ڈیجیٹل فوٹو گراف اور شریعت

ضیاء حیدری

محفلین

ڈیجیٹل فوٹو گراف اور شریعت

زمانے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے مسائل درپیش آجاتے ہیں، جن پر غورو فکر کرکے شرعیت میں،ان کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ کیاجاتا ہے۔ شریعت اسلامی نے جدید مسائل میں بحث و تمحیص اور تنقید،رد و قبول کے دروازوں کو بند نہیں کیا۔ بلکہ تحقیق، قرآن و سنت سے ہدایت کے ذریعہ اس کے حل کا طریقہ سکھایا۔ جس سے مسائل کو سلجھانے میں مدد ملتی ہے۔
شریعت اسلامیہ میں کوئی شئے محض مشتبہ ہونے کی بناء پر مباح و حرام کے درجے میں شامل نہیں ہو جاتی بلکہ جب کسی گنا ہ، حرام و جرم میں ٹھوس قابل قبول گواہی نہ ملے لیکن علامتیں دستیاب ہوں تو یہ علامتیں خود شہادت بن جاتی ہیں۔ غلط تاویل سے اس کے خلاف حکم شرعی اور مقرر کردہ سزائیں معاف نہیں ہوسکتیں۔

محض جذباتی ذہنی وابستگی اور گروہی، جماعتی اختلاف کی بناء پر کوئی فکر، نہج و طریقہ کار اور طرز عمل کو ممنوع یا مشروع قرار نہیں دیا جا سکتا۔
الله تعالى نے فرمايا: ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻛﺴﯽ ﻟﻐﻮ ﭼﯿﺰ ﭘﺮ ﺍﻥ کا ﮔﺰﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿ
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے آیت کی تفسیر میں ذکر فرمایا ہے۔ کہ تمام برائیاں اس میں شامل ہے، شرک، کفر، مشرکین کے تہوار، شراب وسگريٹ نوشی کی مجلسیں، ناچ گانے اور موسیقی کے آلات، فلمیں اور ان کے مثل دیگر چیزیں اس میں شامل ہیں،

علماء سوء کا طریقہ دراصل شیطان کی خوشنودی ہوتا ہے، یعنی گناہ کی کسی بھی چيز کو خوشنما بنا کر اسے پیش کرنا، اور باطل کی ایسی ملمع سازی کی جائے کہ گمان ہو کہ وہی حق ہے، اور یہی چيز کفار کی طرف سے پیش آتی ہے، یعنی وہ برائیوں کو ایسی صفات سے متصف کرکے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں کہ لوگ اس میں رغبت کرنے لگیں، اور ان سے متنفر نہ ہوں،

حرام پر حلال کی ملمع کاری کرنے والے پر اس عمل کے کرنے والے کا گناہ ہوگا اور اس کی طرف بلانے کا گناہ بھی ہوگا۔ اور سب سے سنگین جرم یہ ہے کہ زبان سے اس برائی کی طرف بلانے کی دعوت دی جائے۔
رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحيح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص ہدایت کی طرف دعوت دے تو اس ہدایت پر عمل کرنے والوں کی طرح اسے اجرو ثواب ملتا ہے، اس سے ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی، اور جو شخص کسی گمراہی کی طرف بلائے تو اس پر بھی اتنا ہی گناہ پڑے گا جتنا اس گمراہی کی اتباع کرنے والوں پر پڑے گا، اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ نیز اس مفہو م کے دلائل بہت ہیں۔
فوٹو گرافی، فلم ٹی وی، پبلسٹی کا ذریعہ بن گیا ہے، علمائے حق ہمیشہ اس فعل قبیح کے مخالف رہے ہیں، لیکن علمائےسوء کی شہرت ہی میڈیا کی مرہون منت ہے، میڈیا صرف انھیں علماء کو کوریج دیتا ہے جو اس کے ڈھب کے ہوں، اور ان کی گائیڈ لائن کے مطابق بات کرتے ہوں۔

