فارسی شاعری چو شاہی ات ہوس است، از خودی جدا می باش - امیر نظام الدین علی شیر نوائی فانی (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
چو شاهی‌ات هوس است، از خودی جدا می‌باش
گدایِ درگهٔ میخانهٔ فنا می‌باش
نگویمت به رقیبان مباش، ای مه، لیک
ز رویِ مِهر و وفا هم گهی به ما می‌باش
هوایِ صاف و مَیِ صاف و ساقیِ صافی
تو هم به اهلِ صفا، بر سرِ صفا می‌باش
دلا، گرت هوسِ تخت و تاجِ سلطنت است
به خاکِ درگهٔ پیرِ مُغان گدا می‌باش
رِضای خالق و مخلوق اگر همی‌خواهی
چه آیدت ز قضا، بر سرِ رضا می‌باش
گرت به گلشنِ کویش نِشیمن است مراد
چو خاکِ راه شو و پی‌روِ صبا می‌باش
به رند، رند شو اندر موافقت، ای دل
به پارسا چو فتد کار، پارسا می‌باش
اگر به دردِ دلِ خود دوا همی‌طلبی
به درد خو کن و آزاد از دوا می‌باش
شهی و رفعت اگر آرزو کنی، فانی
غلامِ حافظ و خاکِ جنابِ جامی باش
(امیر علی‌شیر نوایی فانی)

ترجمہ:
اگر تمہیں شاہی کی آرزو ہے تو خودپسندی و انانیت سے دور رہو اور درگاہِ میخانۂ فنا کے گدا بنے رہو۔
اے ماہ! میں تم سے [یہ] نہیں کہتا کہ رقیبوں کے ساتھ نہ رہو، لیکن از روئے مِہر و وفا کبھی ہمارے ساتھ بھی رہا کرو۔
صاف ہوا، صاف شراب اور ایک صاف دل ساقی [موجود ہیں]؛ تم بھی اہلِ صفا کے ساتھ باصفا رہو۔
اے دل! اگر تمہیں تخت و تاجِ سلطنت کی آرزو ہے تو پیرِ مُغاں کی درگاہ کی خاک پر گدا بنے رہو۔
اگر تمہیں خالق و مخلوق کی رِضا کی خواہش ہے تو قضا کی طرف سے جو کچھ بھی تمہاری جانب آئے، اُس پر راضی رہو۔
اگر تمہیں اُس کے کوچے کے گلشن میں نِشیمن کی خواہش ہے تو خاکِ راہ کی مانند ہو جاؤ اور صبا کی پیروی کرتے رہو۔
اے دل! رند کے ساتھ موافقت میں رند بن جاؤ، اور جب پارسا کے ساتھ سر و کار پڑے تو پارسا بنے رہو۔
اگر تمہیں اپنے دردِ دل کی دوا کی طلب ہے تو درد کی عادت کر لو اور دوا سے آزاد رہو۔
اے فانی! اگر تمہیں شاہی و بلندی کی آرزو ہے تو حافظ کے غلام اور آستانۂ جامی کی خاک بن جاؤ۔


× یہ غزل حافظ شیرازی کی غزل 'به دورِ لاله قدح گیر و بی‌ریا می‌باش' کے تتبّع میں لکھی گئی ہے۔
× رکن‌الدین همایون‌فرخ کی تصحیح میں 'چه آیدت ز قضا...' کی بجائے 'چو آیدت ز قضا...' درج ہے، یعنی 'قضا کی طرف سے جب تمہاری جانب [کچھ] آئے'۔
× رکن‌الدین همایون‌فرخ کی تصحیح میں '...خاکِ جنابِ جامی باش' کی بجائے '...خاشاکِ راهِ جامی باش' ہے، یعنی 'جامی کی راہ کا خاشاک بن جاؤ'۔
 
Top