ڈاکٹر دعاگو ۔۔۔۔ص 65-75

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 65-75


“شکریہ جناب!“
“بہتر ہے کہ تم لوگ عمران کی حفاظت میک اپ میں رہ کر کیا کرو۔“
“بہت مناسب ہے جناب!“
“سب کو مطلع کردو۔“
“بہتر جناب۔!“
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
ابھی فون کے پاس سے ہٹا بھی نہیں تھا کہ پھر گھنٹی بجی۔ عمران نے ریسیور اٹھا لیا۔ دوسری طرف جولیا تھی اور کہہ رہی تھی۔ “ڈاکٹر دعاگو کی سیکرٹری مارتھا بھی ہوش میں آ چکی ہے۔ اور اب خطرے سے باہر ہے۔“
“ لیکن میں نے اس کے بارے میں تم سے کب پوچھا تھا۔“ عمران ماؤتھ پیس میں غرایا۔
“مم۔۔۔۔ میں نے۔۔۔۔ کہا شاید وہ بھی۔۔۔۔کیونکہ وہ عمران کے ساتھ تھی۔“
“عمران کے نجی معاملات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔“
“نجی معاملات۔“
“ہاں وہ مارتھا کے چکر میں ہے۔“ عمران بائیں آنکھ دبا کر بولا۔ اس کے ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ تھی۔
“خیر۔۔ جناب۔۔ ڈاکٹر دعاگو کا بیان۔“
“ٹھہرو۔۔۔ میں شارٹ ہینڈ میں نوٹ لوں گا۔“
اس نے میز پر پڑی ہوئی کاپی اور پنسل اٹھائی اور ماؤتھ پیس میں بولا۔ “شروع ہو جاؤ۔“
ڈاکٹر دعاگو فون پر عمران سے گفتگو کر رہا تھا۔ دفعتاً پشت والی کھڑکی سے ایک سیاہ رنگ کی بلی میز پر آ کودی۔۔۔۔ پھر دوسری بلی۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک بلی غراتی ہوئی اس پر اچانک حملہ کر بیٹھی۔۔۔ڈاکٹر دعاگو کا بیان ہے کہ وہ بےساختہ چیخ پڑا تھا۔۔۔۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا اس پر وہ روشنی نہیں ڈال سکا۔!“
“اس کے علاوہ اور کچھ؟“
“جی نہیں۔“
“اوور-اینڈ آل۔“ عمران نے ریسیور کریڈل پر ڈال دیا۔
کچھ دیر وہ پھر ڈاکٹر دعاگو کی کوٹھی کی طرف جا رہا تھا۔
کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں اسے ڈاکٹر کے ملازموں نے گھیر لیا تھا اور اس سے ڈاکٹر کی خیریت پوچھنے لگے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کیونکہ انہوں نے اسے ایمبولینس گاڑی کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔ عمران نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر روبصحت ہے۔ پھر اس نے ان سے پوچھ گچھ شروع کی اور انہیں باتوں میں الجھائے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ انہیں ساتھ لیے ہوئے کمپاؤنڈ کے اس حصے کی طرف جا نکلا جہاں سے ڈاکٹر کے بیان کے مطابق دونوں بلیاں کھڑکی کے راہ سے کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔!
“ کیا یہ کھڑکی روزانہ کھلی رہتی ہے۔!“ اس نے پوچھا۔
“جی ہاں۔۔!“ ایک ملازم نے جواب دیا
“کیا تم میں سے کسی نے ڈاکٹر کی چیخ بھی سنی تھی۔“
“جی ہاں۔ میں نے سنی تھی۔“ اسی ملازم نے کہا اور دوسروں کی طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے ان سے بھی اپنے بیان کی تائید کی توقع رکھتا ہو۔ لیکن کوئی کچھ نہ بولا۔
“تم اس وقت کہاں تھے۔“
“جی میں ادھر ہی سے گزر رہا تھا۔“