دین میں کسی شئے کو مباح قرار دینے سے قبل حسب ذیل چند سوالات کے تشفی بخش جوابات کا حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
۱۔ جائز قرار دینے والی اصل شئے کون سی ہے؟۔
۲۔ اسے مباح قرار دینے کے لئے کن باتوں پر انحصار کیا جا رہا ہے؟۔
۳۔ کیا تحقیق و تجزیہ کے تمام مراحل طئے کئے جا چکے ہیں ؟جو مشروع قرار دینے کے لئے لازمی ہے۔
۴۔ کیا صرف قیاس analogy ، مفروضاتassumption ، ظاہر پسندیFormalism کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی شئے کے جائز ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے ؟

ڈیجیٹل فوٹو کا مسئلہ کو جائز قرار دینے والے اسے تصویر سے علیحدہ قرار دے کر، اسے حلال کہتے ہیں، ڈیجیٹل فوٹو کوغیر تصویر کے زمرے میں شامل رکھ کر اسے جائز قرار دینے سے وہی کفریہ مسائل پیدا ہوں گے۔ کیونکہ اس طریقہ میں بھی ایسی کفریہ و مشرکانہ باتیں شامل ہیں جو اسے ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ نجی، عائلی، اجتماعی زندگی کو آفاقی دستور، روحانی، قانونی و اخلاقی ڈسپلن سے جوڑ رکھا ہے۔ ہر قدم اور موڑ پر چیک اینڈ کنٹرول قائم ہے۔ شریعت اسلامی کی وسعت و آسانیوں کا استحصال کرنے یا غلط تاویلات کے ذریعہ زندگی کے بڑے حصے کو اسلامی احکامات سے مستثنیٰ کر لینے کی کوئی عقل مند آدمی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔

ڈیجیٹل فوٹو اپنے ظاہر و باطن میں ممنوع اور خلاف شرع بات ہے، یہ میڈیا کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے، اور اسمیں شامل ہونے سے گناہ، شر اور منکر کے پھیلنے کا کوئی شبہ نہ ہے۔ فقہ میں ایسے اعمال کو گناہ و جرم سے قرار دیا جا تا ہے۔
فی زمانہ عوام کا رحجان ناچ و گانا کھیل و تماشہ کی طرف ہے اور میڈیا اس کے فروغ کا ذریعہ ہے، ایسے میں کچھ رنگ باز ملّا بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے چکر میں ہیں، بعض دانشور اور آزاد خیال تہذیب غیر سے متاثر حضرات کا یہ اصرار ہے کہ �� تمام جاری غیر شرعی افعال کو مستقل طور پر مستثنیٰ قرار دینا چاہئیے تاکہ مبرا عام کے تحت مسلمان اپنے تعقد پسند ی کے مطابق حصہ لیں۔ غیر ضروری کی پابندیاں روک ٹوک ان لوگوں کے نجی فیصلوں اور زندگی کی لذتوں و مشغولیات میں رکاوٹ نہ بنے۔��
زندگی کی لذتوں و مشغولیات سے بہرہ مند ہونے کے خواہش مند جان رکھیں کہ ایک دن خدا کے حاضر ہونا ہے، اس کی ناراضگی سے بچو، یہ میڈیا اور اس کی ریٹنگ یہیں دھری رہ جائے گی۔ جب لاد چلے گا بنجارہ
 

ضیاء حیدری

محفلین
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ نجی، عائلی، اجتماعی زندگی کو آفاقی دستور، روحانی، قانونی و اخلاقی ڈسپلن سے جوڑ رکھا ہے۔ ہر قدم اور موڑ پر چیک اینڈ کنٹرول قائم ہے۔ شریعت اسلامی کی وسعت و آسانیوں کا استحصال کرنے یا غلط تاویلات کے ذریعہ زندگی کے بڑے حصے کو اسلامی احکامات سے مستثنیٰ کر لینے کی کوئی عقل مند آدمی ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔
 
Top