ہمیں جاسوسی کا بہت شوق تھا، لیکن جب بھی جاسوسی کی، منہ کی کھائی۔
مثلاً ہمارا چھوٹا بھائی گھر میں سب کو تجسس میں ڈالے ہوئے تھا، وہ اپنے کمرے ہی میں گھسا رہتا اور نہ جانے کیا کرتا رہتا تھا، کسی سے فون پر باتیں کرتا تھا یا کوئی اہم کام سر انجام دینے میں مصروف تھا۔
ہم نے اس کی جاسوسی کے لیے اس کے کمرے میں ٹیپ ریکارڈ رکھ دیا۔
بعد میں سارے گھر والوں کے سامنے اسے سنا تو صرف خراٹوں کی آوازیں سنائی دیں۔
امی اور ابو ایک مرتبہ کمرے میں کھسر پھسر کر رہے تھے، ہم جو وہاں سے گزرنے لگے تو کانوں میں اپنا ہی نام سن کر چونک گئے اور بے اختیار امی اور ابو کی باتوں کی طرف کان لگ گئے۔
سمجھ تو ہم فوراً گئے تھے کہ ہم چوں کہ بہت چالاک اور جاسوسی طبیعت کے ہیں، اس لیے ہمارے امی ابو آپس میں ہماری جاسوسی کے بارے میں ہی تبصرہ کررہے ہوں گے اور اپنے چالاک بیٹے پر فخر کر رہے ہوں گے۔
اس تصور سے ہی ہمارے رگ و ریشے میں خوشی کی خوش گوار لہریںدوڑنے لگیں۔
مگر یہ کیا!! اگلی بات سن کر تو یہ سارے خواب ہمیں چکنا چور ہوتے محسوس ہوئے، کیوں کہ امی ابو سے ہمارے بارے میں کہہ رہی تھیں:
’’اس پر جاسوسی کا بھوت سوار ہے، کسی دن یہ ہم سب کو لے ڈوبے گا، اسے سمجھائو، بل کہ میں تو کہتی ہوں کسی اچھے ماہر نفسیات سے اس کا علاج کرائو، کل کو اس کی جاسوسی کی یہ عادت اگر بڑھتی چلی گئی تو اسے بہت نقصان پہنچائے گی۔ میں تو کہتی ہوں اسے کسی بورڈنگ ہائوس میں داخل کروادیتے ہیں، پابند رہے گا تو اس کا جاسوسی کا شوق ختم ہوجائے گا۔‘‘
ہم وہاں سے لاحول پڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں آکر کرسی پر دھب سے گرکر آنکھیں موندے اپنا انجام سوچ سوچ کر پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے چکر میں اور پریشان ہونے لگے۔
ایک دن ہمیں ایک فقیر پر شک ہوگیا۔
ہم نے سوچا آج تو ہماری جاسوسی کوئی اچھا رنگ ہی لائے گی۔
ممکن ہے ملک و قوم کے لیے ایسی فائدہ مند ثابت ہو کہ ہمیں ایک ہیرو کا درجہ دے دیا جائے۔
ہم چپکے سے اس کے پیچھے پیچھے ہولیے، وہ ٹانگ سے لنگڑا کر چل رہا تھا، ہم نے سوچا یہ بھی فراڈ ہے، دوسروں کو دکھانے کے لیے یہ لوگ لنگڑاتے ہوئے چلتے ہیں، مگر اپنے گھر جاکر بالکل صحیح چلنے لگتے ہیں۔
اس کی جاسوسی ہمیں ایک قبرستان تک لے گئی، ایک چھوٹی سی جھگی میں جاکر وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوا تو ہمیں آس پاس کے ماحول کا کچھ اندازہ ہوا، اب تو مارے خوف کے ہماری گھگی بندھ گئی، چاروں طرف قبریں ہی قبریں ، مگر جاسوسی اور ہیرو بننے کا خیال آتے ہی ہمارے اندر کا سویا ہوا ’’دلیر جاسوس‘‘ جاگ اٹھا، ہم اس جھگی سے کان لگاکر کھڑے ہوگئے:
’’بس ایک ہفتہ اور ٹھہر جائو۔‘‘ اندر سے غالباً اسی فقیر کی آواز آئی۔
’’پھر دیکھنا ، میں پہلے جیسا بھاگنے دوڑنے لگوں گااور اپنے چوراہے پر کسی اور کو ہرگز بھیک مانگنے نہیں …‘‘ ابھی ہمارے کانوں نے یہاں تک ہی سنا تھا کہ کسی نے انھیں پکڑ کر مروڑنا شروع کردیا۔
ہم نے ایک دم سے گھبرا کر پیچھے مڑکر دیکھا تو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک عمررسیدہ شخص ہمارے کان پکڑے غصے سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔
’’کون سے چوک پر ہوتے ہو؟‘‘ اس نے طنزیہ انداز سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ ہمیں اس کا سوال قطعاً سمجھ میں نہیں آیا۔
مگر جب اس نے سمجھایا تو ہم توبہ توبہ کرتے ہوئے بمشکل اپنی جان چھڑا کر اپنے گھر آئے اور بجائے کسی کی تسلی کے دو بول سننے کے ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کیا۔
بالآخر ہمارے گھر والوں نے ہماری اس جاسوسی کی عادت سے تنگ آکر ہمیں بورڈنگ ہائوس میں داخل کروا ہی دیا۔
اسکول بہت خستہ حال تھا، غریب طلبا نے اسے اور بھی عجیب بنادیا تھا۔
یہاں آکر تو ہماری جاسوسی کی رگ اور پھڑکنے لگی۔