“تب تم یقینی طور پر کھڑکی کی طرف آئے ہوگے۔“
“جی ہاں۔۔ دوڑتا ہوا آیا تھا۔“
“پھر تم نے اس کھڑکی کے اندر بھی جھانکا ہوگا۔“
“جی ہاں۔“
“اندر ڈاکٹر کے علاوہ اور کون تھا۔“
“جی کوئی بھی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب فرش پر پڑے تھے اور ان کی کرسی الٹی پڑی تھی ، جی ہاں۔!“
“کمرے میں دو بلیاں بھی دوڑتی پھر رہی تھیں۔“ عمران نے اس طرح کہا جیسے خود سے مخاطب ہو۔
“جی۔۔ بلیاں؟۔۔ نہیں تو۔۔۔“ ملازم کے لہجے میں حیرت تھی۔
“تمہیں یقین ہے۔“
“ارے صاحب بلیاں۔۔بھلا۔۔ کیا بات ہوئی۔!“ وہ ہنس پڑا اور دوسرے بھی ہنسنے لگے۔
پھر عمران نے ان سے کہا کہ وہ کوٹھی کا خیال رکھیں کیونکہ مارتھا بھی بیمار ہو گئی ہے اور شاید کئی دن بعد وہ دونوں ہسپتال سے واپس آ سکیں۔ ملازموں نے مارتھا کی بیماری کی نوعیت معلوم کرنی چاہی لیکن عمران نے لاعلمی ظاہر کی۔
پھر وہ کوٹھی سے بھی روانہ ہوگیا ویسے اسے خواہش تھی کہ اندر سے بھی اس عمارت کا سرسری طور پر جائزہ لیتا۔ لیکن اس وقت مناسب نہ سمجھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سورج غروب ہو رہا تھا۔ وکٹوریہ روڈ کے چوراہے پر پہنچ کر اس نے گاڑی کا رخ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کی طرف موڑ دیا۔
اسے علم تھا کہ اس وقت بھی اس کے تین ماتحت اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ یہ صفدر، تعمانی اور چوہان تھے۔ ایکس ٹو کی ہدایت کے مطایق انہوں نے اپنی صورتیں تبدیل کر لی تھیں۔
عمران ٹپ ٹاپ کے ہال میں داخل ہوا اور بیک وقت کئی ویٹروں نے ہاتھ اٹھا کر اسے سلام کیا۔ لیکن اس وقت عمران سے کوئی حماقت سرزد نہ ہوئی۔ ویسے وہ عموماً نہ صرف ویٹروں کے سلام کا جواب دیا کرتا تھا بلکہ ان سے مصافحہ کر کے باقاعدہ بال بچوں کی خیریت تک پوچھ بیٹھتا تھا۔
وہ ایک گوشے میں جا بیٹھا۔ ڈائننگ ہال بھی ابھی زیادہ گھنا آباد نہیں تھا۔۔۔۔ چاروں طرف ہلکی سبز روشنی بکھری ہوئی تھی اور مدہم آواز میں پرشین ٹوئسٹ کا ریکارڈ بج رہا تھا۔
عمران بظاہر اونگھتا اور کوکاکولا پیتا رہا۔ اس کی اکثر شامیں یہیں گزرتی تھیں۔ اپنی میز پر عموماً وہ تنہا ہی نظر آتا لیکن آج ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی کا منتظر ہو۔ بار بار کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتا اور پھر داخلے کے دروازے کی طرف دیکھنے لگتا۔
اور پھر تھوڑی دیر بعد اس نے ایک طویل سانس لی! انداز سے بالکل ایسا ہی معلوم ہوا جیسے انتظار کے کرب آمیز لمحات ختم ہو گئے ہوں۔
ایک بڑی دلکش لڑکی ہال میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔سفید فام غیرملکی تھی دراز قد اور صحت مند۔۔۔۔لیکن بےچین آنکھوں والی۔۔۔۔اس کے ساتھ ایک ڈھلکے ہوئے شانوں والا بوڑھا آدمی تھا۔ لیکن یہ دیسی ہی تھا۔
اس کے بعد ہی جولیانا فنٹر واٹر بھی ہال میں داخل ہوئی اور عمران کے چہرے ہر جھلاہٹ کے آثار نظر آئے۔ کیونکہ وہ سیدھی اسی طرف چلی آ رہی تھی۔!

