصلہ تھا، جسے سمجھنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے، اس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں آنا تھا جو کبھی نہ آسکا،
آپ کی فوری معلومات کے لیے وہ فیصلہ یہاں مندرج کررہا ہوں انگریزی میں ہے امید ہے آپ سمجھ جایئں گی۔۔۔

Dates of hearing:
15th to 17th, 21st to 25th, 28th to 31st May, 2007, 1st, 4th to 8th, 11th to 14th, 18th to 21st, 25th to 28th June, 2007, 2nd to 5th, 9th to 12th and 16th to 20th July, 2007.
- - - - - - - -
ORDER

For detailed reasons to be recorded later, the following issues arising out of this petition are decided as under:-

(I) MAINTAINABILITY OF COP NO.21 OF 2007 FILED UNDER ARTICLE 184(3) OF THE CONSTITUTION

This petition is unanimously declared to be maintainable.

(II) VALIDITY OF THE DIRECTION (THE REFERENCE) ISSUED BY THE PRESIDENT UNDER ARTICLE 209(5) OF THE CONSTITUTION.

By a majority of 10 to 3 (Faqir Muhammad Khokhar, J., M. Javed Buttar, J. and Saiyed Saeed Ashhad, J. dissenting), the said direction (the Reference) in question dated March 9, 2007, for separate reasons to be recorded by the Hon. Judges so desiring, is set aside.

(III) VIRES OF JUDGES (COMPULSORY LEAVE) ORDER BEING PRESIDENT’S ORDER NO. 27 OF 1970 AND THE CONSEQUENT VALIDITY OF THE ORDER DATED 15.3.2007 PASSED BY THE PRESIDENT DIRECTING THAT THE CJP SHALL BE ON LEAVE

The said President’s Order No.27 of 1970 is, unanimously declared as ultra vires of the Constitution and consequently the said order of the President dated 15.3.2007 is also, unanimously declared to have been passed without lawful authority.

(IV) VALIDITY OF THE ORDER OF THE PRESIDENT DATED 9.3.2007 AND OF THE ORDER OF THE SAME DATE OF THE SUPREME JUDICIAL COUNCIL RESTRAINING THE CJP FROM ACTING AS A JUDGE OF THE SUPREME COURT AND/OR CHIEF JUSTICE OF PAKISTAN

Both these orders are, unanimously, set aside as being illegal. However, since according to the minority view on the question of the validity of the direction (the Reference) in question, the said Reference had been competently filed by the President, therefore, this Court could pass a restraining order under Article 184(3) read with Article 187 of the Constitution.

(V) VALIDITY OF THE APPOINTMENT OF THE HON’BLE ACTING CHIEF JUSTICES OF PAKISTAN IN VIEW OF THE ANNULMENT OF THE TWO RESTRAINING ORDERS AND THE COMPULSORY LEAVE ORDER IN RESPECT OF THE CJP

The appointments in question of the Hon’ble Acting Chief Justices of Pakistan vide notification dated 9.3.2007 and the notification dated 22.3.2007 are, unanimously, declared to have been made without lawful authority. However, this in-validity shall not affect the ordinary working of the Supreme Court or the discharge of any other Constitutional and/or legal obligations by the Hon’ble Acting Chief Justices of Pakistan during the period in question and this declaration is so made by applying the de-facto doctrine.

(VI) ACCOUNTABILITY OF THE HON’BLE CHIEF JUSTICE OF PAKISTAN
It has never been anybody’s case before us that the Chief Justice of Pakistan was not accountable. The same issue, therefore, does not require any adjudication.

All other legal and Constitutional issues raised before us shall be answered in due course through the detailed judgment/judgments to follow.

ORDER OF THE COURT

By majority of 10 to 3 (Faqir Muhammad Khokhar, J., M. Javed Buttar, J. and Saiyed Saeed Ashhad, J. dissenting), this Constitution Original Petition No.21 of 2007 filed by Mr. Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, the Chief Justice of Pakistan, is allowed as a result whereof the above-mentioned direction (the Reference) of the President dated March 9, 2007 is set aside. As a further consequence thereof, the petitioner CJP shall be deemed to be holding the said office and shall always be deemed to have been so holding the same.

