چھوٹی چھوٹی خوشیاں

زیرک

محفلین
چھوٹی چھوٹی خوشیاں
کچرے کے ڈھیر سے کاغذ چنتے ایک محنت کش بچے کی تصویر دیکھی تو ایک گزری بات یاد آ گئی۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے جب مجھے بہت عرصے بعد پاکستان میں عید منانے کا موقع ملا تھا۔ میں عید کے دوسرے دن محلے کے پرانے واقف کاروں سے عید ملنے نکل پڑا۔ گلی سے گزر رہا تھا تو میں نے ایک محنت کش بچے کو دیکھا جو میلے کچیلے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ وہ جب میرے پاس سے گزرا تو مجھے اس کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے بچے کو روک کر سلام کیا، اس کا حال دریافت کیا اور عید کی مبارک دی۔ مبارکباد دینے کی دیر تھی کہ بچے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی رفتار تیز ہو گئی اور اس نے کہا ''چاچا! عید تو ان کی ہوتی ہے جن کے ماں باپ زندہ ہوں، وہ جیسے تیسے کر کے ان کے لیے نئے کپڑے بھی بناتے ہیں اور کھانے بھی بناتے ہیں، میرا تو کوئی بھی نہیں ہے، نہ باپ نہ ماں اور نہ ہی بھائی بہن''۔ بچے کی بات سن کر میری جو حالت ہوئی میں آپ کو الفاظ میں بیان نہیں سکتا۔ میں نے ملنے ملانے کا سلسلہ ترک کر کے بچے کو ساتھ لیا۔ گھر میں لا کر اسے کھانا کھلایا اور اسے اچھے سے کپڑے اور چپل کا جوڑا بھی دیا جو میں نے انگلستان میں دوستوں کے بچوں کو تحفے میں دینے کے لیے خرید رکھے تھے۔ اس واقعے کے بعد دوبارہ کبھی عید پر پاکستان جانے کا دل ہی نہیں چاہا۔ ہاں عیدین کے موقع پر اتنا ضرور کرتا ہوں کہ چھوٹے بھائی کے ذمے ڈیوٹی لگا دی ہے کہ اڑوس پڑوس یا محلے میں ضرورتمند بچوں، بچیوں، اور عورتوں کے حالات کے بارے مجھے مطلع کرتا رہے اور حسبِ توفیق ان کے لیے بھائی کے ہاتھ عیدی ضرور بھجواتا ہوں۔ اس عید کے بعد میں نے کبھی خود اپنے نئے کپڑے نہیں سلوائے، کبھی کبھار بھائی یا کوئی دوست تحفے میں نئے کپڑے دے دے تو وہ ضرور لے لیتا ہوں وگرنہ خود کبھی نئے کپڑے نہیں خریدے۔ دوستوں سے عرض ہے کہ عام طور پر نہ سہی کم از کم عید کے موقع پر چھوٹی چھوٹی خوشیاں ضرور بانٹا کیجئے، یقین کیجئے اس سے دل کو بڑا سکون ملتا ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
چھوٹی چھوٹی خوشیاں
کچرے کے ڈھیر سے کاغذ چنتے ایک محنت کش بچے کی تصویر دیکھی تو ایک گزری بات یاد آ گئی۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے جب مجھے بہت عرصے بعد پاکستان میں عید منانے کا موقع ملا تھا۔ میں عید کے دوسرے دن محلے کے پرانے واقف کاروں سے عید ملنے نکل پڑا۔ گلی سے گزر رہا تھا تو میں نے ایک محنت کش بچے کو دیکھا جو میلے کچیلے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ وہ جب میرے پاس سے گزرا تو مجھے اس کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے بچے کو روک کر سلام کیا، اس کا حال دریافت کیا اور عید کی مبارک دی۔ مبارکباد دینے کی دیر تھی کہ بچے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی رفتار تیز ہو گئی اور اس نے کہا ''چاچا! عید تو ان کی ہوتی ہے جن کے ماں باپ زندہ ہوں، وہ جیسے تیسے کر کے ان کے لیے نئے کپڑے بھی بناتے ہیں اور کھانے بھی بناتے ہیں، میرا تو کوئی بھی نہیں ہے، نہ باپ نہ ماں اور نہ ہی بھائی بہن''۔ بچے کی بات سن کر میری جو حالت ہوئی میں آپ کو الفاظ میں بیان نہیں سکتا۔ میں نے ملنے ملانے کا سلسلہ ترک کر کے بچے کو ساتھ لیا۔ گھر میں لا کر اسے کھانا کھلایا اور اسے اچھے سے کپڑے اور چپل کا جوڑا بھی دیا جو میں نے انگلستان میں دوستوں کے بچوں کو تحفے میں دینے کے لیے خرید رکھے تھے۔ اس واقعے کے بعد دوبارہ کبھی عید پر پاکستان جانے کا دل ہی نہیں چاہا۔ ہاں عیدین کے موقع پر اتنا ضرور کرتا ہوں کہ چھوٹے بھائی کے ذمے ڈیوٹی لگا دی ہے کہ اڑوس پڑوس یا محلے میں ضرورتمند بچوں، بچیوں، اور عورتوں کے حالات کے بارے مجھے مطلع کرتا رہے اور حسبِ توفیق ان کے لیے بھائی کے ہاتھ عیدی ضرور بھجواتا ہوں۔ اس عید کے بعد میں نے کبھی خود اپنے نئے کپڑے نہیں سلوائے، کبھی کبھار بھائی یا کوئی دوست تحفے میں نئے کپڑے دے دے تو وہ ضرور لے لیتا ہوں وگرنہ خود کبھی نئے کپڑے نہیں خریدے۔ دوستوں سے عرض ہے کہ عام طور پر نہ سہی کم از کم عید کے موقع پر چھوٹی چھوٹی خوشیاں ضرور بانٹا کیجئے، یقین کیجئے اس سے دل کو بڑا سکون ملتا ہے۔
بھیا۔۔۔اجر تو اس کا خیر اللہ ہی دے گا مگر ہم ایک مشورہ دینگے وہ آپ قبول کریں یا نہ کریں۔۔۔آپ کا جذبہ قابل ستائش ہے درد مند دل رکھتے ہیں مگر ۔۔۔اگر صرف اس ایک واقعے کی وجہ سے آپ نے عید پر کپڑے نہیں سلوائے یا پاکستان جانے کا دل نہیں چاہا تو یہ غلط کیا اور کر رہے ہیں آپ۔۔۔ایسی بات نہیں ہے ہمارے یہاں مخیر درد مند حضرات ہیں جو کما حقہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔۔۔مگر آپ کو اگر اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہے تو اس سے استفادہ نہ کرنا کفران نعمت میں بھی آسکتا ہے اسے کوئی فتویٰ مت سمجھ لیجیے گا۔۔۔
 