۔۔۔۔۔۔۔


عمران نے ٹھنڈی سانس لی اور بڑبڑایا۔ “تم آ ہی مریں خالہ جان۔“
“ہلو۔۔!“ جولیا قریب پہنچ کر بڑے دلآویز انداز میں مسکرائی۔
“ہلو۔۔!“ عمران مردہ سی آواز میں کراہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران کی دیکھ بھال کرنے والوں میں سے چوہان اور نعمانی بھی ہال میں داخل ہو کر مختلف میزوں پر بیٹھ چکے تھے۔
اب ہلکی آواز میں “چا چا“ بج رہا تھا اور بیشتر سننے والے میزوں کے نیچے اپنی ٹانگیں تھرکا رہے تھے۔
بڑا خوابناک سا منظر تھا۔
جولیا بیٹھ چکی تھی اور عمران تو اسی غیرملکی لڑکی کو گھورے جا رہا تھا جو ڈھلکے ہوئے شانوں والے بوڑھے کے ساتھ آئی تھی۔
جولیا نے بھی اس جانب سر جھکایا اور پھر پلٹ کر عمران کو گھورنے لگی۔ عمران اب بھی اسی لڑکی کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔جولیا کھنکاری اور عمران چونک کر اس کی جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔ اس طرح پلکیں جھپکا رہا تھا جیسے سچویشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
“کون ہے وہ؟“ جولیا نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
“اگر معلوم کر کے بتا سکو تو بیحد مشکور ہوں گا۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لی۔ پھر بڑے رومینٹک انداز میں بولا۔ “ارے اس کی آنکھوں سے تو صبحیں طلوع ہوتی ہوں گی۔ اور محرم کے گھاٹ سے پو پھوٹتی ہو گی۔ گھنیری زلفوں میں شام ڈھلتی ہو گی اور گالوں کی شفق۔!“
“ ہائیں۔۔ ہائیں۔۔!“ جولیا حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر بولی۔ “یہ تم بول رہے ہو۔ ارے تم بھی ایسی باتیں کر سکتے ہو؟“
یک بیک عمران پھر چونک پڑا اور اس طرح پلکیں جھپکانے لگا جیسے سوتے سے جاگا ہو۔ چہرے پر حماقتوں نے یلغار کر دی۔۔۔۔ ایسا معلوم ہونے لگا جیسے اس سے بڑا ڈیوٹ آج تک پیدا ہی نہ ہوا ہو۔
“مم۔۔۔۔میں ۔۔۔۔نہیں سمجھا۔“
“الو نہ بناؤ۔“ جولیا برا سا منہ بنا کر بولی۔
“اچھا۔۔“ عمران نے سعادت مندانہ انداز میں سر کو جنبش دی۔
“یہ کون ہے۔؟“ جولیا نے پھر آنکھیں نکالیں۔
“مم۔ میں کیا جانوں؟“
“تم آج کل کس چکر میں ہو۔ کیا یہ ڈاکٹر دعاگو کی سیکرٹری ہے۔“
“نن نہیں۔۔ خدا کی قسم وہ نہیں ہے۔!“
“تم ان دونوں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“دعا کرا رہا ہوں اپنے لیے۔“
“بکواس نہ کرو۔“
“تمہاری مرضی۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ “پھر جو جی چاہے سمجھ لو۔“
“تم کس چکر میں ہو۔“
“مگر تمہیں کیسے اطلاع ملی۔۔۔۔ کہ“ عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔ “اوہو۔ اوہو چوہان اور نعمانی صاحبان بھی موجود ہیں۔ خیریت خیریت۔!“
وہ جولیا کو ٹٹولنے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
“کیا تمہیں علم ہے کہ تم خطرے میں ہو۔“ جولیا نے تلخ لہجے میں پوچھا۔
“ارے باپ رے“ اس نے اردو میں کہا۔ پھر انگریزی میں بولا۔ “مم۔۔۔۔میں نہیں سمجھتا تم کیا کہہ رہی ہو۔“
“سول ہسپتال میں تم پر کسی نے فائر کرنے کی کوشش کی تھی۔ صفدر نے اس پر فائر کر کے کھیل بگاڑ دیا۔“