معلوم ہوا کہ بچے صبح بیکریوں کے جلدی نہ کھلنے کی وجہ سے شام کو ہی اپنے ناشتے کے لیے بن اور ڈبل روٹی وغیرہ لے آتے ہیں۔
مگر دو چار دن سے اس بورڈنگ ہائوس میں عجیب بات محسوس کی گئی کہ روزانہ کسی ایک بچے کا بن غائب ہونے لگا، جب ہمیں یہ بات معلوم ہوئی تو ہم خوشی سے نہال ہوگئے کہ اب ہم جاسوسی کرکے اس چور کو پکڑ ہی لیں گے۔
رات جب سب سو گئے تو ہم اپنے بستر پر بیٹھے کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑانے لگے۔
ہم نے ایک ایسی عجیب بات دیکھی کہ بے اختیار فوراً لیٹے اور چادر سر پر ڈال کر لگے کانپنے ، ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک بچے کا بن جن لیے جارہا تھا۔
ہاں… جن… لیے جارہا تھا، ہم نے جن کو تو نہیں دیکھا، مگر ہم جان گئے کہ کوئی جن ہی اس بن کو لے جارہا ہے، کیوں کہ ہم نے بن کو خود بخود زمین پر رینگتے ہوئے دیکھا تھا۔
ہم رات بھر خوف سے تھرتھراتے رہے، صبح پھر اسکول میں سراسیمگی کا عالم تھا، کیوں کہ ایک اور بن غائب تھا۔
’’کسی اور کو معلوم ہو یا نہ ہو، مگر ہمیں معلوم ہے کہ بن کا چور کون ہے۔‘‘ ہم نے ایک بچے سے کہا۔
’’کون ہے؟ اور تمھیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
’’جن…نن!!‘‘ ہم نے نون پر زور دے کر کہا۔
’’جن…؟ کیا مطلب…!‘‘ وہ بچہ اور حیران ہوگیا۔
’’جن ہے اس چور کا بن۔‘‘ ہم نے اپنے چہرے کو خوف ناک بناتے ہوئے کہا۔
’’چور کا بن…؟‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، مگر ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔
’’ارے…بن کا چور…!!‘‘ اب کی بار ہم نے صحیح کرکے اسے بتایا۔
مگر وہ بجائے ہم سے متاثر ہونے کے دوسرے بچوں کو ہنستے ہوئے بتانے لگا، پھر تو پورا ہی دن ہمارا مذاق اڑتا رہا۔
ہم بہت دق ہوئے ، مگر اگلی رات کا انتظار کرنے لگے۔
پھر اگلی رات جب سب سو گئے تو ہم پھر جاسوسی میں لگ گئے، مگر اس بار بیٹھ کر جاسوسی کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔
ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں، اچانک ہمیں اپنے قریب کچھ آہٹ سنائی دی، ہم نے ایک جھٹکے سے آہٹ کی جانب دیکھا تو ہمیں پائوں تلے سے بستر سمیت ساتوں زمینیں نکلتی محسوس ہوئیں۔
ایک اور بچے کا بن خودبخود کھسک رہا تھا، ہم بیٹھ گئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس بن کو کھسکتا ہوا دیکھنے لگے۔
ہم اتنے ڈرے کہ شاید ہی روئے زمین پر کوئی انسان کسی خوف ناک موقع پر اتنا ڈرا ہوگا، اتنا بڑا گول بن زمین پر کھسک نہیں رہا تھا، بل کہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھ کر فضا میں اڑ رہا تھا۔
ہم تھرتھر کانپنے لگے اور پھر ہمیں اس بن کے نیچے ایک چیز بھی نظر آئی، کالے رنگ کی، ہم نے تھرتھراتے ہوئے چہرہ تھوڑا سا آگے کرکے اسے گھور کر دیکھا۔
اب جو ہم نے غور کیا تو ہماری ہنسی چھوٹ گئی اور سناٹے میں ہماری گونجتی ہنسی سن کر آس پاس کے بچے بھی گھبراکر اٹھ بیٹھے۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’ارے ، کیوں ہنس رہے ہو اتنی رات کو؟‘‘ ایک اور بولا۔
’’یہ نیا داخل ہوا ہے، شاید پاگل ہے۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔
ہم ان سب کے تبصروں سے بے نیاز ہوکر اس بن کو دیکھے جارہے تھے، جو کہ اب کافی دور نکل چکا تھا۔
پھر بچوں کی نگاہیں بھی ہماری نگاہوں کی سیدھ میں اٹھنے لگیں، تھوڑی ہی دیر میں اس بن سے تھوڑے فاصلے پر طلبا جمع ہوتے گئے۔
اتنے بڑے بن کے نیچے چھوٹی سی چوہیا ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی پستہ قد مزدور فام کا گدا اٹھائے شاہ راہ فیصل پار کر رہا ہو۔
’’اچھا تو یہ ہے بن چور جن…!‘‘
’’دھت تیرے کی…!!‘‘ کئی بچوں کے منہ سے نکلا۔
 
واہ جی واہ کیا بات ھے مزہ آگیا :)
جزاکِ اللہ خیرا۔
اس دھاگے کا نام چور کا بن کی بجائے بن کا چور ہونا چاہیے۔
مگر جو مزہ ”چور کا بن“ میں ہے وہ ”بن کا چور“ میں کہاں۔
لولز 007 کی سچی کہانیاں
نہیں سمجھ میں آیا۔
 
Top