چوہدری شوگر مل کیس؛ مالیاتی ماہرین نے کرپشن کا الجھا ہوا معاملہ سلجھانا شروع کردیا

جاسم محمد

محفلین
چوہدری شوگر مل کیس؛ مالیاتی ماہرین نے کرپشن کا الجھا ہوا معاملہ سلجھانا شروع کردیا
طالب فریدی اتوار 29 دسمبر 2019
1932776-chudherysugermillsandnab-1577562626-679-640x480.jpg

نیب کے آڈٹ ماہرین نے چوہدری شوگر مل کے، فائدے، خسارے اور قرض کی تفصیلات حاصل کرلیں، ذرائع۔ فوٹو:فائل

لاہور: خسارے میں جانے کے باوجود چوہدری شوگر مل کے شئیرز میں حیران کن حد تک اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نیب نے شریف فیملی کی چوہددی شوگر مل کیس میں مبینہ کرپشن داستان کی الجھی ہوئی گھتی مالیاتی ماہرین کی مدد سے سلجھانا شروع کردی۔ انکشاف ہوا ہے کہ خسارے میں جانے کے باوجود شوگر مل کے شئیرز کی تعداد میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا اور ساتھ ہی بینکوں سے لیا جانے والا قرض کروڑوں کے بجائے اربوں روپے میں چلا گیا پھر اچانک خسارہ کم ہوا اور فائدے میں تبدیل ہوگیا۔

نیب ذرائع کے مطابق چودھری شوگر مل کیس میں مالیاتی ماہرین نے آڈٹ رپورٹس کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے اور اس سلسلے میں نیب کے آڈٹ ماہرین نے چوہدری شوگر مل کے، فائدے، خسارے اور قرض کی تفصیلات حاصل کرلیں۔

رپورٹ کے مطابق سال 1991،92ء میں چوہدری شوگر مل نے 74 کروڑ روپے کا قرض حاصل کیا مگر کوئی منافع نہیں ہوا، 1993ء میں قرض 1 ارب 9 کروڑ 34 لاکھ ہوگیا اور شئیرز، 79 لاکھ 60 ہزار ہوئے جبکہ خسارہ 13 کروڑ 60 لاکھ ہوا۔

اسی طرح 1994ء میں قرض 1 ارب 20 کروڑ 85 لاکھ، شئیرز 1 کروڑ 48 لاکھ 30 ہزار جب کہ خسارہ 2 کروڑ 28 لاکھ 10 ہزار رہ گیا۔ 1995ء میں قرضہ 1 ارب 13 کروڑ 57 لاکھ، شئیرز 12 کروڑ 30 لاکھ جب کہ مالی فائدہ 15 کروڑ 94 لاکھ 80 ہزار ہوگیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1996ء میں قرض 1 ارب 9 کروڑ 59 لاکھ، شئیرز 28 کروڑ 74 لاکھ جب کہ مالی فائدہ 13 کروڑ 41 لاکھ 90 ہزار، 1997،98ء میں شوگر مل 5 کروڑ 98 لاکھ خسارے میں جب کہ قرض 1 ارب 26 کروڑ 35 لاکھ تک پہنچ گیا۔

سال 1999ء سے 2003ء تک شوگر مل کے مالی معاملات میں بہتری آئی اور شئیرز کی تعداد 37 کروڑ 96 لاکھ 62 ہزار تک پہنچ گئی، 2004ء میں شئیرز کی تعداد میں کمی ہوئی اور 2 کروڑ 52 لاکھ کا خسارہ ہوا۔ سال 2006ء سے 2009ء میں شوگر مل مسلسل خسارے میں رہی لیکن شئیرز بڑھتے بڑھتے 65 کروڑ 4 لاکھ تک پہنچ گئے۔

سال 2010ء سے 2013ء تک شوگر مل مالی فائدے میں رہی لیکن قرض میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا اور شئیرز کی تعداد 92 کروڑ 50 لاکھ ، قرض 2 ارب 24 کروڑ 59 لاکھ جب کہ مل کو 9 کروڑ روپے فائدے میں دکھایا گیا۔ اسی طرح 2014ء اور 2015ء میں شوگر مل نے ریکارڈ قرض لیا، خسارہ 37 کروڑ 5 لاکھ 50 ہزار جب کہ قرض 20 کروڑ 30 لاکھ رہ گیا۔

