کار برائے فروخت ٭ ساغر خیامی

عرفان سعید

محفلین
کار برائے فروخت

ساغرؔ کسی سے گردشِ تقدیر کیا کہوں
ہونے دئیے نہ وقت نے حالات پُرسکوں
جھنڈے ہمارے گھر کے رہے یوں بھی سرنگوں
سر پر رہا سوار اک دکھاوے کا جنوں
بیٹھے بٹھائے دردِ سری اور مزید لی
ہم نے پرانی کار کسی سے خرید لی

چاروں طرف سے بند ہے صندوق کی طرح
چلنے سے پہلے اچھلے ہے بندوق کی طرح
لیتی ہے لمبی سانس بھی مدقوق کی طرح
چلتی ہے وہ سڑک پہ بھی معشوق کی طرح
اڑ جائے تو قدم نہ اٹھائے برائے سیر
چل جائے تو رکے نہ وہ دیوار کے بغیر

پھٹکار ایسی کار کے ساغرؔ خیال پر
روتا ہے پھوٹ پھوٹ کے ماضی بھی حال پر
کہنا پڑے قصیدے کئی جس کی چال پر
کچھوا ہے وہ چڑھائی پہ ہرنی ہے ڈھال پر
اکثر مرے گھٹانے پہ اسپیڈ بڑھ گئی
اڑ کر سڑک سے چاٹ کے ٹھیلے پہ چڑھ گئی

حالات اس قدر مرے سنگین ہو گئے
کپڑے کسی کے چاٹ سے رنگین ہو گئے
تیار مار پیٹ پہ دو تین ہو گئے
رخ مہ رخوں کے اور بھی نمکین ہو گئے
شرمندگی کے غار کو یوں پاٹنا پڑا
کتنے ہی گل رخوں کو مجھے چاٹنا پڑا

کیا کہیے کس طرح مرے جی کو جلائے ہے
آگے اگر چلا جاؤں تو پیچھے کو جائے ہے
مرغی کی طرح دھول پروں سے اڑائے ہے
سو بار دن میں جیل کے رستے دکھائے ہے
ہے کار کس کے پاس جو اتنی قدیم ہو
آئے جو باپ سامنے بیٹا یتیم ہو

چلتے چلاتے کھوپڑی اس کی جو پھر گئی
وہ دشمنِ حیات گھٹا بن کے گھِر گئی
ٹوپی کسی شریف کی نالی میں گر گئی
آئی تھی موت اس کی مگر اُس کے سر گئی
کانسٹبل کھسک گئے چوراہے چھوڑ کر
بیت الخلا میں گھس گئی دیوار پھوڑ کر

داخل ہوئی جو پھوڑ کے دیوار جل پری
بیٹھے ہوئے کموٹ پہ تھے ایک شیخ جی
عکسِ اجل کو دیکھ کے حالت ہوئی بری
ہونٹوں میں جھولنے لگی بیڑی دبی ہوئی
دیکھی جو موت روح بدن سے ہوا ہوئی
لمحوں میں سات روز کی حاجت رفع ہوئی

گو ہے شکستہ حال پہ ہمت بلند ہے
کھینچے جو سوئے دار وہ ایسی کمند ہے
یہ ہی نہیں کہ شرارت پسند ہے
پہیوں میں اس کے وقت کی رفتار بند ہے
چھوٹی ببول سے تو پھنسی آ کے نیم میں
ہٹلر کا کام آئی ہے جنگِ عظیم میں

موٹر خریدنے سے بڑا نام ہو گیا
کہتے ہیں لوگ آپ کو آرام ہو گیا
ان کو خبر نہیں مجھے سرسام ہو گیا
گھر جس کی دیکھ بھال میں نیلام ہو گیا
لِلّہ میری جانِ عزیزی بچائیے
گاہک کوئی ملے تو مجھے بھی بتائیے

(ساغر خیامی)





