ڈاکٹر یوسف قرضاوی، ایک شخصیت پرت در پرت (2)

حسینی

محفلین
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

گذشتہ سے پیوستہ مطالب کا سلسلہ جاری ہے۔ الاتحاد العالمین العلماء المسلمین کے سربراہ ڈاکٹر شیخ یوسف قرضاوی جنھیں بعض لوگ شیخ فتنہ گر کہتے ہیں، جنھوں نے عجیب و غریب سیاسی فتووں کے علاوہ مذہبی حوالے سے بھی حیران کن فتوے دیئے ہیں اور جنھوں نے اپنی محبوبہ کو طلاق دے کر اب مراکش کی ایک خاتون سے مزید شادی رچا لی ہے اور جن کی عمر شریف اس وقت 87ویں بہار سے گزر رہی ہے، ان کے بارے میں ان کی طلاق یافتہ زوجہ ڈاکٹر اسماء کے انٹرویو کی اگلی قسط کا اردو ترجمہ نذر قارئین ہے:
الشروق: جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ شیخ آپ پر عاشق ہوچکے ہیں تو درپیش صورتحال کا آپ نے کیسے سامنا کیا۔؟ ڈاکٹر اسماء: ابتداء میں تو یہ صورت حال میرے لیے بہت تشویش کا باعث تھی۔ ایک طرف تو میں ان کی اپنے لیے شدید محبت دیکھ رہی تھی اور دوسری طرف میرا علماء، شیوخ اور دینی شخصیات سے ایک خاص طرح کا طرز عمل رہا تھا اور میں ان کے لیے خصوصی احترام رکھتی تھی۔ البتہ یہ مسئلہ میرے لیے زیادہ عجیب بھی نہ تھا، کیونکہ میں نے پہلے بھی اپنی دوستوں اور اپنے بعض دینی اساتذہ سے سن رکھا تھا کہ انھیں بھی اس سے ملتے جلتے واقعات پیش آچکے تھے، لیکن ہمارے اور دوسروں کے قصوں میں یہ فرق تھا کہ اولاً میری اور شیخ کی عمر میں بہت زیادہ فرق تھا اور دوسرا یہ کہ ان کی بیوی اور بچے بھی تھے۔ اسی لیے ایسا گہرا عشق جو پانچ برس تک چھپا رہا اس نے مجھے گہری فکر میں مبتلا کر دیا اور میں حیران ہو کر رہ گئی۔

الشروق: ان کی شادی کی خواہش پر آپ کا ردعمل کیا تھا؟ کیا آپ نے بلاواسطہ جواب دیا یا آپ نے جواب اپنے خاندان پر چھوڑ دیا۔؟ ڈاکٹر اسماء: ایک طرف تو میں خود حیرت اور تشویش میں ڈوبی ہوئی تھی اور دوسری طرف شیخ مجھے نہیں چھوڑتے تھے اور وہ مجھ سے رابطے یا خط لکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے کہ جس میں وہ اپنے جذبات بیان نہ کرتے ہوں۔ پھر انھوں نے یہ اشعار میرے لیے کہے:
یا حبیبی جد بوصل دمت لی واجمع شتاتی
لاتعذبنی کفانی مامضی من سنوات
بت اشکو الوجد فیھا شاربا من عبراتی
یاحبیبی وطبیبی ھل لدائی من دواء؟
لاتدعنی بالھوی اشقی، اترضی لی الشقاء؟
لاتدعنی ابک فالد مع سلاح الضعفاء!
کیف یحلو لی عیش ومقامی عنک ناء!
لاسلام لاکلام کلا اتصال لا لقاء
انا فی الثری ولیلای الثریا فی السماء!
اے محبوب! اب ضرور آجا اور میرے ساتھ ہم وصل ہوجا
کافی ہے کہ بہت سال بیت گئے، اب مجھے اور اذیت نہ دے
تجھے پانے کی خاطر رات اشکوں کے گھونٹ پیتے ہوئے گزارتا ہوں
اے محبوب، اے میرے طبیب کیا مرے درد کا کوئی درمان ہے؟
مجھے میری خواہش کے حوالے نہ کر دے کیا تو اس پر خوش ہے کہ میں سختیاں جھیلتا رہوں
مجھے روتا نہ چھوڑ دے کیونکہ آنسو تو کمزوروں کا ہتھیار ہیں
تیرے ساتھ جیون بِتانا میرے لیے کتنا شیریں ہے
لیکن تیری طرف سے نہ سلام ہے، نہ کلام ہے، نہ رابطہ ہے، نہ دیدار ہے
میں شب کی تاریکی میں پڑا ہوں اور ثریا آسمان میں ہے
البتہ میں نے شروع میں تو ساری بات اپنے خاندان سے مخفی رکھی، کیونکہ شیخ کو جو بلند مقام حاصل تھا اس کی وجہ سے مجھے شرم آتی تھی کہ ان سے کچھ کہوں۔