زیرک

محفلین
بھیا۔۔۔اجر تو اس کا خیر اللہ ہی دے گا مگر ہم ایک مشورہ دینگے وہ آپ قبول کریں یا نہ کریں۔۔۔آپ کا جذبہ قابل ستائش ہے درد مند دل رکھتے ہیں مگر ۔۔۔اگر صرف اس ایک واقعے کی وجہ سے آپ نے عید پر کپڑے نہیں سلوائے یا پاکستان جانے کا دل نہیں چاہا تو یہ غلط کیا اور کر رہے ہیں آپ۔۔۔ایسی بات نہیں ہے ہمارے یہاں مخیر درد مند حضرات ہیں جو کما حقہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔۔۔مگر آپ کو اگر اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہے تو اس سے استفادہ نہ کرنا کفران نعمت میں بھی آسکتا ہے اسے کوئی فتویٰ مت سمجھ لیجیے گا۔۔۔
برادرم نئے کپڑے خود نہیں خریدتا، لیکن تحفے میں ملے لے لیتا ہوں لیکن وہ بھی کبھی کبھار وہ اس لیے کہ پہلے کا کافی سٹاک پڑا ہوا ہے وہ اب بھی چل رہا ہےاس لیے یہ کفرانِ نعمت میں نہیں آتا۔ پاکستان ہر سال جانا ہوتا ہے مگر عید پر نہیں جاتا۔ میں نے کہیں بھی دوسروں کے بارے میں یہ نہیں لکھا کہ وہ ضرورتمندوں کے لیے کچھ نہیں کرتے، بلاشبہ پاکستان ضرورتمندوں کے مدد کرنے والا دنیا میں کسی اور ملک سے کم نہیں ہے۔ ہاں میں نے چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے کی بات ضرور کی ہے کہ جس سے بڑا ذہنی سکون میسر آتا ہے۔
 

