چینی قونصل خانے پر حملہ ناکام بنانے والی پولیس افسر سہائی عزیز

سید عمران

محفلین
اسلام نے مرد و عورت دونوں کو برابر کا درجہ دیا ہے
بات صرف یہی نہیں ہے ۔۔۔
کتنی عورتیں ہیں جو لاکھوں مردوں سے آگے ہیں۔۔۔
حضرت مریم علیہا السلام کے رُتبہ کو سوائے انبیاء کے کوئی مرد نہیں پہنچ سکتا۔۔۔
صحابیات کا درجہ کروڑوں غیر صحابی مرد حاصل نہیں کرسکتے۔۔۔
حضرت رابعہ بصریہ اور ان جیسی خواتین کے قدموں کی دھول تک لاکھوں مرد نہیں پہنچ سکتے۔۔۔
مرد اور عورت برابر کہاں، ایک دوسرے سے آگے نکل سکتے ہیں۔۔۔
البتہ دونوں کی ذمہ داریاں مختلف ہیں۔۔۔
اگر ذمہ داریوں کا توازن بگڑ جائے تو معاشرہ تباہ ہوجائے۔۔۔
مغربی معاشرے کی مثال سامنے ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کےمددگار ہیں
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں عورتوں کو نیکی و بھلائی کی امر و نہی کریں۔۔۔
آیت لے اگلے حصہ سے مزید واضح ہوگیا کہ بات کا سیاق و سباق انفرادی عبادات سے متعلق ہے نہ کہ حکومتی آئین سازی سے۔۔۔
نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ آپ کے بعد صحابہ کرام نے خواتین کو حکومتی عہدوں میں اس طرح شامل کیا جیسے آپ قرآن پاک کی آیات کو توڑ مروڑ کر ثابت کررہے ہیں۔۔۔
چوں کہ اس طرح کے گمراہ کن عقائد و نظریات کی راہ میں احادیث مبارکہ اور آثار الصحابہ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اس لیے یہودیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا پیدا کردیا جو کہنے لگا کہ حدیث کوئی چیز نہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
اے نبی کہہ دو اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اور مسلمان عورتوں کو نیچے لٹکا لیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں اس میں بہت قریب ہے کہ پہچانی پڑیں تو کوئی ان کو نہ ستائے اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان
جن خواتین کو آپ گھر سے باہر نکالنے کے در پے ہیں کیا وہ ان شرائط کے ساتھ چادروں میں لگی لپٹی نکل رہی ہیں؟؟؟
کیا چست بنیان اور ٹائٹس پہن کر کالج یونی ورسٹی جانے والی لڑکیاں، یا بن ٹھن کر میک زدہ چہروں اور خوشبوؤں میں بسی دفتروں میں مردوں کے ساتھ ٹھٹھے بازی کرتی خواتین اور ٹی وی پر بغیر دوپٹے جسم کی نمائش کرتی عورتوں کی رہنمائی کے لیے آپ نے ان کو یہ حدود بتلائے؟؟؟
ضرورت پڑنے پر عورت کے حقوق واضح ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر یہ کہاں فرض کیا ہے کہ وہ ہر حال میں گھر بار چھوڑ کر باہر کی خاک دھول چاٹتی پھریں؟؟؟
بے شک وہ اچھی تعلیم حاصل کریں، ضرورت ہے تو روزگار کا اچھا ذریعہ اختیار کریں مگر حدود کی پاسداری کے ساتھ۔۔۔
لیکن آپ لوگوں کا سارا زور صرف ان کو گھر سے باہر نکالنے پر ہے، ان کی عصمت و آبرو کی حفاظت پر نہیں ۔۔۔
کیوں کہ آپ کو معلوم ہے ایک دفعہ وہ گھر سے نکل کر مردوں کے ہتھے چڑھ گئیں ان کی شرم و حیا کا لباس وہ خود اتار لیں گے!!!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جہاد میں خواتین مردوں کے ہمراہ تو ہوتی تھیں اور اگر وقت پڑتا تو خود پر حملہ آور دشمنوں سے نمٹ بھی لیتی تھیں۔۔۔
لیکن اس سے توڑ مروڑ کر شانہ بشانہ کا مطلب اخذ کرنا حقائق کے خلاف ہے۔۔۔
مردوں کے لیے حکم ہے کہ سوائے اشد مجبوری کے ہرحال میں روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ گھر سے باہر نکل کر نماز کے لیے جاؤ۔۔۔
عورتوں سے فرمایا جارہا ہے کہ گھر کے جس حد تک ممکن ہو اندر سے اندر ہوکر نماز پڑھو۔۔۔
لیکن گھروں کے اندر بند کرنا جیسے الفاظ محض اکسانے کے لیے ہیں۔۔۔
ہمارے معاشرے میں کس عورت کو گھر کے اندر بند کیا جارہا ہے؟؟؟
خواتین سارے کام آزادی سے کررہی ہیں۔۔۔
ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کو سنبھالنے کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری خواتین ہماری ماں، بہن اور بیوی ہی نبھارہی ہیں۔۔۔
اور یہی بات دشمنوں کو کھل رہی ہے۔۔۔
ان کے ہر طرف سے یہ وار ہیں کہ کسی طرح یہ اپنی ذمہ داری چھوڑے ، خاندانی نظام تباہ ہو ، عورت بے یار و مددگار ہوکر کھلونا بن جائے اور ہمارے مذموم مقاصد پورے کرے!!!
صرف اپنے علم میں اضافے کے لیے چند سوالات ہیں۔
1۔ آپ کے شروع کے تبصروں سے محسوس ہوا کہ آپ یہ بتا رہے ہیں کہ عورت کا کسی بھی صورت باہر نکلنا یا کام کرنا درست نہیں ہے۔
2۔ آپ کی مندرجہ بالا پوسٹ میں عورتوں کا باہر نکلنا اور ان کاموں میں، جو بنیادی طور مردوں سے منسوب ہے، کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
اب اگر سادہ الفاظ میں یہ پتہ چل سکے کہ کیا ایک عورت کا باہر نکلنا چاہے وہ تعلیم کے لیے ہو یا روزگار کے لیے، درست ہے یا نہیں؟
2۔ عورت کا کفیل مرد ہے اور اس پر کوئی دوسرا سوال نہیں لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ کسی عورت کی زندگی میں وہ مرد نہیں۔ مثلا یتیم بچیاں،
بیوہ عورت،
غیر شادی شدہ عورت جس کی کسی بھی مجبوری کی وجہ سے شادی نہیں ہو سکی، اس کے والد یا بھائی اس کی کفالت کرنے کو موجود نہیں یا تیار نہیں
یا کوئی بھی ایسی عورت جس کی زندگی میں کفیل کا کردار ادا کرنے والا مرد نہیں ہے، اس کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟
اگر شوہر کسی مجبوری کی وجہ سے جس میں بیماری، بت روزگاری وغیرہ شامل ہیں، کفالت نہ کر پائے یا پوری نہ کر سکے تو کیا کرنا چاہیے؟
 