The other connected petitions shall be listed before the appropriate Benches, in due course, for their disposal in accordance with law.
-------------

اس آرڈر کے پیرا نمبر چھ میں کہا گیا ہے کہ" اس پورے کیس میں کسی نے بھی یہ اسٹینڈ نہیں لیا کہ چیف جسٹس موخذے سے بالاتر ہے ، لہذا اس حوالے سے کسی حکم کی ضرورت بھی نہیں ہے"۔۔۔۔

میرے خیال میں اب آپ کی غلط فہمی دور ہوگئی ہوگی،
 

مہوش علی

لائبریرین
سعود، عدالتی کاروائیوں میں ایسی ایسی پیچیدگیاں پیدا کرنے کے گر بہت پرانے ہیں اور آپ کو ایسی قانونی شعبدہ بازیاں وہاں پر بھی نظر آ جائیں گے جہاں سپریم کورٹ بقول آپکے آمروں کے حق میں فیصلے دے رہی ہے۔

سیدھی سی بات ہے کہ:

1۔ چیف جسٹس کے خلاف الزامات ہیں
2۔ حکومت نے اس بنا پر اپنی فہم کے مطابق جو قانون ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے کاروائی کی درخواست کورٹ میں بھیجی۔
3۔ مگر عوام کو چونکہ مشرف کے خلاف کیا جا چکا تھا اور اس لیے انصاف کی بجائے عوامی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے قانونی پیچیدگیاں اور شعبدہ بازیاں استعمال کرتے ہوئے یہ کاروائی ہی نہ ہونے دی گئی۔

4۔ اب آپ سے یہ سوال ہے کہ بتائیں پاکستان کا وہ کونسا قانون ہے جس پر عمل کرتے ہوئے چیف جسٹس کے خلاف الزامات کی تحقیقات کروائی جا سکتی ہیں؟؟؟؟؟ یہ بہت سادہ سے سوال ہے اور اسے قانونی پیچیدگیوں اور گر کی نظر نہ کر دیجئیے گا۔
عدالت نے اوپر والے پیراگرافوں میں صاف طور پر صدر کے تمام آڈرز کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس کے بعد عملی طور پر کوئی صورت ہی نہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف کوئی تحقیقات ہو سکیں۔

قانونی موشگافیاں ایک طرف، پر عملی طور پر چیف جسٹس کو اس سے بالاتر کر دیا گیا ہے کہ اُن کے خلاف تحقیقات ہو سکیں۔ مشرف حکومت پہلے دن سے افتخار چوہدری کے خلاف کورٹ سے ہی تحقیقات کروانا چاہتی تھی، مگر آخر تک عملی طور پر یہ ممکن نہ ہو سکا اور ہر چیز کو قانونی شعبدہ بازیوں کی نظر کر دیا گیا۔

از سعود:
اس آرڈر کے پیرا نمبر چھ میں کہا گیا ہے کہ" اس پورے کیس میں کسی نے بھی یہ اسٹینڈ نہیں لیا کہ چیف جسٹس موخذے سے بالاتر ہے ، لہذا اس حوالے سے کسی حکم کی ضرورت بھی نہیں ہے"۔۔۔۔

مشرف حکومت پہلے دن سے افتخار چوہدری کے خلاف تحقیات [بذات خود سپریم کورٹ کے ایک بینچ] سے کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر قانونی شعبدہ بازیاں صاف ہیں۔
ظاہری بات ہے چیف جسٹس اپنے متعلق یہ نہیں کہہ رہا کہ اسے مواخذے سے بالاتر کر دو، مگر پھر بھی قانونی شعبدے دکھا کر عملی طور پر مشرف حکومت کو مکمل بے بس کر دیا گیا ہے کہ وہ افتخار چوہدری کے خلاف ایسی کوئی تحقیقات کروا سکے۔
 

طالوت

محفلین
مجھے تو بالکل بھی نہیں ، لیکن میرے خیر خواہوں کو یقیننا ہو گا :)
اور وہ سارے ۔۔۔۔۔۔۔۔:box:
:blush:
وسلام
 
Top