 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
داخل ہوئی جو پھوڑ کے دیوار جل پری
بیٹھے ہوئے کموٹ پہ تھے ایک شیخ جی
عکسِ اجل کو دیکھ کے حالت ہوئی بری
ہونٹوں میں جھولنے لگی بیڑی دبی ہوئی
دیکھی جو موت روح بدن سے ہوا ہوئی
لمحوں میں سات روز کی حاجت رفع ہوئی
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
کار برائے فروخت
ساغرؔ کسی سے گردشِ تقدیر کیا کہوں
ہونے دئیے نہ وقت نے حالات پُرسکوں
جھنڈے ہمارے گھر کے رہے یوں بھی سرنگوں
سر پر رہا سوار اک دکھاوے کا جنوں
بیٹھے بٹھائے دردِ سری اور مزید لی
ہم نے پرانی کار کسی سے خرید لی
چاروں طرف سے بند ہے صندوق کی طرح
چلنے سے پہلے اچھلے ہے بندوق کی طرح
لیتی ہے لمبی سانس بھی مدقوق کی طرح
چلتی ہے وہ سڑک پہ بھی معشوق کی طرح
اڑ جائے تو قدم نہ اٹھائے برائے سیر
چل جائے تو رکے نہ وہ دیوار کے بغیر

پھٹکار ایسی کار کے ساغرؔ خیال پر
روتا ہے پھوٹ پھوٹ کے ماضی بھی حال پر
کہنا پڑے قصیدے کئی جس کی چال پر
کچھوا ہے وہ چڑھائی پہ ہرنی ہے ڈھال پر
اکثر مرے گھٹانے پہ اسپیڈ بڑھ گئی
اڑ کر سڑک سے چاٹ کے ٹھیلے پہ چڑھ گئی

حالات اس قدر مرے سنگین ہو گئے
کپڑے کسی کے چاٹ سے رنگین ہو گئے
تیار مار پیٹ پہ دو تین ہو گئے
رخ مہ رخوں کے اور بھی نمکین ہو گئے
شرمندگی کے غار کو یوں پاٹنا پڑا
کتنے ہی گل رخوں کو مجھے چاٹنا پڑا

کیا کہیے کس طرح مرے جی کو جلائے ہے
آگے اگر چلاؤں تو پیچھے کو جائے ہے
مرغی کی طرح دھول پروں سے اڑائے ہے
سو بار دن میں جیل کے رستے دکھائے ہے
ہے کار کس کے پاس جو اتنی قدیم ہو
آئے جو باپ سامنے بیٹا یتیم ہو

چلتے چلاتے کھوپڑی اس کی جو پھر گئی
وہ دشمنِ حیات گھٹا بن کے گھِر گئی
ٹوپی کسی شریف کی نالی میں گر گئی
آئی تھی موت اس کی مگر اُس کے سر گئی
کانسٹبل کھسک گئے چوراہے چھوڑ کر
بیت الخلا میں گھس گئی دیوار پھوڑ کر

داخل ہوئی جو پھوڑ کے دیوار جل پری
بیٹھے ہوئے کموڈ پہ تھے ایک شیخ جی
عکسِ اجل کو دیکھ کے حالت ہوئی بُری
ہونٹوں میں جھولنے لگی بیڑی دبی ہوئی
دیکھی جو موت روح بدن سے ہوا ہوئی
لمحوں میں سات روز کی حاجت رفع ہوئی

گو ہے شکستہ حال پہ ہمت بلند ہے
کھینچے جو سوئے دار وہ ایسی کمند ہے
یہ ہی نہیں کہ یہ شرارت پسند ہے
پہیوں میں اس کے وقت کی رفتار بند ہے
چُھوٹی ببول سے تو پھنسی آ کے نِیم میں
ہٹلر کے کام آئی ہے جنگِ عظیم میں

موٹر خریدنے سے بڑا نام ہو گیا
کہتے ہیں لوگ آپ کو آرام ہو گیا
ان کو خبر نہیں مجھے سرسام ہو گیا
گھر جس کی دیکھ بھال میں نیلام ہو گیا
لِلّہ میری جانِ عزیزی بچائیے
گاہک کوئی ملے تو مجھے بھی بتائیے

(ساغر خیامی)
 
Top