م حمزہ

محفلین
قرآن حکیم کا ریفرنس عطا فرمائیے، سرخ جملوں کا۔۔ کیا دلیل ہے ؟؟؟

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (31)
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
ور اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے ، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے ۔
اے مومنو ، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو ، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے ۔


برادرم: پردے کے بارے میں اتنے واضح ہدایات ہیں قرآن اور احادیث میں کہ جب کوئی کہتا ہے کہ 'قرآن کا حوالہ دو پردہ کے بارے ' تو سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
خیر آپ سورہ نور کا مطالعہ کریں اس کا سبب نزول پڑھیں اور پھر اس کے اندر دی گئی ہدایات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پردہ کرنااور مخلوط نظام سے بچنا اسلام میں کس قدر اہم ہے۔

مندرجہ بالا دو آیات (اس بار پوری نقل کی ہیں) کو غور سے پڑھیں۔ یہاں نظریں بچانے کا حکم پہلے ہے پھر شرمگاہ کی حفاظت کا حکم (مردوں کو)۔ اس بعد عورتوں کیلئے احکام ہیں جو آپ خود پڑھ سکتے ہیں۔ ۔۔۔ مردوں کیلئے صرف دو احکام اور پھر نصیحت۔ جبکہ عورتوں کیلئے کئی احکام ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو دین ہمیں جنس مخالف سے نظریں بچانے کا حکم دے رہا ہے تو وہ دین یہ کیسے گوارا کرلے گا کہ دونوں جنس کسی بھی جگہ بغیر کسی رکاوٹ اور پردہ کے ایک ساتھ مل کر کام کریں۔
دوسری والی آیت میں دیکھیں واضح طور پر بتایا گیا کہ عورتو٘ںکو کن کے سامنے پردہ نہ کرنے کی اجازت ہے۔ " وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں "۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ باقی بچے لوگوں سے پردہ کرنا لازمی ہے۔

