ڈاکٹر غلام سرور : افغانستان ۔آج کا یک منظر دل خراش

سید زبیر

محفلین
افغانستان ۔آج کا یک منظر دل خراش
میرے پرکھوں کی سر زمین وطن
سخت جانوں کا مسکن اعلیٰ
ہر جفا کش کی محنتوں کا امیں
شیر بچوں کا پالنے والا
جس کے دامن پر بتوں کے ستون
آسمانوں کو رام کرتے ہیں
باد صر صر کے یخ بھرے جھونکے
خنجروں سے کلام کرتے ہیں
وادیوں کے شفیق دامن پر
مغربی فوجیوں کا قبضہ ہے
کھیت کھلیان بین کرتے ہیں
گلستانوں میں غم کا ڈیرہ ہے
گاؤں گاؤ ں پہ خوف ہے طاری
جیسے آسیب کا بسیرا ہے
چار دیواریوں میں مٹی کی
لوگ سہمے ہوئے سے لگتے ہیں
جسم و جاں پر عذاب سا نازل
روح زخمی ہے اور بدن گھائل
پیچ در پیچ دم بخود گلیاں
جن میں روتی ہیں عصمتیں عریاں
چاند آدھا ہے اور فضا مغموم
پیڑ لرزاں ہیں اور ہوا مسموم
جھیل پر جیسے ہول سا طاری
کپکپاتے ہیں جس میں کچھ تارے
ہلکی ہلکی آہٹوں پر بھی
وحشتوں کا گماں گذرتا ہے
بادلوں کے مہیب سایوں پر
دہشتوں کا سماں ابھرتا ہے
پربتوں کے اداس چہروں پر
زرد سی چاندنی کا پہرہ ہے
ایک ٹیلے کی اوٹ سے یک دم
ایک فوجی ٹرک نکلتا ہے
اور دھواں دھول خوب بکھرا کر
گاؤ ں کی سمت تیز بڑھتا ہے
پھر اچانک وہ اک دھماکے سے
چیتھڑے ہو کے دور گرتا ہے
آگ اور خوں کے اس الاؤ سے
ایک فوجی فقط ابھرتا ہے
کالے بارود کے دھوئیں میں گرا
اس کا گورا بدن سلگتا ہے
صبح دم جیسے انتقاماً پھر
آسمانوں سے آگ گرتی ہے
ہر طرف موت رقص کرتی ہے
بم گھروں آنگنوں میں پھٹتے ہیں
کتنے بے کس پڑے تڑپتے ہیں
بچے بوڑھے سبھی بلکتے ہیں
جانے اس بد نصیب بستی میں
لوگ کس طرح زیست کرتے ہیں
اک جہنم ہے یہ خرابوں کا
ایک بستی ہے یہ عذابوں کی
ڈاکٹر غلام سرور ۔ ہیوسٹن ، ٹیکساس کے مجموعہ کلام "سنگ رس " سے ایک انتخاب
 

طارق شاہ

محفلین
سید صاحب!
محسوسات کو چُھونے والی تحریر کے لئے تشکّر
انسان پڑھنے کے بعد سوچتا ہے کاش یوں نہ ہوتا

تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
 
Top