اقتباسات کاجل کوٹھا سے اقتباس

الہی یہ کس نگر کے لوگ ھوتے ہیں !
درویشی ریت کا ذرا سا ذرا نہیں ھوتی اور نہ ھی مٹھی بھر ریگ کی مانند ھے یہ تو ادب، خدمت، اطاعت اور ریاضت کے ان گنت اربوں کھربوں زروں کا خشک صحرا ھوتا ھے۔۔ چکا چوند اُجالے میں سراب اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں قطبی تارا۔۔۔ حاصل گھاٹ تو کبھی نیل کا ماٹ، دلق اویسی تو کبھی کاسہ قیس یہ فغان یعقوب بھی ھے اور کبھی صبر ایوب بھی۔۔ یہ درفش کاویانی بھی ھے اور عصائے سلیمانی بھی ھے، یہ ہنر آزری بھی اور سحر سامری بھی ھے۔
میں درویشی کی راہ کا کمزور سا مسافر ھوں۔۔ زاد راہ ھے نہ ہمت و سکت، در در بھٹک رہا ھوں، ٹھوکریں، رسوائیاں، رتجگے، جان ماریاں میرا نصیب ہیں۔۔ مجھے یہ حکم ھے کے چلتے رھو۔۔۔ اللہ کی زمین، آسمان، پہاڑ، دریا، صحرا، جنگل ویرانے، گل خانے تمھارے منتظر ہیں، جاؤ ان سے آشنائی پیدا کرو، پیادہ، جانوروں کی پیٹھ، گول پہیوں والی مشینوں پہ، آہنی پروں والے پرندوں پہ، سمندروں کے سینے پہ تیرتے ھوے راج ہنسوں پہ کہ درویشی، دریوزہ گری نہیں۔۔۔۔ دیدہ دری اور رفو گیری ھے۔
گندہ کرنا ایسا مشکل نہیں جتنا مشکل پاک صاف کرنا ھوتا ھے۔۔۔ سرسراتی ہوا کی مانند مست خرامی بھی کبھی ایسی سوہان روح نہیں ھوتی جیسی حالت قید و قیام، روح فرسا ھوتی ھے، کہہ بول لینا دینا ھی اتنا دکھ درد کا باعث نہیں ھوتا جتنا ک چپ گمُ ، جان جلاتی ھے۔۔ چکی کا قطب خود تو دھرا، کھڑا ، گڑا اور پڑا رہتا ھے۔۔ مگر مدار کے اندر پتھر پاٹوں کو جمائے، چلائے، بھگائے رکھتا ھے۔۔۔۔۔ آسمان، ستاروں سے ذمین، زروں سے۔۔۔۔۔ سمندر، قطروں سے اور دشت دمن، اشجار و اثمار سے جل تھل ھوتے ہیں ۔۔۔۔۔
(کاجل کوٹھا سے اقتباس) از بابا محمد یحی خان
 

تلمیذ

لائبریرین
سبحان اللہ!
الفاظ ہیں، کہ اس درویش بابا محمد یحیی خان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ میں تو ان کی بعض تحاریر پڑھ کر حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہوں۔کوئی رسمی تعلیم نہیں ،لیکن پھر بھی زبان و بیان پر اتنا عبور!یہ باری تعالے کا کرم نہیں تو اور کیا ہے۔
شراکت کے لئےشکریہ، جناب شاہ جی۔
 
Top