اتنا ہی نہیں عورتوں کو چلنے تک کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں اسی آیت میں۔ تاکہ ان کے زیوروں کی آواز بھی مردوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔

آپ کھلے دل، صاف ذہن سے قرآن کا مطالعہ کریں۔ مغرب کے سحر اور وہاں کے دین بیزار نظام بلکہ اسلام دشمن نظام سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں۔
مجھے یقین ہے اللہ آپ کو راہِ راست دکھائے گا۔
 

م حمزہ

محفلین
صرف اپنے علم میں اضافے کے لیے چند سوالات ہیں۔
1۔ آپ کے شروع کے تبصروں سے محسوس ہوا کہ آپ یہ بتا رہے ہیں کہ عورت کا کسی بھی صورت باہر نکلنا یا کام کرنا درست نہیں ہے۔
2۔ آپ کی مندرجہ بالا پوسٹ میں عورتوں کا باہر نکلنا اور ان کاموں میں، جو بنیادی طور مردوں سے منسوب ہے، کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
اب اگر سادہ الفاظ میں یہ پتہ چل سکے کہ کیا ایک عورت کا باہر نکلنا چاہے وہ تعلیم کے لیے ہو یا روزگار کے لیے، درست ہے یا نہیں؟
2۔ عورت کا کفیل مرد ہے اور اس پر کوئی دوسرا سوال نہیں لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ کسی عورت کی زندگی میں وہ مرد نہیں۔ مثلا یتیم بچیاں،
بیوہ عورت،
غیر شادی شدہ عورت جس کی کسی بھی مجبوری کی وجہ سے شادی نہیں ہو سکی، اس کے والد یا بھائی اس کی کفالت کرنے کو موجود نہیں یا تیار نہیں
یا کوئی بھی ایسی عورت جس کی زندگی میں کفیل کا کردار ادا کرنے والا مرد نہیں ہے، اس کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟
اگر شوہر کسی مجبوری کی وجہ سے جس میں بیماری، بت روزگاری وغیرہ شامل ہیں، کفالت نہ کر پائے یا پوری نہ کر سکے تو کیا کرنا چاہیے؟