“کھیل بگاڑ دیا۔“ عمران نے حیرت سے کہا۔
“اور کیا؟“
“ارے بھئی کیوں؟“ عمران نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔
“یہی مناسب ہے کہ تم اب مر ہی جاؤ۔“
“ناچو گی میرے ساتھ۔“ عمران نے آگے جھک کر آہستہ سے پوچھا۔
“شٹ اَپ۔“
“اچھا جی۔۔“ عمران اس کو گھورتا ہوا بولا۔ پھر انگوٹھے سے سامنے والی غیرملکی لڑکی کی جانب اشارہ کر کے گنگنایا۔ “اب تو ان خالہ جان کے ساتھ ناچوں گا۔“
“ٹھوکر مار دے گی۔۔!“
“دیکھ لینا۔۔!“
“جانتے ہو یہ کون ہے؟“
“تم شاید جانتی ہو؟ لیکن ابھی تم نے مجھ سے اس کے متعلق پوچھا تھا۔“
“اسی لئے پوچھا تھا کہ جانتے بھی ہو۔۔یا۔۔یونہی جہنم رسید ہو جاؤ گے۔“
“ارے تو بتا دو نا۔۔۔۔ محترمہ ہمدرد خاتون۔!“
“ایک سفارت خانے کے افسر کی لڑکی ہے۔ سوشل گیدرنگس میں کرنل ڈوہرنگ کا نام سنا ہے کبھی۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“نن۔ نہیں تو۔“
“یہ اسی کی لڑکی ہے۔۔ اندھیرے میں آواز پر نشانہ لگاتا ہے۔“
“اچھا! اگر میں اندھیرے میں چشمہ لگا لوں تو۔“ عمران نے بڑے بھول پن سے پوچھا۔
“گدھے ہو تم۔“ جولیا جھلا گئی۔
اور عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا سر ہلا کر مسکرانے لگا۔
پھر دونوں ہی خاموش ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد اناؤنسر کی آواز آئی۔ “کیا آپ بال روم میں تشریف لے جانا پسند کریں گے۔ آج پرشین ٹوئسٹ۔ ساؤتھ امریکن کوک ٹیل اسٹپ کا ماہر آرکسٹرا آپ کی خدمت میں پیش ہو رہا ہے۔“
پھر جیسے ہی دوسرا نغمہ شروع ہوا عمران نے میز کے نیچے اپنی ٹانگیں تھرکانی شروع کر دیں۔
“کیا خیال ہے۔ ایک بار پھر سوچو۔“ اس نے جولیا سے کہا۔
“مجھے حیرت ہے کہ ےم آج ایسی بدپرہیزی کیسے کر سکو گے۔ ناچنا آتا ہے تمہیں۔“
“اور سنیئے۔“ عمران گردن جھٹک کر بولا۔ بچپن سے اب تک ناچتا اور نچاتا ہی تو آیا ہوں آپ پوچھتی ہیں ناچنا آتا ہے۔“
“میں موڈ میں نہیں ہوں“
“تو پھر مجبوراً۔۔“ عمران کی نظر سامنے والی لڑکی پر رک گئی۔
جولیا نے برا سا منہ بنا کر شانوں کو جنبش دی۔
“کیا پیئو گی۔“ عمران آگے جھک کر آہستہ سے بولا۔
“کھانا کھاؤں گی۔“ وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں بولی۔
“مینو حاضر ہے“ عمران نے مینو پر سے ایش ٹرے ہٹا کر اس کی طرف کھسکاتے ہوئے کہا۔
جولیا نے ویٹر کو بلا کر قیمتی ڈشوں کی ایک طویل فہرست دہرا دی۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے عمران کو کٹوا دینے کا تہیہ کئے بیٹھی ہو۔ آرڈر لے کر ویٹر چلا گیا اور جولیا بڑی بےتعلقی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔
عمران بھی کچھ نہ بولا۔
تھوڑی دیر بعد کھانے کی ٹرالی میز کی طرف آتی دکھائی دی۔ فرمائشات ہی اتنی تھیں کہ ٹرالی کے بغیر کام نہ چلتا۔ عمران نے ٹھنڈی سانس لی اور کسی ندیدے بچے کی طرح منہ چلانے لگا!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پھر جولیا کے وینٹی بیگ کی طرف دیکھاجو میز کے نیچے رکھا ہوا تھا۔
