ڈیفنس میں شریعت

محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
میں اہلیانِ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے عزت مآب آصف زرداری، سپہ سالارِ پاکستان جنرل کیانی، مجاہدینِ اسلام مولانا صوفی محمد اور انکے داماد (براڈ کاسٹر آف دی ائیر اور فاتح سوات) مولانا فضل اللہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے وادی میں نظام عدل کے قیام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس تاریخی موقع کی مناسبت سے میں آپ حضرات کی توجہ کوچہ ڈیفنس کے ہر کونے میں جاری منکرات کی طرف دلانا چاہتا ہوں اور یہ درخواست کرتا ہوں کہ شرعی قوانین کے فضائل سے ہمیں محروم نہ رکھا جاوے اور ان قوانین کا اطلاق فی الفور کیا جاوے۔

آپ حضرات کی سہولت کے لیے میں ایک سات نکاتی منصوبہ پیش کرنا چاہتا ہوں جسے پڑھ کر آپ پر یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ یہ علاقہ شیطان کا مسکن بنتا جارہا ہے۔

1- ہمارے علاقے کی گلیوں میں سینکڑوں بچے اپنے قد سے دُگنے سائز کے پلاسٹک کے تھیلے اٹھائے سارا دن گھومتے رہتے ہیں۔ یہ گھروں سے باہر پھینکے جانے والے کچرے میں سے چیزیں اٹھاتے ہیں اور ان کو بیچتے ہیں
حالانکہ اس خطے کے زیادہ تر لوگ صوم و صلات کے پابند ہیں لیکن کئی گھروں سے حرام کچرا بھی پھینکا جاتا ہے جس میں ام الخبائث کی خالی بوتلیں، پرانی CDs اور عورتوں کی تصویر والے رسالے بھی ہوتے ہیں۔یہ لوگ نہ صرف ان حرام چیزوں کو چھوتے ہیں بلکہ ان کو بیچ کر حرام کی کمائی سے اپنے بچوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ اس غیر شرعی دھندے پر فوراٰ پابندی لگائی جاوے۔

2- چونکہ مولانا فضل اللہ کی فتوحات میں ان کے FM ریڈیو کا اہم کردار رہا ہے، انکی دیکھا دیکھی شہر کراچی میں بھی کئی لوگوں نے اپنے ریڈیو سٹیشن قائم کرلیے ہیں۔ لیکن نعوذ باللہ ان سٹیشنوں سے بھی شیطان آواز بدل بدل کر بولتا ہے اور دن رات یہاں سے شہوانی جذبات بھڑکائے جانے والے گیت سنائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک سٹیشن نے تو اپنا نام تک مست ایف ایم رکھ لیا ہے جس سے یہودی سازش کی بو آتی ہے۔ شنید ہے کہ حکومت پاکستان گذشتہ دو سال سے مولانا فضل اللہ کے FM کو جام کرنے کے لیے ایک جیمر خریدنے کو کوشش کر رہی تھی۔ اب چونکہ امن معاہدے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی اس لیے ہماری گذارش ہے کہ یہ جیمر ہمارے علاقے میں نصب کیا جاوے تاکہ ہمارے کان ان شیطانی آوازوں سے محفوظ رہ سکیں۔

3۔ہمارے علاقے کے بازاروں میں شام کے وقت کم عمر بچے اور بچیاں گلاب کے پھول بیچتے پائے جاتے ہیں۔ جہاں کہیں مرد عورت کو ساتھ دیکھتے ہیں یہ ان کو پھول بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھلا سوچیں گلاب کا پھول دیکھ کر انسان کے دل میں کوئی اسلامی جذبہ تو بیدار ہو نہیں سکتا کوئی برا خیال ہی آئے گا۔ ہماری گذارش ہے کہ فحاشی اور عریانی کو جنم دینے والی ان ترغیبات کا فوری قلع قمع کیا جائے۔ ویسے بھی ان بچوں کو کسی مدرسے میں فقہ اور حدیث کی تعلیم دی جائے تاکہ بڑے ہو کر ملت اسلامیہ کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بنیں۔
- ہمارے علاقے کے گھریلو ملازم اپنی چھٹی والے دن سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے ہیں جس سے نہ صرف ٹریفک کے نظام میں خلل پڑتا ہے بلکہ بعض دفعہ نمازی راستے میں رک کر کرکٹ دیکھنے لگتے ہیں۔ ویسے تو علاقے کے رہائشیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے ملازمین کو چند گھنٹے کی جو چھٹی دیتے ہیں وہ دیا ہی نہ کریں لیکن اس بارے میں اگر مولانا صوفی محمد ایک فتویٰ جاری کردیں تو اس معاشرتی برائی کے سدباب میں مدد ملے گی۔