میرے خیال سے سید عمران صاحب آپ کے سوالوں کے جواب ایک ہی لائن میں دے چکے ہیں:
بے شک وہ اچھی تعلیم حاصل کریں، ضرورت ہے تو روزگار کا اچھا ذریعہ اختیار کریں مگر حدود کی پاسداری کے ساتھ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
بہت ہی قابل احترام فرحت کیانی صاحبہ۔۔۔
آج کل کے دور میں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا بہت سے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔۔۔
چاہے وہ کوئی ملازمت وغیرہ نہ بھی کریں تب بھی رشتے کے وقت تعلیم کے متعلق ضرور پوچھا جاتا ہے۔۔۔
اگر کسی بچی کا پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا یا گھر والے ماحول یا حالات کی وجہ سے بچی کو پڑھنے کے لیے باہر بھیجنا نہیں چاہ رہے تو بھی انہیں پرائیویٹ امتحان ضرور دلوائیں، نمبر بھی چاہے جیسے آئیں مگر ڈگری ہاتھ میں ضرور ہونی چاہیے۔۔۔
اگر کسی خاتون کا خرچہ اس کے مرد پورا نہیں کرپارہے ہیں تو وہ جائز رزق حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کیوں نہیں کرے گی۔۔۔
اس کے لیے وہ متعلقہ شعبے کے تمام ضروری علوم و فنون سیکھے۔۔۔
ہماری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس کی ضروریات پوری ہورہی ہیں تو اس کی ساری توجہ اپنی، اپنے خاوند کی صحت و روز مرہ کے دیگر ضروری امور اور سب سے بڑھ کر اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر مرکوز ہونی چاہیے۔۔۔
باپ جتنی کوشش کرلے اولاد کی ماں جیسی پرورش اور تربیت نہیں کرسکتا۔۔۔
دوسرا اہم نکتہ مرد و عورت کے اختلاط کا ہے۔۔۔
آپ ہم سے بہتر جانتی ہیں جہاں یہ دونوں اکٹھے ہوئے وہاں کیا کیا گل کھلتے ہیں۔۔۔
اخباروں میں، تھانوں میں اور ہمارے پاس جو لوگ مسائل لے کر آتے ہیں اور جو حقائق پتا چلتے ہیں وہ اس کا بہت ہی قلیل حصہ ہے جو اصل میں واقع ہورہا ہے۔۔۔
خواتین پاکیزگی اور عزت و آبرو کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کریں اور ضرورت محسوس کریں تو روزگار بھی لیکن اپنے گھر والوں اور شوہر کو ساتھ لے کر زندگی کو اس طرح متوازن بنائیں کہ نہ تو فحاشی و بدکاری پھیلے، نہ لڑکیاں والدین کی عزت مٹی میں ملا کر مردوں کے ساتھ بھاگیں اور نہ ہی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرے۔۔۔
اس وقت یہودیوں کا سب بڑا ہدف یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلم معاشرہ کا خاندانی نظام تباہ ہوجائے اور ہمارے مذموم مقاصد پورے ہوں۔۔۔
یہ مقاصد شاید آپ ہم سے زیادہ جانتی ہوں!!!
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
33:32 اے نبی کی بیویو! نہیں ہو تم مانند عام عورتوں کے (لہٰذا) اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو نہ بات کیا کرو دبی زبان سے اس طرح کہ لالچ میں پڑجائے کوئی ایسا شخص جس کے دل میں خرابی ہو بلکہ بات کیا کرو صاف اور سیدھے طریقے سے۔
33:33 اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور الله اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو الله یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے
آپ نے بالکل صحیح کہا کہ ان حکامات کے مخاطب ام الموَمنین ہیں۔ اب آپ خود سے پوچھیں کہ ایسے احکامات ان عورتوں کیلئے ہیں جن کی پاکدامنی کی گواہی عرشِ الٰہی سے آچکی ہے ان کو ان احکامات کا پابند کیا جاتاہے ۔ اور جو امت کے ہر فرد کی مائیں ہیں جن کی طرف کوئی بھی مسلمان غلط نگاہ سے دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ بات ایسے کرو کہ کسی شخص کو آپ کی نرم بیانی سے کوئی غلط فہمی نہ ہونے پائے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ "جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو" تو باقی عورتوں کے متعلق تو ان سے بھی زیادہ سخت احکامات ہونے چاہئیں۔ ام الموَمنین عام عورتوں کی مانند نہیں ہیں۔ ان سے غلطی کا تصور نہیں کرسکتے۔ لیکن کیا باقی عورتوں سے بھی ایسی ہی توقع رکھی جاسکتی ہے؟؟؟

