ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

نسیم زہرہ

محفلین
آج کل کے دور میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جو جسم اور دماغ دونوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص، اور مجموعی طور پر 30 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔
پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔
تاہم اس مرض سے بری طرح متاثر ہونے والوں کو علم نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ اسے کام کی زیادتی یا حالات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
اگر اس مرض کی علامات کو پہچان کر فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتا ہے۔

ڈپریشن کی عام اور ابتدائی علامات
اس مرض کی ایک علامت اداسی ہے تاہم اس کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اور یہ صرف ایک ابتدائی علامت ہے۔
آج ہم آپ کو ڈپریشن کی کچھ غیر معمولی علامات بتا رہے ہیں۔ یہ علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ڈپریشن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور اب یہ وہ وقت ہے کہ مریض کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروی ہے۔
اگر آپ اپنے یا اپنے آس پاس موجود افراد میں سے کسی کے اندر ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو اس کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے۔

پشیمانی یا شرمندگی کا احساس
ڈپریشن کا شکار افراد شدید پشیمانی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہر برے کام کے لیے اپنے آپ کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔
یہ عمل انفردای شخصیت کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ اس رجحان سے کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں سے بالکل بے پرواہ ہو کر کافی عرصے تک احساس کمتری اور بلا وجہ کی پشیمانی کا شکار رہتا ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اسے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔

منفی سوچ
ڈپریشن کے مریض ہر بات میں منفی پہلو دیکھنے اور اس کے بارے میں منفی سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد خوشی کے مواقعوں پر بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال کر سب کو ناخوش کردیتے ہیں۔

تھکاوٹ
ڈپریشن کے شکنجے میں جکڑے افراد ہر وقت تھکن اور غنودگی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت سوچوں میں غلطاں رہتے ہیں، منفی سوچتے ہیں اور منفی نتائج اخذ کرتے ہیں۔
یہ عمل انہیں دماغی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور وہ ہر وقت غنودگی محسوس کرتے ہیں۔

عدم دلچسپی
اس مرض کا شکار افراد ہر چیز سے غیر دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک انہیں نہایت پرجوش کردینے والی چیزیں بھی ان کے لیے کشش کھو دیتی ہیں اور انہیں کسی چیز میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔
ان کا عمومی رویہ بظاہر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا لگتا ہے کیونکہ وہ کسی کام کو کرنے میں دلچسپی محسوس نہیں کر پاتے۔

قوت فیصلہ میں کمی
ڈپریشن کی ایک اور علامت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہونا بھی ہے۔
ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے کسی بھی شے کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ان کی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ ہو، یا پھر روز یہ فیصلہ کرنا کہ آج چائے پی جائے یا کافی۔
ایسے افراد بعض دفعہ کوئی فیصلہ کر بھی لیں تو وہ انہیں غلط محسوس ہوتا ہے اور کوئی مشکل وقت آنے سے قبل ہی وہ پچھتاووں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جذبات میں تغیر
ڈپریشن کے شکار افراد کے جذبات اور موڈ بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ کبھی وہ اچانک بہت زیادہ غصہ یا چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور کبھی نہایت خوش اخلاق اور مددگار بن جاتے ہیں۔
ان کے جذبات کا یہ تغیر ان کے رشتوں اور دیگر تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

خودکش خیالات
خودکشی اور موت کے بارے میں سوچنا کوئی عام عادت نہیں بلکہ ذہنی انتشار کی علامت ہے اور فوری طور پر علاج کی متقاضی ہے۔
ایسے خیالات اس وقت آتے ہیں جب کوئی شخص زندگی سے بالکل مایوس اور نا امید ہوجائے اور اسے لگے کہ اب کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔

ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں
یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے ماہرین نفسیات کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون بھی لازمی درکار ہے۔

ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

ویب ڈیسک, Author at ARYNews.tv | Urdu - Har Lamha Bakhabar
 

محبوب الحق

محفلین
آج کل کے دور میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جو جسم اور دماغ دونوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص، اور مجموعی طور پر 30 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔
پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔
تاہم اس مرض سے بری طرح متاثر ہونے والوں کو علم نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ اسے کام کی زیادتی یا حالات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
اگر اس مرض کی علامات کو پہچان کر فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتا ہے۔

ڈپریشن کی عام اور ابتدائی علامات
اس مرض کی ایک علامت اداسی ہے تاہم اس کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اور یہ صرف ایک ابتدائی علامت ہے۔
آج ہم آپ کو ڈپریشن کی کچھ غیر معمولی علامات بتا رہے ہیں۔ یہ علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ڈپریشن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور اب یہ وہ وقت ہے کہ مریض کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروی ہے۔
اگر آپ اپنے یا اپنے آس پاس موجود افراد میں سے کسی کے اندر ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو اس کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے۔

