چُپ آنکھوں میں پیاس پڑی رہ جاتی ہے۔اسلم کولسری

چُپ آنکھوں میں پیاس پڑی رہ جاتی ہے
فٹ پاتھوں پر گھاس پڑی رہ جاتی ہے
بادل جا گرتے ہیں، سرد صراحی میں
صحرا صحرا پیاس پڑی رہ جاتی ہے
سب کچھ طے ہو جاتا ہے اور شرطِ وفا
بیرون اجلاس پڑی رہ جاتی ہے
عمر گزر جاتی ہے، خوابوں کی گٹھڑی
دیوانے کے پاس پڑی رہ جاتی ہے
خاموشی چھا جاتی ہے اور ایک صدا
روز پسِ انفاس پڑی رہ جاتی ہے
اس معصوم سے ماتھے پر اک شوخ شکن
زخم گرِ احساس پڑی رہ جاتی ہے
سُکھ کا سورج نکلے بھی تو آنگن بھر
اپنی رات اُداس پڑی رہ جاتی ہے
اب اُڑتے ہیں رنگ ہوا کے سنگ اسلم
دامنِ گل میں باس پڑی رہ جاتی ہے
 
Top