اب یہ بھی بتائیں کہ جو یہ فرمایا گیا ہے "اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے" ۔ اس کے کیا معنی لئے جائیں؟؟؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے خیال سے سید عمران صاحب آپ کے سوالوں کے جواب ایک ہی لائن میں دے چکے ہیں:
تو آپ کیسے ہر ایک پر bluntly حدود کی پاسداری نہ کرنے والی کا لیبل لگا سکتے ہیں؟
سہائی کے اس آپریشن میں ہیرو ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرنا ایک اور بات ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ عورتوں کو حدود کی پاسداری نہ کرنا سکھانے کی کوشش ہے، میرے خیال میں درست نہیں۔
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت ہی قابل احترام فرحت کیانی صاحبہ۔۔۔
آج کل کے دور میں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا بہت سے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔۔۔
چاہے وہ کوئی ملازمت وغیرہ نہ بھی کریں تب بھی رشتے کے وقت تعلیم کے متعلق ضرور پوچھا جاتا ہے۔۔۔
اگر کسی بچی کا پڑھائی میں دل نہیں لگ رہا یا گھر والے ماحول یا حالات کی وجہ سے بچی کو پڑھنے کے لیے باہر بھیجنا نہیں چاہ رہے تو بھی انہیں پرائیویٹ امتحان ضرور دلوائیں، نمبر بھی چاہے جیسے آئیں مگر ڈگری ہاتھ میں ضرور ہونی چاہیے۔۔۔
اگر کسی خاتون کا خرچہ اس کے مرد پورا نہیں کرپارہے ہیں تو وہ جائز رزق حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کیوں نہیں کرے گی۔۔۔
اس کے لیے وہ متعلقہ شعبے کے تمام ضروری علوم و فنون سیکھے۔۔۔
ہماری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس کی ضروریات پوری ہورہی ہیں تو اس کی ساری توجہ اپنی، اپنے خاوند کی صحت و روز مرہ کے دیگر ضروری امور اور سب سے بڑھ کر اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر مرکوز ہونی چاہیے۔۔۔
باپ جتنی کوشش کرلے اولاد کی ماں جیسی پرورش اور تربیت نہیں کرسکتا۔۔۔
دوسرا اہم نکتہ مرد و عورت کے اختلاط کا ہے۔۔۔
آپ ہم سے بہتر جانتی ہیں جہاں یہ دونوں اکٹھے ہوئے وہاں کیا کیا گل کھلتے ہیں۔۔۔
اخباروں میں، تھانوں میں اور ہمارے پاس جو لوگ مسائل لے کر آتے ہیں اور جو حقائق پتا چلتے ہیں وہ اس کا بہت ہی قلیل حصہ ہے جو اصل میں واقع ہورہا ہے۔۔۔
خواتین پاکیزگی اور عزت و آبرو کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کریں اور ضرورت محسوس کریں تو روزگار بھی لیکن اپنے گھر والوں اور شوہر کو ساتھ لے کر زندگی کو اس طرح متوازن بنائیں کہ نہ تو فحاشی و بدکاری پھیلے، نہ لڑکیاں والدین کی عزت مٹی میں ملا کر مردوں کے ساتھ بھاگیں اور نہ ہی خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرے۔۔۔
اس وقت یہودیوں کا سب بڑا ہدف یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلم معاشرہ کا خاندانی نظام تباہ ہوجائے اور ہمارے مذموم مقاصد پورے ہوں۔۔۔
یہ مقاصد شاید آپ ہم سے زیادہ جانتی ہوں!!!
تفصیلی جواب کا شکریہ۔ آپ درست فرما رہے ہیں۔
مجھے بتائیں کتنی ایسی خواتین ہوں گی جو بغیر ضرورت کے ملازمت کر رہی ہیں؟ یقینا بہت سی ہوں گی لیکن ضرورت کے تحت کام کرنے والیوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔
مخلوط جگہوں پر پڑھنے یا کام کرنے کے نقصانات سے اتفاق ہے لیکن کیا اس میں زیادہ کردار تربیت کا نہیں آتا؟
جیسے آپ نے کہا کہ آپ کو ایسے کتنے ہی واقعات کے بارے میں پتہ چلتا ہے جو اس وجہ سے ہوتے ہیں ویسے ہی میں بھی ایک بات دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ گھروں کے اندر بظاہر ہر برائی کی پہنچ سے محفوظ ایسی خواتین کی بھی تعداد اتنی ہی ہو گی جو یا تو کسی حادثے کا شکار ہوتی ہیں یا بے راہ روی اختیار کر لیتی ہیں۔
میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اصل چیز تربیت میں پختگی ہے۔ اگر وہ ہو تو آپ گھر اور باہر دونوں جگہ اپنے مذہب کی قائم کردہ حدود پر عمل کرتے ہیں، نہ ہو تو چاردیواری ہو یا گھر سے باہر، برائی اور جرم روکے نہیں جا سکتے۔
اور دوسری بات یہ کہ باہر نکلنے والی 90 فی صد سے زیادہ عورتیں ضرورت کے تحت اس قدر مشکل زندگی کا انتخاب کرتی ہیں۔ جو 10 فیصد صرف عورت کی آزادی کا نعرہ لگا کر نکلتی ہیں، ہم ان کو پوری عورت برادری کا نمائندہ نہیں کہہ سکتے۔ نیز جو تھوڑا بہت میرا علم ہے تاریخ اور اینتھروپولوجی کا، برے مرد اور عورتیں ہر دور اور ہر معاشرے میں موجود رہے ہیں اور ہر مذہب کے پیروکاروں میں شامل رہے ہیں۔
اگر میں غلط ہوں تو رہنمائی کریں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت عمدہ او زبردست بات کہی ۔یہ 10فیصد ہی ہیں جن کی وجہ سے آزادی نسواں کے نام پر بے حیائی پھیل رہی ہے۔
یعنی آپ 90 فی صد کی حیا اور شرافت کو اتنا کمزور سمجھ رہے ہیں کہ اس کا کوئی مثبت اثر نہیں۔
گلاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے اور دونوں صورتوں میں گلاس کو بھرنا بھی ہمارا ہی اختیار ہے۔
 