ذرائع کے مطابق نیب کے ماہرین ان آڈٹ رپورٹس کی مکمل چھان بین کے بعد اس حوالے سے ایک سوال نامہ تیار کر کے شریف فیملی کو بھجوائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایکسپریس نیوز کے مطابق نیب نے شریف فیملی کی چوہددی شوگر مل کیس میں مبینہ کرپشن داستان کی الجھی ہوئی گھتی مالیاتی ماہرین کی مدد سے سلجھانا شروع کردی۔ انکشاف ہوا ہے کہ خسارے میں جانے کے باوجود شوگر مل کے شئیرز کی تعداد میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا اور ساتھ ہی بینکوں سے لیا جانے والا قرض کروڑوں کے بجائے اربوں روپے میں چلا گیا پھر اچانک خسارہ کم ہوا اور فائدے میں تبدیل ہوگیا۔
جتنی محنت اور مستقل مزاجی سے اس قومی چور خاندان نے ملک کا پیسا لوٹا ہے۔ کاش اتنی محنت ملک کی معیشت بہتر کرنے پر لگاتے تو آج اس طرح ذلیل و خوار نہ ہو رہے ہوتے۔
 

فرقان احمد

محفلین
جتنی محنت اور مستقل مزاجی سے اس قومی چور خاندان نے ملک کا پیسا لوٹا ہے۔ کاش اتنی محنت ملک کی معیشت بہتر کرنے پر لگاتے تو آج اس طرح ذلیل و خوار نہ ہو رہے ہوتے۔
صاحب! پیسا آپ کی پارٹی کے ارکان نے لُوٹا یا لیگیوں یا جیالوں نے لُوٹا، اس کا فیصلہ وقت کرےگا تاہم فی الوقت تو یہ خوار نہیں ہو رہے بلکہ کافی مزے میں ہیں۔ مظلومیت کا لیبل الگ سے سجا رکھا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
صاحب! پیسا آپ کی پارٹی کے ارکان نے لُوٹا یا لیگیوں یا جیالوں نے لُوٹا، اس کا فیصلہ وقت کرےگا تاہم فی الوقت تو یہ خوار نہیں ہو رہے بلکہ کافی مزے میں ہیں۔ مظلومیت کا لیبل الگ سے سجا رکھا ہے!
ملک میں نیب کی صرف 25 عدالتیں ہیں اور ماشاءاللہ سے نیب نے کئی سو کیسز ایک ساتھ کھول رکھے ہیں۔ اسی لئے نیب کو آرڈیننس کے ذریعہ لگام ڈالی گئی ہے کہ پہلے بڑے کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز تو منطقی انجام تک پہنچا لو۔ روزانہ خبریں آتی ہیں فلاں کو پکڑ لیا، فلاں کو جیل میں ڈال دیا۔ اور پھر نیب کورٹس کی عدم دستیابی کے باعث چند ماہ بعد ملزمان لوہار ہائی کورٹ سے ضمانتیں کروا کر مظلومیت کا لیبل سر پر سجا لیتے ہیں۔ اور یوں عوام کو بیوقوف بناتے ہیں کہ ہم تو بے گناہ تھے حکومت نے نیب کے ذریعہ سیاسی انتقام لیا :)
 

فرقان احمد

محفلین
ملک میں نیب کی صرف 25 عدالتیں ہیں اور ماشاءاللہ سے نیب نے کئی سو کیسز ایک ساتھ کھول رکھے ہیں۔ اسی لئے نیب کو آرڈیننس کے ذریعہ لگام ڈالی گئی ہے کہ پہلے بڑے کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز تو منطقی انجام تک پہنچا لو۔ روزانہ فلاں کو پکڑ لیا، فلاں کو جیل میں ڈال دیا۔ اور پھر نیب کورٹس کی عدم دستیابی کے باعث چند ماہ بعد ملزمان لوہار ہائی کورٹ سے رہا ہو کر مظلومیت کا لیبل سجا لیتے ہیں۔ اور یوں عوام کو بیوقوف بناتے ہیں کہ ہم تو بے گناہ تھے حکومت نے نیب کے ذریعہ سیاسی انتقام لیا :)
بہرصورت، اب وہ بھی مزے میں ہیں اور حکومت نے بھی اپنے حواریوں کو بچا لیا۔ این آر او تو ہو چکا!
 