عمران سوچ رہا تھا کہ آج یہ لڑکی اسے زک دینے کے چکر میں اپنا پیٹ ہی پھاڑ ڈالے گی۔ بےتحاشا کھائے جا رہی تھی جولیا۔ اور اس طرح محو تھی کھانے میں کہ پتہ ہی نہ چل سکا کہ میز کے نیچے رکھے ہوئے وینٹی بیگ پر کیا گزر گئی۔
اس کا پرس اب وینٹی بیگ سے نکل کر عمران کے کوٹ کی سائیڈ پاکٹ میں جا چکا تھا۔ عمران بےپایاں مسرت کا اظہار کرتا رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ جولیا کو کھانے کی دعوت دے کر دین و دنیا کی سعادتیں سمیٹ رہا ہو۔
“بل ذرا جلدی لانا سمجھے۔۔۔۔!“ عمران نے ویٹر سے کہا۔ “کیونکہ ہم ابھی بال روم میں بھی جائیں گے۔“
ویٹر چلا گیا اور جولیا بولی۔ “میں ہرگز نہیں ناچوں گی تمہارے ساتھ۔ خواہ تم پورا باروچی خانہ میرے معدے میں ٹھونس دو۔!“
“میں بیچارہ کیا ٹھونسوں گا۔“ عمران نے خاکسارانہ لہجے میں کہا۔ “اللہ ٹھونس رہا ہے۔“
جولیا ہنس پڑی۔
“بہت جلے ہوئے ہو۔“ اس نے کہا۔
“اللہ کی مرضی۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لی۔
جولیا پھر ہنسنے لگی۔ پتہ نہیں کیوں ا وقت ہال کا ہر شخص ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کھانا ختم ہوا۔ بل آیا اور عمران نے کوٹ کی اندرونی جیب سے اپنا پرس نکالا اور دس دس کے کئی نوٹ پلیٹ میں ڈال دیئے۔
جولیا شاید متحیر تھے کہ وہ اتنی آسانی سے کیسے کٹ گیا۔
“کیا بال روم تک چلو گی بھی نہیں۔۔۔۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر پوچھا۔
“میں سمجھتی ہوں کہ اس میں تو کوئی حرج نہیں چلو۔۔۔۔!“ وہ اٹھتی ہوئی بولی۔
سامنے والی لڑکی اپنے دیسی ساتھی کے ہمراہ پہلے ہی جا چکی تھی۔
فی الحال وہاں جاز بج رہا تھا۔ لوگ گیلریوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فرش پر پاؤڈر چھڑکا جا رہا تھا۔
وہ دونوں بھی ایک خالی میز پر جم گئے تھے۔۔۔۔عمران نے گردن اونچی کر کے گردوپیش کا جائزہ لیا۔ لڑکی دوسری جانب والی گیلری میں نظر آئی۔ اتفاق سے اس گیلری کی ساری میزیں بھری ہوئی تھیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران نے ٹھنڈی سانس لی اور پھر اس کی نظر جولیا کے چہرے پر آ ٹھہری جس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سئ مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
“اچھا۔۔ اب نہیں ناچیں گے۔“ عمران آہستہ سے بڑبڑایا۔
“کافی نہیں پلاؤ گے۔ کھانے کے بعد۔“ جولیا نے کھنکتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
“پیئو۔۔!“ عمران کی آواز بیحد مضمحل تھی۔
جولیا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
عمران نے انگلی کے اشارے سے ایک ویٹر کو بلا کر کافی کا آرڈر دیا۔
“میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں میری ضد میں تم ہسپتال نہ پہنچ جاؤ۔“ اس نے جولیا سے کہا۔
“پرواہ نہ کرو میں تمہارے لئے جان بھی دے سکتی ہوں۔“
“اللہ رحم کرے۔“ عمران نے دردناک لہجے میں کہا۔
پھر کچھ دیر بعد اناؤنسر کی آواز آئی۔ “خواتین و حضرات تیار ہو جائیے۔ نغمہ شروع کیا جا رہا ہے۔!“
لوگ میزوں سے اٹھنے لگے۔ نغمہ شروع ہوا۔ ٹوئسٹ کے لئے زیادہ تر نوخیز جوڑے ہی اٹھے تھے۔