یعنی آپ 90 فی صد کی حیا اور شرافت کو اتنا کمزور سمجھ رہے ہیں کہ اس کا کوئی مثبت اثر نہیں۔
نہیں آپی جی بالکل میں ایسا گمان نہیں رکھتا ، ان 10 فیصد نے ہی 90 فیصد کی شرافت اور حیاء کے لیے سازشیں شروع کر رکھی ہیں ۔
اس کی ایک تازہ مثال می ٹو تحریک ہے ۔
لاس کو آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے اور دونوں صورتوں میں گلاس کو بھرنا بھی ہمارا ہی اختیار ہے۔
مکمل متفق ۔
 

م حمزہ

محفلین
تو آپ کیسے ہر ایک تو bluntly حدود کی پاسداری نہ کرنے والی کا لیبل لگا سکتے ہیں؟
میرے خیال سے ایسا کسی نے نہیں کیا۔ اگر آپ اس لڑی کو ایک بار شروع سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ بات شروع ہوئی تھی ایک خاتون کی کارگزاری پر۔ جس کے جواب میں کہا گیا کہ اس صرف آپریشن میں صرف اسی اکیلی خاتون کا کردار نہیں تھا بلکہ اور لوگ بھی تھے اور کچھ تو شہید بھی ہوئے۔ ان سب کو ایسی پبلسٹی نہیں ملی جتنی اس ایک خاتون افسر کو۔
سہائی کے اس آپریشن میں ہیرو ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرنا ایک اور بات ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ عورتوں کو حدود کی پاسداری نہ کرنا سکھانے کی کوشش ہے، میرے خیال میں درست نہیں
کیا آپ کو علم نہیں ہے آج میڈیا عورت کی ہی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کرتا ہے۔ جتنا زیادہ عورت کی میڈیا پر پبلسٹی کی جائے اتنی زیادہ اس میں پبلک ہونے کی آرزو جاگ جاتی ہے۔ جب ایسی خواہشیں سر نکالتی ہیں تو کئی حدود پار کئے جاتے ہیں۔
میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اصل چیز تربیت میں پختگی ہے۔
یہی تو اصل مدعا ہے اس ساری بحث کا " تربیت"۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ تربیت کون کرے اور کب؟ جب میری بہن، بیٹی یا بیوی کے پاس اپنے گھر کو یا اپنے اہل وعیال کو دینے کیلئے وقت ہی نہیں ہے تو تربیت کب کرے؟ اور کون کرے؟ گھر سے باہر نکل کر جو ماحول ملتا ہے اس کا رنگ انسان پر چڑھ ہی جاتا ہے۔ جو عورت (ہر کوئی نہیں) خود راہِ راست سے بھٹک جائے وہ کس کی تربیت کرے!
مجھے بتائیں کتنی ایسی خواتین ہوں گی جو بغیر ضرورت کے ملازمت کر رہی ہیں؟ یقینا بہت سی ہوں گی لیکن ضرورت کے تحت کام کرنے والیوں کا تناسب ان سے کہیں زیادہ ہے۔

لیکن یہ کون طے کریگا کہ کتنی ضرورت پر ایک عورت کو ملازمت کرنے کی ضرورت ہے؟
اگر صرف ضرورت کہا جائے تو ایسا کوئی بھی انسان نہیں ہے جو ضرورت کے نام پر ملازمت کو اپنے لئے لازم ثابت نہ کردے۔
میرے خیال سے بہت کم عورتیں ایسی ہیں جنہیں واقعی ضرورت ہے۔(آپ کے خیال کے برعکس)۔ اگر انسان، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں تو اس کی کئی ساری لازمی ضروریات خود بخود بے معنی ہوجائیں۔ اور وہ اسلامی قوانین و حدود کی پاسداری کرنے میں آسانی پائیں گے۔

ایک آخری بات یہ کہ مجھے عورت کی ملازمت کرنے پر یا اعلٰی تعلیم کے حصول پر کوئی بھی اعتراض نہیں۔ میں ان دونوں چیزوں کو عورت کا حق سمجھتا ہوں۔ لیکن اسلامی قوانین و حدود کی پاسداری کے ساتھ ساتھ۔ ورنہ نہیں۔
 