جاسم محمد

محفلین
بہرصورت، اب وہ بھی مزے میں ہیں اور حکومت نے بھی اپنے حواریوں کو بچا لیا۔ این آر او تو ہو چکا!
این آر او تب ہوتا جب بڑی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز پر تحقیق سے روکا جاتا۔ چونکہ نیب کے پاس اہلیت اور وسائل کی کمی ہے اس لئے اسے صرف میگا کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تاکہ جو بے شمار کیسز نیب نے کھول رکھے ہیں وہ جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچیں۔
چیرمین نیب کے مطابق نیب عدالتوں میں ایک کیس کی شنوائی کئی کئی ماہ بعد ہوتی ہے۔ جبکہ نیب قانون کے مطابق صرف 30 دنوں میں ہر کیس کا فیصلہ کرنا نیب عدالتوں پر لازم ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
این آر او تب ہوتا جب بڑی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز پر تحقیق سے روکا جاتا۔ چونکہ نیب کے پاس اہلیت اور وسائل کی کمی ہے اس لئے اسے صرف میگا کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تاکہ جو بے شمار کیسز نیب نے کھول رکھے ہیں وہ جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچیں۔
چیرمین نیب کے مطابق نیب عدالتوں میں ایک کیس کی شنوائی کئی کئی ماہ بعد ہوتی ہے۔ جبکہ نیب قانون کے مطابق صرف 30 دنوں میں ہر کیس کا فیصلہ کرنا نیب عدالتوں پر لازم ہے۔
آپ بھولے بادشاہ ہیں۔ آپ یوں ہی سمجھ لیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ بھولے بادشاہ ہیں۔ آپ یوں ہی سمجھ لیں۔
نیب کی 20 سالہ کارکردگی پر سخت ترین سوالیہ نشان ہے۔ خالی پکڑ دھکڑ سے ریکوریاں نہیں ہوتی۔ بلکہ نیب عدالتوں میں کیسز تیزی سے چلا کر منطقی انجام تک پہنچانے سے ہوتی ہے۔
پچھلے دو سالوں میں نیب عدالتوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر صرف نواز شریف کے کیسز تقریبا روزانہ کی بنیادوں پر سن کر منطقی انجام تک پہنچائے ہیں۔ اور وہ اب بھی اعلیٰ عدالتوں میں شنوائی کے منتظر ہیں۔
ان تمام کرپشن و منی لانڈرنگ کیسوں کا جلد از جلد منطقی انجام تک نہ پہنچنے اور اس دوران ضمانتیں کروا لینے کے بعد یہ سب قومی چور عوام کی نظر مظلوم دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
نیب نے 20 سالوں میں 324 ارب روپے کی ریکوری کی، جبکہ پنجاب حکومت نے صرف 15 ماہ میں 132 ارب کی ریکوری کر لی، حیرت انگیز انکشافات
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
نیب کی 20 سالہ کارکردگی پر سخت ترین سوالیہ نشان ہے۔ خالی پکڑ دھکڑ سے ریکوریاں نہیں ہوتی۔ بلکہ نیب عدالتوں میں کیسز تیزی سے چلا کر منطقی انجام تک پہنچانے سے ہوتی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں نیب عدالتوں نے صرف نواز شریف کے کیسز تقریبا روزانہ کی بنیادوں پر سن کر منطقی انجام تک پہنچائے ہیں۔ اور وہ اب بھی اعلیٰ عدالتوں میں شنوائی کے منتظر ہیں۔ ان کیسوں کا جلد از جلد منطقی انجام تک نہ پہنچنے سے یہ سب عوام کو مظلوم دکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
نیب نے 20 سالوں میں 324 ارب روپے کی ریکوری کی، جبکہ پنجاب حکومت نے صرف 15 ماہ میں 132 ارب کی ریکوری کر لی، حیرت انگیز انکشافات
اعلیٰ عدالتوں میں جو فیصلے ہو رہے ہیں، اُن سے تو نیب کی سبکی ہو رہی ہے۔ کچھ بھی تو ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اور خدا کے لیے، خبر پڑھ کر شیئر کیا کیجیے۔ اراضیوں سے قبضہ واگزار کروانےسے ملکی خزانے میں کیا خاک دولت واپس آئی ہے یا پنجاب حکومت نے کیا خاک ریکوری کی ہے! دراصل، یہ ادارے سیاسی انتقام کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور بلا امتیازاحتساب نہ ہونے کی بنا پر مخالفین سیاسی انتقام کا نعرہ لگاتے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ میں بھی کمزور مقدمہ لڑنے کے باعث اور غلط مقدمات قائم ہونے کی وجہ سے ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں یا ضمانت پررہا ہو جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف پر نیب نے کیا کیس بنایا؟ سوائے اس کے کہ اثاثے آمدن سے زائد ہیں؛ یہ تو مبہم بات ہوئی! اپنی پارٹی کے ورکرز او سول سوسائٹی کی اکثریت کے سامنے وہ اب بھی مظلوم ہیں۔ دراصل، کچھ تو ثابت کیاجانا چاہیےتھا۔ صرف نام لے لینے سے یا الزامات کی بوچھاڑ کر دینے سے کام نہیں چلتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اعلیٰ عدالتوں میں جو فیصلے ہو رہے ہیں، اُن سے تو نیب کی سبکی ہو رہی ہے۔ کچھ بھی تو ثابت نہیں کیا جا سکا۔