عمران اور جولیا کافی پیتے رہے۔ قریب ہی میز پر ایک معمر آدمی اپنی بوڑھی ساتھی سے کہہ رہا تھا۔ “کیا زمانہ ہے۔ بھلا یہ ٹوئسٹ۔۔۔کیا رکھا ہے۔۔ نہ اسٹپ نہ کاؤنٹنگ بس کولھے مٹکاؤ اور پیر گھسو۔۔ ذرا والز ناچ کر دکھائیں یہ صحت مند جوڑے تو جانوں۔“
“کبھی تمہیں بھنگڑہ نچاؤں گا۔“ عمران نے جولیا سے کہا۔
“یہ کیا ہوتا ہے۔“
“بہت گریٹ ہوتا ہے۔“ عمران نے کہا اور سامنے والی گیلری کی طرف دیکھنے لگا۔
وہ لڑکی بھی ٹوئسٹ کے لئے نہیں اٹھی تھی۔ لیکن مسلسل باتیں کئے جا رہی تھی اپنے بوڑھے ساتھی کے ساتھ۔
“یہ بوڑھا کون ہے؟ کیا اسے بھی تم جانتی ہو۔“ عمران نے جولیا سے پوچھا۔
“تم نہیں جانتے؟“ جولیا کے لہجے میں حیرت تھی۔
“نہیں۔!“
“حیرت ہے کہ تم سرسلطان کے اسٹینو کو نہیں جانتے۔“
“ہائیں۔ وہ مرد اسٹینو کب سے رکھنے لگے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“پتہ نہیں۔ یہ تو تین ماہ سے ہے ان کے ساتھ۔“
“سمجھ گیا۔ لیڈی سلطان کو عقل آ گئی ہوگی۔ پردے کی بوبو ہیں نا۔“
“اتنے ایڈوانسڈ گھرانے میں بھی پردہ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔“
“خاندانی لوگ ہیں۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔
“تم آخر ان لوگوں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔“
“مقدر۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لی۔
“تمہاری ٹھنڈی سانسیں مجھے غصہ دلاتی ہیں۔“
عمران کچھ نہ بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ لڑکی تک کیسے پہنچے کس انداز سے حملہ کرے کہ وہ اس کی ہم رقص بننے پر آمادہ ہو جائے۔
“تم کیا سوچنے لگے!“ کچھ دیر بعد جولیا نے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔۔ بس ناچوں گا آج خواہ کچھ ہو جائے۔“
“مگر تم تو اس قسم کی لغویات سے دور بھاگتے تھے۔“
“بعض شکلیں مجبور کر دیتی ہیں۔“ عمران خیالات میں کھویا ہوا بولا۔
“ادھر دیکھو۔ میری طرف۔“
“ہوں۔۔ دیکھ تو رہا ہوں۔“
جولیا اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔ “وہ ڈپٹی سیکرٹری جس نے خودکشی کرلی۔۔۔۔ اکثر یہیں اس لڑکی کے ساتھ رقص کیا کرتا تھا۔“
“ارے۔۔۔۔ بب۔۔۔۔با۔۔۔۔“
جولیا مسکرائی اور بولی۔“ اس لئے میں سوچ رہی ہوں کہ تم بےوجہ۔۔۔۔“
ٹھیک ہے۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔ “بہتر ہے کہ اب تم گھر جاؤ۔“
“کیا مطلب۔“
“تمہاری موجودگی میں کسی دوسری لڑکی سے رقص کی درخواست نہ کر سکوں گا۔“
“دماغ تو خراب نہیں ہوا۔“ جولیا کو غصہ آ گیا۔
“ٹاٹا۔“ عمران ہاتھ ہلاتا ہوا دوسری گیلری کی طرف بڑھ گیا۔
پھر لڑکی کی میز کے قریب رکا اور بڑے ادب سے جھک کر بولا۔ “کیامیں آپ سے رقص کی درخواست کر سکتا ہوں۔“
لڑکی بڑے دلآویز انداز سے مسکرائی اور پھر اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر بولی۔ “ ان سے پوچھئے کیونکہ میں ان کے ساتھ آئی ہوں۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بوڑھا عمران کو اس طرح گھور رہا تھا جیسے کچا چبا جائے گا۔

