حسان خان
لائبریرین
چه خوش باشد که دلدارم تو باشی
ندیم و مونس و یارم تو باشی
کیا ہی خوب ہو اگر میرا دلدار، ندیم، مونس، اور یار تُو ہو۔
دلِ پردرد را درمان تو سازی
شفای جانِ بیمارم تو باشی
(اور کیا ہی خوب ہو اگر) میرے پُردرد دل کا علاج تُو کرے اور میری بیمار جان کی شفا تُو ہو۔
ز شادی در همه عالم نگنجم
اگر یک لحظه غمخوارم تو باشی
اگر تُو ایک لحظے کے لیے میرا غم خوار بن جائے تو میں خوشی سے دنیا میں نہ سماؤں۔
ندارم مونسی در غارِ گیتی
بیا، تا مونسِ غارم تو باشی
(اِس) غارِ دنیا میں میرا کوئی مونس و یار نہیں ہے؛ (اے یار) آ جا تاکہ تُو میرا یارِ غار بن جائے۔
اگرچه سخت دشوار است کارم
شود آسان، چو در کارم تو باشی
اگرچہ میرا کام سخت دشوار ہے لیکن جس وقت تُو شاملِ کار ہو جائے، میرا کام آسان ہو جائے گا۔
اگر جمله جهانم خصم گردند
نترسم، چون نگهدارم تو باشی
جب میرا نگہدار تُو ہو، تب خواہ پوری دنیا میری دشمن بن جائے، مجھے خوف نہیں ہو گا۔
همینالم چو بلبل در سحرگاه
به بوی آنکه گلزارم تو باشی
میں ہنگامِ سحر اس امید میں بلبل کی طرح نالہ کرتا ہوں کہ میرا گلزار تُو ہو جائے۔
چو گویم وصفِ حسنِ ماهرویی
غرض زان زلف و رخسارم تو باشی
جب میں کسی ماہ رو کے حُسن کے وصف بیان کرتا ہوں تو زلف و رخسار سے میرا مقصود تُو ہی ہوتا ہے۔
اگر نامِ تو گویم ور نگویم
مرادِ جمله گفتارم تو باشی
خواہ میں تیرا نام کہوں یا خواہ نہ کہوں، میری جملہ باتوں کی مراد تُو ہی ہوتا ہے۔
از آن دل در تو بندم، چون عراقی
که میخواهم که دلدارم تو باشی
میں نے عراقی کی طرح اس لیے تجھ سے دل لگایا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میرا دلدار تُو ہو۔
(فخرالدین عراقی)
ندیم و مونس و یارم تو باشی
کیا ہی خوب ہو اگر میرا دلدار، ندیم، مونس، اور یار تُو ہو۔
دلِ پردرد را درمان تو سازی
شفای جانِ بیمارم تو باشی
(اور کیا ہی خوب ہو اگر) میرے پُردرد دل کا علاج تُو کرے اور میری بیمار جان کی شفا تُو ہو۔
ز شادی در همه عالم نگنجم
اگر یک لحظه غمخوارم تو باشی
اگر تُو ایک لحظے کے لیے میرا غم خوار بن جائے تو میں خوشی سے دنیا میں نہ سماؤں۔
ندارم مونسی در غارِ گیتی
بیا، تا مونسِ غارم تو باشی
(اِس) غارِ دنیا میں میرا کوئی مونس و یار نہیں ہے؛ (اے یار) آ جا تاکہ تُو میرا یارِ غار بن جائے۔
اگرچه سخت دشوار است کارم
شود آسان، چو در کارم تو باشی
اگرچہ میرا کام سخت دشوار ہے لیکن جس وقت تُو شاملِ کار ہو جائے، میرا کام آسان ہو جائے گا۔
اگر جمله جهانم خصم گردند
نترسم، چون نگهدارم تو باشی
جب میرا نگہدار تُو ہو، تب خواہ پوری دنیا میری دشمن بن جائے، مجھے خوف نہیں ہو گا۔
همینالم چو بلبل در سحرگاه
به بوی آنکه گلزارم تو باشی
میں ہنگامِ سحر اس امید میں بلبل کی طرح نالہ کرتا ہوں کہ میرا گلزار تُو ہو جائے۔
چو گویم وصفِ حسنِ ماهرویی
غرض زان زلف و رخسارم تو باشی
جب میں کسی ماہ رو کے حُسن کے وصف بیان کرتا ہوں تو زلف و رخسار سے میرا مقصود تُو ہی ہوتا ہے۔
اگر نامِ تو گویم ور نگویم
مرادِ جمله گفتارم تو باشی
خواہ میں تیرا نام کہوں یا خواہ نہ کہوں، میری جملہ باتوں کی مراد تُو ہی ہوتا ہے۔
از آن دل در تو بندم، چون عراقی
که میخواهم که دلدارم تو باشی
میں نے عراقی کی طرح اس لیے تجھ سے دل لگایا ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میرا دلدار تُو ہو۔
(فخرالدین عراقی)
سید شہزاد ناصر