پشیمانی یا شرمندگی کا احساس
ڈپریشن کا شکار افراد شدید پشیمانی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہر برے کام کے لیے اپنے آپ کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔
یہ عمل انفردای شخصیت کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ اس رجحان سے کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں سے بالکل بے پرواہ ہو کر کافی عرصے تک احساس کمتری اور بلا وجہ کی پشیمانی کا شکار رہتا ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اسے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔

منفی سوچ
ڈپریشن کے مریض ہر بات میں منفی پہلو دیکھنے اور اس کے بارے میں منفی سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد خوشی کے مواقعوں پر بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال کر سب کو ناخوش کردیتے ہیں۔

تھکاوٹ
ڈپریشن کے شکنجے میں جکڑے افراد ہر وقت تھکن اور غنودگی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت سوچوں میں غلطاں رہتے ہیں، منفی سوچتے ہیں اور منفی نتائج اخذ کرتے ہیں۔
یہ عمل انہیں دماغی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور وہ ہر وقت غنودگی محسوس کرتے ہیں۔

عدم دلچسپی
اس مرض کا شکار افراد ہر چیز سے غیر دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک انہیں نہایت پرجوش کردینے والی چیزیں بھی ان کے لیے کشش کھو دیتی ہیں اور انہیں کسی چیز میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔
ان کا عمومی رویہ بظاہر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا لگتا ہے کیونکہ وہ کسی کام کو کرنے میں دلچسپی محسوس نہیں کر پاتے۔

قوت فیصلہ میں کمی
ڈپریشن کی ایک اور علامت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہونا بھی ہے۔
ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے کسی بھی شے کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ان کی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ ہو، یا پھر روز یہ فیصلہ کرنا کہ آج چائے پی جائے یا کافی۔
ایسے افراد بعض دفعہ کوئی فیصلہ کر بھی لیں تو وہ انہیں غلط محسوس ہوتا ہے اور کوئی مشکل وقت آنے سے قبل ہی وہ پچھتاووں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

جذبات میں تغیر
ڈپریشن کے شکار افراد کے جذبات اور موڈ بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ کبھی وہ اچانک بہت زیادہ غصہ یا چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور کبھی نہایت خوش اخلاق اور مددگار بن جاتے ہیں۔
ان کے جذبات کا یہ تغیر ان کے رشتوں اور دیگر تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

خودکش خیالات
خودکشی اور موت کے بارے میں سوچنا کوئی عام عادت نہیں بلکہ ذہنی انتشار کی علامت ہے اور فوری طور پر علاج کی متقاضی ہے۔
ایسے خیالات اس وقت آتے ہیں جب کوئی شخص زندگی سے بالکل مایوس اور نا امید ہوجائے اور اسے لگے کہ اب کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔

ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں
یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے ماہرین نفسیات کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون بھی لازمی درکار ہے۔

ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

ویب ڈیسک, Author at ARYNews.tv | Urdu - Har Lamha Bakhabar
بہت ہی اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے آپ نے
 

محمداحمد

لائبریرین
اگر کوئی ماہرِ نفسیات یہاں موجود ہے تو وہ بتائے کہ ایک عام آدمی ڈپریشن کے مریضوں کی کیا مدد کر سکتا ہے؟
 

احمد محمد

محفلین
ڈاکٹر صاحبہ نے کافی مفید معلومات کا تبادلہ کیا۔ امید ہے اس سے کافی رہنمائی ملے گی۔

زیک صاحب! معذرت کے ساتھ مراسلہ کی تدوین کردی ہے۔ ہم محفلین کی ناپسندیدگی کے نہیں بلکہ پسندیدگی کے طلبگار ہیں۔ امید ہے آپ درگذر فرمائیں گے۔
 
آخری تدوین:

راشد احمد

محفلین
ڈپریشن سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے اندر سے حرض اور لالچ ختم کیا جائے اور قناعت پسندی اختیار کی جائے

ہمارے اندر کا لالچ، بلاوجہ کی پریشانیاں پالنا، مذہب سے دوری ڈپریشن کا نتیجہ ہے
 

نسیم زہرہ

محفلین
اگر کوئی ماہرِ نفسیات یہاں موجود ہے تو وہ بتائے کہ ایک عام آدمی ڈپریشن کے مریضوں کی کیا مدد کر سکتا ہے؟