ارے حضور اعلیٰ عدالتوں میں اصل نیب کیسز کے فیصلوں پر شنوائی نہیں ہورہی۔ بلکہ صرف نیب عدالت میں کیس شروع ہونے میں تاخیر پر اعلیٰ عدالتیں ضمانت پہ ضمانت دے رہی ہیں۔
نواز شریف کے خلاف جو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس پر نیب عدالت سے سزا ہوئی تھی اور فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کا فیصلہ آیا تھا۔ یہ تینوں فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کئے جا چکے ہیں۔ ایک سال زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ابھی تک کسی اعلیٰ عدالت نے ان اصل کیسز کی شنوائی نہیں کی۔ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں صرف سزا معطل ہوئی ہے جسے سپریم کورٹ رد کر چکی ہے۔ اصل فیصلہ اپنی جگہ برقرار جو شنوائی ہونے کے بعد ہی کالعدم یا برقرار پائے گا۔
اسی طرح العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست بار بار کالعدم ہونے پر طبی بنیادوں پر ضمانتیں کروا کر قومی چور نواز شریف کو ملک سے فرار کروایا گیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دراصل، یہ ادارے سیاسی انتقام کا گڑھ بنے ہوئے ہیں اور بلا امتیازاحتساب نہ ہونے کی بنا پر مخالفین سیاسی انتقام کا نعرہ لگاتے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ میں بھی کمزور مقدمہ لڑنے کے باعث اور غلط مقدمات قائم کرنے کی وجہ سے ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں یا ضمانت پررہا ہو جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف پر نیب نے کیا کیس بنایا؟ سوائے اس کے کہ اثاثے آمدن سے زائد ہیں؛ یہ تو مبہم بات ہوئی!
اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ احتساب کا عمل صرف سیاسی انتقام ہے تو جن کا احتساب ہو رہا ہے ان سے اب تک کتنی ریکوریاں ہوئی ہیں؟ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کے خلاف جو نیب عدالتوں نے سزائیں سنائی ہیں ان پر اب تک کتنا عمل درآمد ہوا ہے؟ اعلیٰ عدالتوں نے نیب عدالتوں کے اصل فیصلوں پر کتنی شنوائی کی ہے؟ خالی سزا معطل کر دینے سے یا ضمانت دے دینے سے اصل کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ارے حضور اعلیٰ عدالتوں میں اصل نیب کیسز کے فیصلوں پر شنوائی نہیں ہورہی۔ بلکہ صرف نیب عدالت میں کیس شروع ہونے میں تاخیر پر اعلیٰ عدالتیں ضمانت پہ ضمانت دے رہی ہیں۔
نواز شریف کے خلاف جو ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس پر نیب عدالت سے سزا ہوئی تھی اور فلیگ شپ ریفرنس میں بریت کا فیصلہ آیا تھا۔ یہ تینوں فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کئے جا چکے ہیں۔ ایک سال زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ابھی تک کسی اعلیٰ عدالت نے ان اصل کیسز کی شنوائی نہیں کی۔ نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں صرف سزا معطل ہوئی ہے جسے سپریم کورٹ رد کر چکی ہے۔ اصل فیصلہ اپنی جگہ برقرار جو شنوائی ہونے کے بعد ہی کالعدم یا برقرار پائے گا۔
اسی طرح العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی درخواست بار بار کالعدم ہونے پر طبی بنیادوں پر ضمانتیں کروا کر قومی چور نواز شریف کو ملک سے فرار کروایا گیا ہے۔
کیس کیا ہے؟ آمدن سے زائد اثاثے! اس سے کچھ نہ بنے گا۔ آپ دیکھ لیجیے گا اگر صحیح معنوں میں مقدمہ چل گیا تب بھی! نواز شریف صاحب مظلوم بنے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان پر کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔ ہم تو اب انہیں فرشتہ سمجھ لیں تو مناسب ہے۔ اتنے عرصے اقتدار میں رہے اور ان کے خلاف نیب ایک بھی مقدمہ صحیح معنوں میں ثابت نہ کر سکی۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ مبہم بات نہیں۔ نیب قانون ہے کہ بار ثبوت ملزم کو دینا ہے کہ اس کے اثاثے سرکاری پوسٹ پر آنے کے بعد آمدن سے زائد کیسے ہو گئے۔
اعلیٰ عدلیہ میں ایسا معاملہ نہیں ہے کہ بار ثبوت ملزم دے؛ نیب کو بھی بہت کچھ ثابت کرنا ہوتا ہے وگرنہ کیس ختم!
 