زیرک

محفلین
بھیا۔۔۔اجر تو اس کا خیر اللہ ہی دے گا مگر ہم ایک مشورہ دینگے وہ آپ قبول کریں یا نہ کریں۔۔۔آپ کا جذبہ قابل ستائش ہے درد مند دل رکھتے ہیں مگر ۔۔۔اگر صرف اس ایک واقعے کی وجہ سے آپ نے عید پر کپڑے نہیں سلوائے یا پاکستان جانے کا دل نہیں چاہا تو یہ غلط کیا اور کر رہے ہیں آپ۔۔۔ایسی بات نہیں ہے ہمارے یہاں مخیر درد مند حضرات ہیں جو کما حقہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔۔۔مگر آپ کو اگر اللہ نے نعمتوں سے نوازا ہے تو اس سے استفادہ نہ کرنا کفران نعمت میں بھی آسکتا ہے اسے کوئی فتویٰ مت سمجھ لیجیے گا۔۔۔
برادرم نئے کپڑے خود نہیں خریدتا، لیکن تحفے میں ملے لے لیتا ہوں لیکن وہ بھی کبھی کبھار وہ اس لیے کہ پہلے کا کافی سٹاک پڑا ہوا ہے وہ اب بھی چل رہا ہےاس لیے یہ کفرانِ نعمت میں نہیں آتا۔ پاکستان ہر سال جانا ہوتا ہے مگر عید پر نہیں جاتا۔ میں نے کہیں بھی دوسروں کے بارے میں یہ نہیں لکھا کہ وہ ضرورتمندوں کے لیے کچھ نہیں کرتے، بلاشبہ پاکستان ضرورتمندوں کے مدد کرنے والا دنیا میں کسی اور ملک سے کم نہیں ہے۔ ہاں میں نے چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے کی بات ضرور کی ہے کہ جس سے بڑا ذہنی سکون میسر آتا ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
چھوٹی چھوٹی خوشیاں
کچرے کے ڈھیر سے کاغذ چنتے ایک محنت کش بچے کی تصویر دیکھی تو ایک گزری بات یاد آ گئی۔ یہ کئی سال پہلے کی بات ہے جب مجھے بہت عرصے بعد پاکستان میں عید منانے کا موقع ملا تھا۔ میں عید کے دوسرے دن محلے کے پرانے واقف کاروں سے عید ملنے نکل پڑا۔ گلی سے گزر رہا تھا تو میں نے ایک محنت کش بچے کو دیکھا جو میلے کچیلے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ وہ جب میرے پاس سے گزرا تو مجھے اس کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے بچے کو روک کر سلام کیا، اس کا حال دریافت کیا اور عید کی مبارک دی۔ مبارکباد دینے کی دیر تھی کہ بچے کی آنکھوں سے آنسوؤں کی رفتار تیز ہو گئی اور اس نے کہا ''چاچا! عید تو ان کی ہوتی ہے جن کے ماں باپ زندہ ہوں، وہ جیسے تیسے کر کے ان کے لیے نئے کپڑے بھی بناتے ہیں اور کھانے بھی بناتے ہیں، میرا تو کوئی بھی نہیں ہے، نہ باپ نہ ماں اور نہ ہی بھائی بہن''۔ بچے کی بات سن کر میری جو حالت ہوئی میں آپ کو الفاظ میں بیان نہیں سکتا۔ میں نے ملنے ملانے کا سلسلہ ترک کر کے بچے کو ساتھ لیا۔ گھر میں لا کر اسے کھانا کھلایا اور اسے اچھے سے کپڑے اور چپل کا جوڑا بھی دیا جو میں نے انگلستان میں دوستوں کے بچوں کو تحفے میں دینے کے لیے خرید رکھے تھے۔ اس واقعے کے بعد دوبارہ کبھی عید پر پاکستان جانے کا دل ہی نہیں چاہا۔ ہاں عیدین کے موقع پر اتنا ضرور کرتا ہوں کہ چھوٹے بھائی کے ذمے ڈیوٹی لگا دی ہے کہ اڑوس پڑوس یا محلے میں ضرورتمند بچوں، بچیوں، اور عورتوں کے حالات کے بارے مجھے مطلع کرتا رہے اور حسبِ توفیق ان کے لیے بھائی کے ہاتھ عیدی ضرور بھجواتا ہوں۔ اس عید کے بعد میں نے کبھی خود اپنے نئے کپڑے نہیں سلوائے، کبھی کبھار بھائی یا کوئی دوست تحفے میں نئے کپڑے دے دے تو وہ ضرور لے لیتا ہوں وگرنہ خود کبھی نئے کپڑے نہیں خریدے۔ دوستوں سے عرض ہے کہ عام طور پر نہ سہی کم از کم عید کے موقع پر چھوٹی چھوٹی خوشیاں ضرور بانٹا کیجئے، یقین کیجئے اس سے دل کو بڑا سکون ملتا ہے۔

زیرک صاحب !

چلیں یہ کیا کم ہے کہ آپ کا یہ درد دل اسی وطن کا مرہون منّت ہے -ایک اور چکّر لگائیں اس درد دل میں اضافے کے لئے -بچپن میں نصابی کتابوں میں یہ شعر پڑھتے آ رہے ہیں -

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

(درد)

اور ہاں لکھتے رہیے 'عمدہ خیالات ہیں -

یاسر
 

زیرک

محفلین
زیرک صاحب !

چلیں یہ کیا کم ہے کہ آپ کا یہ درد دل اسی وطن کا مرہون منّت ہے -ایک اور چکّر لگائیں اس درد دل میں اضافے کے لئے
یاسر
برادرم، میں تو کبھی کبھار ہی سال پورا ہونے دیتا ہوں، وگرنہ 10 گیارہ مہینے بعد ایک آدھ چکر پاکستان کا ضرور لگتا ہے۔ اس بار بھی خیر سے اسی مہینے 7 اکتوبر کو ہی واپسی ہوئی ہے، گو کہ دورہ مختصر تھا مگر خاکِ وطن اور خاکسارانِ وطن سے ملاقات بہت اچھی رہی۔
 
Top