کہتے ہیں کسی معذور کو اس کی معذوری کا احساس دلائے بغیر اس کی مدد کرنا افضل ہے
کسی غریب کی امداد کرنا اس طرح کہ اس میں غریب کو اس پر ترس کھائے جانے کا احساس نہ ہو افضل ترین ہے

اسی طرح ڈپریشن (سائیکو) کے مریض کو اس کی بیماری کا احساس دلائے بغیر اس سے بہتر سلوک روا رکھنا مریض کی ذہنی حالت میں بہتری لانے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے
 

نسیم زہرہ

محفلین
ڈاکٹر صاحبہ نے کافی مفید معلومات کا تبادلہ کیا۔ امید ہے اس سے کافی رہنمائی ملے گی۔

زیک صاحب! معذرت کے ساتھ مراسلہ کی تدوین کردی ہے۔ ہم محفلین کی ناپسندیدگی کے نہیں بلکہ پسندیدگی کے طلبگار ہیں۔ امید ہے آپ درگذر فرمائیں گے۔

منفی سوچ ہمیشہ منفی ردِ عمل ہی ظاہر کرتی ہے

اس کا جواب شیخ سعدی دے چکے

عُرفی تو مندیش زغو غائے رقیباں
آوازِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

احمد محمد

محفلین
مالیخولیا، اختلاجِ قلب، مراق اور خفقان (depression) کی ایک بڑی وجہ احساسِ کمتری / احساسِ محرومی، ناکامی یا کھوکھلا پن ہے۔

اگر یہ زیادہ دیر تک مسلط یا برقرار رہے یا اس کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ اسقدر بگڑ جاتا ہے کہ پھر چاہے کھوکھلا پن ختم بھی ہو جائے، خوشیاں اور کامیابیاں مل بھی جائیں تب بھی یہ ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ قوی امکان ہے کہ پھر احساسِ کمتری ہی احساسِ برتری میں تبدیل ہو جائے جو کہ قطعی بہتر نہیں ہے بلکہ اس بگاڑ کی اگلی منزل ہے۔

احساسِ کمتری کی بابت تو کم و بیش سب ہی جانتے ہیں مگر احساسِ برتری کی بات کی جائے تو اس کی چند علامات برائے معلوماتِ عامہ پیشِ خدمت ہیں:-

خود کو زیادہ عقلمند سمجھنا۔

خود کو اعلٰی و ارفع یا دوسروں کو کمتر و حقیر جاننا۔

دوسروں کی مدلل رائے یا بات کو بھی رد یا ناپسند کرنا (اس کی عام مثال اس مراسلہ کے نشر ہونے پر آپ کو محفلین میں سے ہی چند مخصوص اس کو ناپسند یا غیرمتفق ہو کر پیش کر دیں گے :p) ۔

جمہوریت ایک رائے پر متفق ہو تو فقط اپنے آپ کو منفرد کرنے کے لیے یکسر الٹ رائے پیش کرنا۔

قدرے خودغرض ہونا۔

تحقیرآمیز لہجے سے یا تیزو تند جملوں سے جواب دینا جو دوسروں کی انا کو ٹھیس پہنچائیں یا انہیں تذلیل کا احساس دلانا۔

دوسروں کی پسندیدہ شخصیات یا اشیاء وغیرہ کی توہین کرنا یا بلا وجہ ان کے نقائص پیش کرنا۔

حوصلہ افزائی بالکل نہ کرنا بلکہ حوصلہ شکنی کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا۔

اس زمرہ میں بیان کرنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ :)

مندرجہ بالا حقائق ذاتی تجزیات کی روشنی میں خاص احتیاط کے ساتھ مرتب کئے گئے ہیں لہٰذا ان کے غلط ہونے کا امکان نہیں ہے تاہم اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یہاں یہ بھی واضع کرتا چلوں کہ ان سے اختلاف رکھنے والوں میں سے ہی آپ اس مرض سے دوچار افراد کی شناخت بخوبی اور بآسانی کر سکتے ہیں۔ :D

نوٹ: ڈاکٹر صاحبہ کی اجازت سے مراسلہ نشر ہونے پر ان علامات کی توثیق بھی ہو جائے گی۔ :)
 
آخری تدوین:

احمد محمد

محفلین
مراسلہ میں ایک دو نکات کے اضافہ کے ساتھ تدوین کی تھی تو مراسلہ دو دفعہ بھیجا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ سے التماس ہے کہ کم پیرا گراف پر مشتمل مراسلہ کو حذف فرما دیں۔ شکریہ
 
آخری تدوین:
Top