الشروق: ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا اپنا ردعمل کیا تھا۔؟ ڈاکٹر اسماء: میں نے شیخ کے نام اپنے پہلے خط میں اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: عشق کوئی ایسا تیر نہیں کہ جو اچانک دل میں اتر جائے اور اسے چیر پھاڑ دے اور جذبات کا فوارہ اندر سے پھوٹ پڑے۔ میرے نزدیک عشق ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا پہلے عقل کو ادراک کرنا چاہیے، پھر بعد میں وجدان اسے قبول کرے۔ میری نظر میں عشق کا معنی ہر شخص کی اپنی ذات و جوہر سے مربوط ہے۔ کیا آپ وہ جوہر بن سکتے ہیں، مجھے نہیں معلوم۔
اس خط میں میں نے مزید لکھا: مجھے نہیں معلوم کہ اس رابطے کا انجام کیا ہوگا، البتہ وہ بھی اس صورت میں جب میں اس رابطے کے جاری رہنے پر راضی ہوں تو۔
اس خط میں آگے چل کر میں نے ان سے ان کی دلچسپی کے بعض کاموں کے بارے میں دریافت کیا۔ البتہ اس بارے میں وہ اپنے پہلے تفصیلی خط میں کچھ وضاحتیں کرچکے تھے، لیکن میں چاہتی تھی کہ میں مزید اطمینان حاصل کرلوں اور یہ جان لوں کہ مجھ سے شیخ کا عشق کتنے پہلو رکھتا ہے اور اس میں انسانیت کس قدر شامل ہے۔

الشروق: آپ کے شیخ کے نام پہلے خط کے بعد کیا آپ کے درمیان نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہا۔؟
ڈاکٹر اسماء: ہاں، اس کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو چند خطوط ارسال کیے اور ایک دوسرے سے بہت سی باتیں کیں اور دنیا جہان کے بہت سے مسائل کے باے میں ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کیا۔ یہاں تک کہ شادی کے بعد بھی ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے رہے۔ شیخ نے میرے لیے شاعری اور قصیدہ خوانی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حتیٰ کہ اگر کبھی چھٹیوں میں یا چند روز کے لیے یا مثلاً وہ اپنے اصل وطن مصر چلے جاتے یا میں الجزائر آجاتی تو بھی ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے اور وہ مجھے شعر لکھ کر بھیجتے۔ ایک مرتبہ ہم چند دنوں کے لیے ایک دوسرے سے بچھڑے تو انھوں نے جو شعر لکھے، ان میں سے چند یہ تھے:
اے کاش طوفان آجاتا اور مجھے اپنے ساتھ لے جاتا
کیونکہ میرے دل میں شوق کی ایک ایسی آگ بھڑک رہی ہے جو مجھے جلائے دیتی ہے
ہجر کے دن میرے لیے عذاب بن گئے ہیں، یہ ہمیں ایک دوسرے سے کتنا دور کر دیتے ہیں
ہجر کی راتیں کتنی طویل ہوگئی ہیں اور نیند آنکھوں سے کوسوں دُور چلی گئی ہے
میری جان کو مزید دُوری اور ہجر کا یارا نہیں

گاہے ہم دونوں دوحہ میں ہی ہوتے لیکن وہ اپنے اصلی گھر میں اپنی پہلی بیوی کے پاس ہوتے، پھر بھی ان کا دل تنگ پڑ جاتا اور وہ میرے نام خط لکھ کر اپنے ڈرائیور کے ذریعے مجھے بھجواتے، جبکہ ہم صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتے، لیکن میں یہاں کچھ واپس جانا چاہتی ہوں، یعنی 1990ء تا 1991ء میں کہ جب شیخ مجھ سے شادی کرنے کے لیے الجزائر آئے اور وہ یہاں رہ رہے تھے۔ اس ایک سال میں بہت سے واقعات پیش آئے کہ جن کا ذکر یہاں مناسب نہیں۔ اس موقع پر بھی شیخ مجھ سے شادی کا مقصد حاصل نہ کرسکے اور دوحہ واپس چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔


عربی میں پورا انٹرویو پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں:
http://www.echoroukonline.com/ara/?news=6314
 
Top