جاسم محمد

محفلین
کیس کیا ہے؟ آمدن سے زائد اثاثے! اس سے کچھ نہ بنے گا۔ آپ دیکھ لیجیے گا اگر صحیح معنوں میں مقدمہ چل گیا تب بھی! نواز شریف صاحب مظلوم بنے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان پر کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔
آپ کس دنیا کی مخلوق ہیں؟ نواز شریف کو دو کیسز ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں کئی سال سزا اور بھاری جرمانے ہوئے ہیں۔ اور ادھر آپ کہہ رہے ہیں کچھ ثابت کیا جا سکا۔ نواز شریف اس وقت تک معصوم نہیں کہلا سکتے جب تک سپریم کورٹ حتمی طور پر یہ فیصلہ نہ کردے کہ نیب عدالتوں کے فیصلے غلط تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اعلیٰ عدلیہ میں ایسا معاملہ نہیں ہے کہ بار ثبوت ملزم دے؛ نیب کو بھی بہت کچھ ثابت کرنا ہوتا ہے وگرنہ کیس ختم!
اعلیٰ عدلیہ نے نیب عدالت کے اصل فیصلہ پر اپیل کا فیصلہ نیب قانون کے مطابق کرنا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملزم کو سزا نیب قوانین کے تحت دی گئی ہو اور اعلیٰ عدلیہ کوئی اور قانون ملزم پر لاگو کرکے اسے باعزت بری کر دے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کس دنیا کی مخلوق ہیں؟ نواز شریف کو دو کیسز ایون فیلڈ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس میں کئی سال سزا اور بھاری جرمانے ہوئے ہیں۔ اور ادھر آپ کہہ رہے ہیں کچھ ثابت کیا جا سکا۔ نواز شریف اس وقت تک معصوم نہیں کہلا سکتے جب تک سپریم کورٹ حتمی طور پر یہ فیصلہ نہ کردے کہ نیب عدالتوں کے فیصلے غلط تھے۔
نیب قانون کے تحت فیصلہ ہوا اور آمدن سے زائد اثاثوں کا یہ مبہم کیس اعلیٰ عدلیہ میں پٹنا ہی ہے؛ آپ دیکھ لیجیے گا۔ ہم اسی دنیا کی مخلوق ہیں؛ خلائی مخلوق نہ ہیں۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
اعلیٰ عدلیہ نے نیب عدالت کے اصل فیصلہ پر اپیل کا فیصلہ نیب قانون کے مطابق کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ملزم کو سزا نیب قوانین کے تحت دی گئی ہو اور اعلیٰ عدلیہ کوئی اور قانون ملزم پر لاگو کرکے اسے باعزت بری کر دے۔
دراصل ایسا نہیں ہے۔ نیب قانون کے تحت فیصلہ نہیں ہو گا۔ کئی کیسز میں اعلیٰ عدلیہ یہ ریمارکس پاس کر چکی ہے! نیب اگر کچھ ٹھوس ثابت نہ کر سکا تو ملزمان باعزت بری ہوں گے اور وہ نیب پر ہرجانہ کا کیس بھی دائر کر سکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیب قانون کے تحت فیصلہ ہوا اور آمدن سے زائد اثاثوں کا یہ مبہم کیس اعلیٰ عدلیہ میں پٹنا ہی ہے؛ آپ دیکھ لیجیے گا۔ ہم اسی دنیا کی مخلوق ہیں؛ خلائی مخلوق نہ ہیں۔ :)
اگر آمدن سے زائد اثاثوں پر کوئی سزا پاکستانی قوانین کے مطابق ہو نہیں سکتی تو یہ قانون نیب آرڈیننس کا حصہ اب تک کیسے ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
اگر آمدن سے زائد اثاثوں پر کوئی سزا پاکستانی قوانین کے مطابق ہو نہیں سکتی تو یہ قانون نیب آرڈیننس کا حصہ اب تک کیسے ہے؟
نیب آرڈیننس کا حصہ ہے تو سزا سنا دی گئی تاہم اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ اپنے قوانین اور طے شدہ ضوابط اور ماضی کے کیسز کی روشنی میں کرنا ہوتا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔
 
Top