Male patriachy کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ہم سے یہ بھی ہضم نہیں ہو رہا کہ ایک لڑکی نے اسقدر کامیابی سے یہ آپریشن کیسے کر لیا۔ مور پاور ٹو سہائے۔
 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
نہیں آپی جی بالکل میں ایسا گمان نہیں رکھتا ، ان 10 فیصد نے ہی 90 فیصد کی شرافت اور حیاء کے لیے سازشیں شروع کر رکھی ہیں ۔
اس کی ایک تازہ مثال می ٹو تحریک ہے ۔

مکمل متفق ۔
عدنان بھائی اگر آپ ہالی ووڈ کی می ٹو تحریک کی بات کر رہے ہیں تو وہ ایک اور موضوع اور ایک اور کلچر کی بات ہے۔
اگر آپ پاکستان یا انڈیا کی بات کر رہے ہیں تو میرا خیال ہے اس میں بھی ہمیں اپنے ہی معاشرے کے کریہہ صورت حقائق کا علم ہو رہا ہے۔ ہاں آپ سمیت بہت سوں کو اس پر اعتراض ضرور ہو سکتا ہے کہ یہ اداکاراوں یا شوبز سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شروع کیا ہے لیکن ہمیں دو باتیں نہیں بھولنی چاہییں۔
1۔ عورت کو یہ الزام دینا کہ وہ خود مرد کو یہ مواقع دیتی ہے کہ اسے exploit کیا جائے ، درست مان بھی لیا جائے تو آپ مرد کو کیا کہیں گے؟ کیا مرد کو اپنی نگاہ اور کردار کی پاسداری کا حکم نہیں دیا گیا؟
2۔ یقین مانیں می ٹو جیسے واقعات بند گھروں میں محفوظ عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی اسی تناسب سے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر اس لیے سامنے نہیں آتے کیوں کہ ان کی رسائی کا لیول سوشل میڈیا پر ایکٹو لوگوں جیسا نہیں ہے۔
اگر ممکن ہو تو ہمیں ہر زاویے کو مدنظر رکھ کر اپنی سوچ اور عمل کو درست سمت میں لے کر چلنا چاہیے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے خیال سے ایسا کسی نے نہیں کیا۔ اگر آپ اس لڑی کو ایک بار شروع سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ بات شروع ہوئی تھی ایک خاتون کی کارگزاری پر۔ جس کے جواب میں کہا گیا کہ اس صرف آپریشن میں صرف اسی اکیلی خاتون کا کردار نہیں تھا بلکہ اور لوگ بھی تھے اور کچھ تو شہید بھی ہوئے۔ ان سب کو ایسی پبلسٹی نہیں ملی جتنی اس ایک خاتون افسر کو۔

کیا آپ کو علم نہیں ہے آج میڈیا عورت کی ہی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کرتا ہے۔ جتنا زیادہ عورت کی میڈیا پر پبلسٹی کی جائے اتنی زیادہ اس میں پبلک ہونے کی آرزو جاگ جاتی ہے۔ جب ایسی خواہشیں سر نکالتی ہیں تو کئی حدود پار کئے جاتے ہیں۔

یہی تو اصل مدعا ہے اس ساری بحث کا " تربیت"۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ تربیت کون کرے اور کب؟ جب میری بہن، بیٹی یا بیوی کے پاس اپنے گھر کو یا اپنے اہل وعیال کو دینے کیلئے وقت ہی نہیں ہے تو تربیت کب کرے؟ اور کون کرے؟ گھر سے باہر نکل کر جو ماحول ملتا ہے اس کا رنگ انسان پر چڑھ ہی جاتا ہے۔ جو عورت (ہر کوئی نہیں) خود راہِ راست سے بھٹک جائے وہ کس کی تربیت کرے!


لیکن یہ کون طے کریگا کہ کتنی ضرورت پر ایک عورت کو ملازمت کرنے کی ضرورت ہے؟
اگر صرف ضرورت کہا جائے تو ایسا کوئی بھی انسان نہیں ہے جو ضرورت کے نام پر ملازمت کو اپنے لئے لازم ثابت نہ کردے۔
میرے خیال سے بہت کم عورتیں ایسی ہیں جنہیں واقعی ضرورت ہے۔(آپ کے خیال کے برعکس)۔ اگر انسان، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں تو اس کی کئی ساری لازمی ضروریات خود بخود بے معنی ہوجائیں۔ اور وہ اسلامی قوانین و حدود کی پاسداری کرنے میں آسانی پائیں گے۔