“کیوں انکل۔“ عمران بوڑھے کی طرف مڑ کر بولا۔ لیکن اس کے کڑے تیور دیکھ کر سچ مچ ہکلانے لگا۔ “کک۔۔ کیا۔۔۔۔آپ۔۔۔۔مم۔۔۔۔مجھے۔!“

“بھاگ جاؤ۔“ بوڑھا ہاتھ ہلا کر غرایا۔ “میرا مضحکہ اڑانے کی کوشش کروگے تو اچھا نہیں ہوگا۔ ایڈیٹ کہیں کے۔“

“مم۔۔۔۔معاف کیجئےگا۔۔۔۔مم۔۔۔۔مطلب یہ کہ۔!“

“اجازت دے دو نا۔“ لڑکی اٹھلائی اور بوڑھا متحیرانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

“جی ہاں ۔ اور کیا۔“ عمران نے سر ہلا کر اردو میں کہا اور بوڑھا پھر خونخوار نظروں سے عمران کو دیکھنے لگا۔

“آؤ۔۔۔۔“ لڑکی عمران کا ہاتھ پکڑ کر اٹھتی ہوئی بولی۔

دونوں وہیں سے تھرکتے ہوئے رقصوں کی بھیڑ میں آ ملے۔ مختلف جوڑے طرح طرح کے پوز بنا کر اپنے ولولوں کا اظہار کر رہے تھے۔ ناچتے ناچتے عمران نے ایک ہاتھ کمر پر رکھا اور دوسرا سر پر اور پھر باقاعدہ طور پر “ٹھمک ٹھمک“ شروع ہوگئی۔ اس کی ہمرقص ہنستے ہنستے دوہری ہوئی جا رہی تھی۔

