ڈرامہ من چلے کا سودا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشفاق احمد

اشفاق احمد نے جس تناظر میں یہ ڈرامہ لکھا ہے اس کی سمجھ شائد ہی کسی کو آئے۔ بات کوکھل کر بیان نہیں کرسکتا ہوں۔ کوشش کرونگا کہ رموز و اشارات میں کتمان راز کو بیان کرسکوں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
نیچے مختلف عنوانات سے دیوان قادری سے بیان کرونگا جس کو کسی دل جلے نے نثر کی صورت ڈھالا ہے۔


Uploaded with ImageShack.us
شاہ نیاز بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا
دید اپنے کی تھی اسے خواہش
آپ کو ہر طرح بنا دیکھا
صورتِ گُل میں کھل کھلا کے ہنسا
شکل بلبل میں چہچہا دیکھا
شمع ہو کر کے اور پروانہ
آپ کو آپ میں جلا دیکھا
کر کے دعویٰ کہیں انالحق کا
بر سرِ دار وہ کھنچا دیکھا
تھا وہ برتر شما و ما سے نیاز
پھر وہی اب شما و ما دیکھا
کہیں ہے بادشاہ تخت نشیں
کہیں کاسہ لئے گدا دیکھا
کہیں عابد بنا کہیں زاہد
کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا
کہیں وہ در لباسِ معشوقاں
بر سرِ ناز اور ادا دیکھا
کہیں عاشق نیاز کی صورت
سینہ بریاں و دل جلا دیکھا



Uploaded with ImageShack.us
اگر اس سلسلہ کو پسند کیا گیا تو دیوان قادری سے مزید کچھ کرونگا۔
 
Top