ایک آخری بات یہ کہ مجھے عورت کی ملازمت کرنے پر یا اعلٰی تعلیم کے حصول پر کوئی بھی اعتراض نہیں۔ میں ان دونوں چیزوں کو عورت کا حق سمجھتا ہوں۔ لیکن اسلامی قوانین و حدود کی پاسداری کے ساتھ ساتھ۔ ورنہ نہیں۔
جب آپ اتنے فتوے لگا رہے ہیں تو اس بات کا تعین بھی تعین کر دیں کہ کس حد کے بعد عورت کو باہر نکلنا چاہیے کیوں کہ وہ عورت یا اس کے گھر کے مرد تو شاید بالکل ہی brainless ہوتے ہیں۔
دوسرا سہائی کو پبلسٹی عورت ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ وفاداری یا دوسرے الفاظ میں افسر ہونے کی وجہ سے ملی ہے۔ یاد رکھیں ایسے واقعات میں اہمیت صرف افسر کو ملتی ہے باقی 'دیگر عملہ' ہوتا ہے۔ یہ ہمارا ایک المیہ ہے۔
ہمارے فوجی جب کسی آپریشن میں شہید ہوتے ہیں تو ٹی وی اور میڈیا حتی کہ ادارے کی پریس ریلیز میں بھی افسر کی بات اور پروموشن زیادہ کی جاتی ہے اور سپاہی و دیگر جوان کی کم۔
آپ خود بات کو کسی دوسری طرف لے کر جانا چاہیں تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے خیال سے ایسا کسی نے نہیں کیا۔ اگر آپ اس لڑی کو ایک بار شروع سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ بات شروع ہوئی تھی ایک خاتون کی کارگزاری پر۔ جس کے جواب میں کہا گیا کہ اس صرف آپریشن میں صرف اسی اکیلی خاتون کا کردار نہیں تھا بلکہ اور لوگ بھی تھے اور کچھ تو شہید بھی ہوئے۔ ان سب کو ایسی پبلسٹی نہیں ملی جتنی اس ایک خاتون افسر کو۔

کیا آپ کو علم نہیں ہے آج میڈیا عورت کی ہی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی کرتا ہے۔ جتنا زیادہ عورت کی میڈیا پر پبلسٹی کی جائے اتنی زیادہ اس میں پبلک ہونے کی آرزو جاگ جاتی ہے۔ جب ایسی خواہشیں سر نکالتی ہیں تو کئی حدود پار کئے جاتے ہیں۔

یہی تو اصل مدعا ہے اس ساری بحث کا " تربیت"۔ لیکن یہ تو بتائیں کہ تربیت کون کرے اور کب؟ جب میری بہن، بیٹی یا بیوی کے پاس اپنے گھر کو یا اپنے اہل وعیال کو دینے کیلئے وقت ہی نہیں ہے تو تربیت کب کرے؟ اور کون کرے؟ گھر سے باہر نکل کر جو ماحول ملتا ہے اس کا رنگ انسان پر چڑھ ہی جاتا ہے۔ جو عورت (ہر کوئی نہیں) خود راہِ راست سے بھٹک جائے وہ کس کی تربیت کرے!


لیکن یہ کون طے کریگا کہ کتنی ضرورت پر ایک عورت کو ملازمت کرنے کی ضرورت ہے؟
اگر صرف ضرورت کہا جائے تو ایسا کوئی بھی انسان نہیں ہے جو ضرورت کے نام پر ملازمت کو اپنے لئے لازم ثابت نہ کردے۔
میرے خیال سے بہت کم عورتیں ایسی ہیں جنہیں واقعی ضرورت ہے۔(آپ کے خیال کے برعکس)۔ اگر انسان، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں تو اس کی کئی ساری لازمی ضروریات خود بخود بے معنی ہوجائیں۔ اور وہ اسلامی قوانین و حدود کی پاسداری کرنے میں آسانی پائیں گے۔

ایک آخری بات یہ کہ مجھے عورت کی ملازمت کرنے پر یا اعلٰی تعلیم کے حصول پر کوئی بھی اعتراض نہیں۔ میں ان دونوں چیزوں کو عورت کا حق سمجھتا ہوں۔ لیکن اسلامی قوانین و حدود کی پاسداری کے ساتھ ساتھ۔ ورنہ نہیں۔
آپ پاسداری کی تعریف کیسے کریں گے؟
نیز اپنے اردگرد موجود خواتین کو دیکھ کر کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان میں سے کتنی ہیں جو حدود کی پاسداری نہیں کر پا رہیں اور کتنی کر رہی ہیں؟
 
Top