“ یہ ہے ٹوئسٹ کا مقامی رنگ۔“ عمران نے لڑکی سے کہا۔

“ تم بہت دلچسپ آدمی ہو۔۔!“ لڑکی ہنس کر بولی۔

“ پتہ نہیں۔“

“ کیا کرتے ہو۔“

“ عیش۔ میرے باپ محکمہ سراغرسانی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ کافی کماتے ہیں۔“

“ تم کچھ نہیں کرتے!“

“ کر تو رہا ہوں۔ تھوڑا بہت گانا بجانا بھی آتا ہے۔“

“ بڑے عجیب ہو۔ تمہارا نام کیا ہے۔“

“ عمران۔ اور تمہارا۔“

“ کلارا۔۔ کلارا ڈوہرنگ۔“

“ ہوں۔۔!“

یک بیک لڑکی اچھل پڑی۔ طویل سسکاری کے ساتھ اس کا ہاتھ داہنے بازو پر جا پڑا۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پھر وہ چیخ پڑی۔۔۔۔ بازو عمران کی طرف بڑھایا۔
“ ارے باپ رے۔“ عمران اردو میں بولا۔ “ پھر گراموفون کی سوئی۔“
اس نے بدقت تمام وہ سوئی اس کے بازو سے نکالی۔۔۔۔ اب لڑکی کھڑی جھوم رہی تھی۔ دفعتاً وہ کراہتی ہوئی فرش پر ڈھیر ہوگئی اور چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے۔
۔۔۔۔۔
عمران احمقوں کی طرح کبھی فرش پر گری ہوئی بیہوش لڑکی کو دیکھتا اور کبھی اپنے گرد اکٹھا ہو جانے والی بھیڑ پر نظر ڈالتا۔ گراموفون کی سوئی بھی چٹکی میں دبی ہوئی تھی جسے بالآخر اس نے کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
اتنے میں وہ بوڑھا آدمی بھی نظر آیا جس کے ساتھ لڑکی کلب میں آئی تھی۔ پہلے تو اس نے عمران کو قہرآلود نظروں سے دیکھا۔ پھر لڑکی پر جھک گیا۔ اسے ہلا جلا کر آوازیں دیتا رہا۔ لیکن ناکامی پر تیغ برآں کی طرح عمران پر جھپٹ پڑا۔
“ یہ کیا ہوا اسے۔“ وہ حلق پھاڑ کر دہاڑا۔
“ اجی۔ قبلہ۔۔۔۔قسم لے لیجئے۔۔۔۔ یعنی کہ۔ ہپ۔!“
اور یہ “ہپ“ عادتاً نہیں ہوئی تھی بلکہ بوڑھے نے اس کے کوٹ کا کالر پکڑ کر جھٹکا دیا تھا۔
“ اجی حضرت۔۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔۔اجی واہ۔“ عمران اس کی کلائی پکڑ کر چھڑانے کی کوشش کرتا ہوا پھر ہکلایا۔
“ ہرگز نہ چھوڑنا۔۔۔۔اس کا کالر۔۔۔۔بہت واہیات آدمی ہے۔“ جولیا نے پیچھے سے آواز دی۔
“ جی۔!“ عمران چندھیائے ہوئے الو کے سے انداز میں پٹر پٹر پلکیں جھکاتا ہوا اس کی طرف مڑا۔
“ آج ہی تو پتہ چلےگا۔“ جولیا زہریلے لہجے میں بولی۔ اس طرزِگفتگو پر دوسروں نے یہی اندازہ لگایا ہوگا کہ عمران کوئی بہت ہی واہیات آدمی ہے۔ اتنا واہیات کہ لڑکیاں اس کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتیں۔
“ یہ بیہوش کیسے ہوئی۔“ بوڑھا اس کے کالر کو جھٹکا دے کر بولا۔
“ مم۔۔۔۔میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔“
“ پولیس۔پولیس۔“ بوڑھا مجمع کی طرف دیکھ کر چیخا۔


اختتام ( ص 65-75 )
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top