چوہا از صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
چُوہا

ہے مرے پاس اِک مرا چوہا
خوب صورت سا دل رُبا چوہا
دُم بھی چوہے کی سر بھی چوہے کا
ہے مرا چوہا بس نرا چوہا
بلّی کو بھی سبق پڑھاتا ہے
ہے بہت ہی پڑھا لکھا چوہا
میرے چوہے کو کوئی کچھ نہ کہے
مِرا چوہا ہے لاڈلا چوہا
سو گیا دیکھ کر وہ بلّی کو
لوگ سمجھے کہ مر گیا چوہا
حرکتیں اُس کی سب دلیروں کی
کام کا شیر ، نام کا چوہا
دو ہی چوہے ہیں ساری دنیا میں
اِک مرا چوہا، اِک تِرا چوہا
چوہا دیکھا تو رو پڑی بلّی
بلّی دیکھی تو ہنس دیا چوہا
بات اِک بھی سُنی نہ بلّی نے
عمر بھر چیختا رہا چُوہا
جتنے چوہے ہیں میرے چوہے ہیں
یہ مرا چوہا وہ مرا چوہا
تیرے چوہے کو کھا گئی بلّی
میری بلّی کو کھا گیا چوہا
کل لڑائی ہوئی تھی دونوں میں
مر گئی بلّی ، بچ گیا چوہا

(صوفی تبسّم)
 
Top