5-آج کل ہمارے علاقے کی گلیوں میں کئی نوجوان ایک ہاتھ میں پلاسٹک کے پھولوں کا گلدستہ لیے اور کندھے پر کیمرہ لٹکائے گھومتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کئی گھریلو ملازمین اس گلدستے کے ساتھ اپنی تصویر بنواکر اپنے آبائی گاؤں بھیجتے ہیں۔ (چونکہ تنخواہ اتنی کم ہے کہ خود گھر نہیں جاسکتے) پھول! کیمرے! اگر اس نکتے کو نکتہ نمبر تین کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ کتنی گہری سازش ہے۔ اسکے سدباب کے لیے فوری کارروائی کی جائے۔

6-ہمارے علاقے میں نفاذ شریعت کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمندر ہے۔ (جو کہ سوات میں نہیں ہے اسی لئے وہاں یہ کام چند سو سکول تباہ کرنے اور چند ہزار دشمنانِ اسلام کو جہنم رسید کرنے کے بعد آسانی سے ممکن ہو گیا) ہماری نظریں اس وقت شرم سے جھک جاتی ہیں جب اپنی ایک عفت مآب بہن کو عبا اور حجاب پہنے کسی لوفر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ساحل پر گھومتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ انکے حلیے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن سے آشنا ہیں (ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ فاحشہ اور بدکردار عورتیں بھی اب یہ روپ دھارنے لگی ہیں)۔ قصور یقیناٰ سمندر کا ہے۔ اسکی لہروں میں جب تلاطم آتا ہے تو لوگ اپنے اندر کے مسلمان کو بھول کر حیوان بن جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک سیدھا سا حل ہے۔ کچھ عربی بھائیوں نے کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر میں بجری ڈال کر مومنوں کے لیے لگژری فلیٹس کے پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور تمام سمندر میں بجری اور کنکریٹ ڈال کر اسے پُر کر دیا جائے۔ نہ سمندر ہوگا ، نہ لہریں اٹھیں گی نہ لوگوں کے شہوانی جذبات بھڑکیں گے۔
7۔ہمارے علاقے میں چاند کی وجہ سے بھی کئی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ پہلی نظر میں شاید یہ مسئلہ سمجھ میں نہ آئے لیکن جب اللہ کی رحمت سے مطلع صاف ہو اور چاند پورا ہو تو نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے شہوانی جذبات بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کا بھی حل موجود ہے۔ پاکستان کے بابائے بم، شاعرِ بے مثال اور کالم نگارِ باکمال حضرت ڈاکٹر عبدالقدیر سےگذارش کی جائے کہ وہ ایک ایسا میزائل بنائیں جو چاند کو تہس نہس کردے۔ اگر مدظلہ عذر صحت پیش کریں تو انہیں یہ دلیل دی جاوے کہ اگر چاند نہیں ہوگا تو کبھی کوئی ہندو بھی وہاں پر قدم رکھ کر امت مسلمہ کو نیچا نہیں دکھا سکے گا۔ (آپ نے خبروں میں پڑھا ہوگا کہ ہندو، امریکیوں کے ساتھ سازش کر کے اپنی لڑکیوں کو چاند پر بھیجنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان میں سے ایک خلائی جہاز پھٹنے کی وجہ سے واصل جہنم بھی ہو گئ تھی)۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو پھر بھی تامل ہو تو انہیں ان کی خدمات کے عوض ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ایک ہزارگز کے پلاٹ کی پیشکش کی جاوے، فوراٰ مان جائیں گے۔
اصل ربط
 
Top