چھاؤں ہو میرے لئے تم زندگی کی دھوپ میں

الف عین
عظیم
------------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
-----------
چھاؤں ہو میرے لئے تم زندگی کی دھوپ میں
میں تجھے ہی چاہتا ہوں ہمسفر کے روپ میں
-----------------
چند پیسوں کے عوض جو بیچتے ہیں دین کو
لوگ ملتے ہیں یہاں پر عالموں کے روپ میں
-----------
غم اُٹھائے ہر طرح کے راستے میں پیار کے
تم سے ملنے آ گئے ہیں دل نشیں بہروپ میں
---------------
جو کہو گے ہم کریں گے آزمانا شرط ہے
کب سے تیرے واسطے ہی ہم کھڑے ہیں دھوپ میں
----------------
تم تو ارشد کر رہے ہو دل سے عزّت یار کی
وہ ہی دھوکہ دے رہا ہے پیار کے بہروپ میں
-------------
 

الف عین

لائبریرین
چھاؤں ہو میرے لئے تم زندگی کی دھوپ میں
میں تجھے ہی چاہتا ہوں ہمسفر کے روپ میں
----------------- شتر گربہ

چند پیسوں کے عوض جو بیچتے ہیں دین کو
لوگ ملتے ہیں یہاں پر عالموں کے روپ میں
----------- ٹھیک

غم اُٹھائے ہر طرح کے راستے میں پیار کے
تم سے ملنے آ گئے ہیں دل نشیں بہروپ میں
--------------- مفہوم واضح نہیں ہوا

جو کہو گے ہم کریں گے آزمانا شرط ہے
کب سے تیرے واسطے ہی ہم کھڑے ہیں دھوپ میں
---------------- شتر گربہ، واضح بھی نہیں

تم تو ارشد کر رہے ہو دل سے عزّت یار کی
وہ ہی دھوکہ دے رہا ہے پیار کے بہروپ میں
------------ بہروپ کا یہ استعمال غلط ہے، محض روپ کا محل تھا
'وہ ہی' وہی بار بار کی غلطی
قوافی میں دھوپ اور روپ/بہروپ کے علاوہ کوئی قافیہ نہیں۔
اس غزل کو یہیں چھوڑ دیں اور آگے بڑھیں، کچھ اشعار کو دوسرے ردیف و قوافی میں بدل کر کوشش کریں
 
Top