چور مچائے شور (غیرجانبدارانہ تاریخ جو مسخ کی گئی)

arifkarim

معطل
یہ مضمون کچھ برس پیشتر ماہنامہ “نیا زمانہ” لاہور میں قسط وار شائع ہو چکا ہے۔ ہم اس مضمون میں پیش کیے گئے نقطہ نظر کی انفرادیت اور بےباکی کی بنا پر اسے اپنے قارین کی توجہ اور دلچسپی کے لیے یہاں شائع کر رہے ہیں۔ مضمون کے مصنف روش عام سے ہٹ کر پاکستان کے اور چند گنے چنے تجزیہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کو روشن خیال اور وسیع النظرکہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی جرأت اظہار کی بناپر پاکستان کے “بدنام” ترین کالم نگاروں میں سے ایک ہیں۔

مسلمان، خواہ ناخواندہ ہوں یا تعلیم یا فتہ، اعتدال پسند ہوں یا انتہاپسند، ایک بات پر متفق ہیں، اُس پر یقین رکھتے ہیں اور ہر دم اور ہر سطح پر اُسی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ وہ ساری دُنیا میں خواہ وہ امریکہ ہو یا یورپ، آسٹریلیا ہو یا فلپائن، بھارت ہو یاچین سنکیانگ(، رُوس )چیچنیا یا سربیا، تھائی لینڈ ہو یا نائیجیریا، ہر جگہ مسلمان اقلیتوں پر مظالم ہو رہے ہیں اور خصوصاًاسرائیل اور فلسطین میں تو مُسلمانوں پر قیامت ڈھائی جارہی ہے۔ اُن کے لیے یہ بات ایک آفاقی کُلیے کی حیثیت رکھتی ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی اقلیتی گروہ ہیں، وہ وہاں حکومتوں یا اکثریتی آبادی کے مظالم کا شکار ہیں۔

اِس بُہتان تراشی میں اسلامسٹ (Islamist) پروپیگنڈہ مشینری کی مُنہ میں زُبان رکھنے والا دراصل مغربی دانشوروں اور سیاستدانوں کا اپنا ایک گروہ بھی ہے جس کا تعلق بائیں بازو یا آزاد خیال اُس طبقے سے ہے جو شروع سے ہی اُس مغربی معُاشرے کو گالیاں دیتاآیاہے جس نے اُسے اظہارِ رائے کی یہ آزادی دی ہے۔ اِن میں سرِفہرست کئی مشہُور شخصیات ہیں جیسے رپورٹر رابرٹ فِسک، برطانوی سیاستدان جارج گیلووے، امریکی دانشور ایڈورڈ چرچل اور نوم چومّسکی، لندن کا سابقہ میئر کین لیونگ اسٹون اور دیگر بہت سے۔ یہ آگ اور پانی کا اتحاد بھی بہت عجیب ہے۔ متذکرہ بالا اور اُن کے قبِیل کے دوسرے افراد مُلّحد یا لادین ہیں جو اسلامی نظریات اور قوانین کے مُطابق سب سے زیادہ قابلِ نفرت اور لائق سزا ہیں۔ ا گر مُلاؤں کے بس میں ہو تو اسلامی قوانین کے مُطابق اِن افراد کے ساتھ بدترین سلوک ہو جیسا کہ اِن جیسوں کے ساتھ اسلامی مملکتوں ایران، سعودی عرب اور طالبان کے زیرِ اثر افغانستان میں ہوا ہے۔

شاید بائیں بازو کے گروہ کو بالکل بھی یاد نہیں ہے کہ شہنشاہ ایران رضا شاہ کے ہٹائے جانے کے بعد اُن کے دسیوں ہزار کا مریڈوں کا ایران کے آیت ا ﷲ حکمرانوں نے کیا حشر کیا۔ وہ یہ بھی بھول چُکے ہیں کہ افغانستان میں مُلاؤں نے ڈاکٹر نجیب کی لاش کو کا بل کی سڑکوں پر کیسے گھسیٹا تھا۔ کیونکہ وہ مغرب کی آزاد اور محفوظ فضا میں اسلامسٹوں کی دسترس سے دور بیٹھے ہیں۔ وہ وہاں بیٹھ کر نہایت آسانی سے مغرب کو گالیاں دے سکتے اور اسلامسٹوں کی براہِ راست یا گھُما پھرا کر حمایت کر سکتے ہیں۔

فلسطینیوں پر مظالم:
مُسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کی داستانوں میں سرِفہرست فلسطین اور کشمیر کی دل خراش اور جذبات انگیز حکایات ہیں۔ لیکن یہ داستانیں اُس وقت تک حقیقی معلوم ہوتی ہیں جب تک آپ اُن کے پسِ منظر کے واقعات کا قریب سے جائزہ نہ لیں۔ حقائق کو کھُلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد نہ صرف حقیقت کُچھ مختلف بلکہ عام طور پہ پیش کردہ صورتحال کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔

اسرائیل کی مملکت اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے تحت 1948ء میں وجود میں آئی۔ اِسی قرارداد کے تحت ایک فلسطینی ریاست کا وجود بھی عمل میں آنا تھا۔ نہ صرف یہ کہ کسی عرب مُلک نے اقوام ِ متحدہ کی قرارداد ا ور اُ س کے تحت بننے و الی اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیِا بلکہ اسرائیلی ریاست کے اعلان کے اگلے روز ہی پانچ عرب ممالک نے اُس پر تین اطراف سے حملہ بھی کر دیا۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ مشرقِ وسطیٰ کے متعلق اقوامِ متحدہ کی بُنیادی قررار داد کو تو تسلیم ہی نہ کریں لیکن یہ چاہیں کہ اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ میں نئی سے نئی قرارداد پیش ہوتی رہے اور اُس پہ عمل بھی ہو؟؟

پہ درپہ عرب ممالک نے 1950ء، 1960ء اور 1970 ء کی دہائیوں میں اسرائیل پر کئی حملے کئے جن کا مقصد اسرائیل کو صفحہء ہستی سے مٹانا تھا۔ اُن تمام جنگوں میں جارح عرب ممالک کو تقریباً پورے عالمِ اسلام کی حمایت حاصل رہی ہے۔

امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کے متعلق پالیسی کے نقاد کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر آج امریکہ اسرائیل کی حمایت نہ کر رہا ہوتا تو اسرائیل کا وجود کب سے مٹ چُکا ہوتا۔ عرب ممالک نے اسرائیل پر تمام حملے کسی فلسطینی ریاست کو آزاد کرانے کے لئے نہیں بلکہ اسرائیل کو مٹانے کے لئے کیے۔ کیونکہ ایک فلسطینی ریاست کے حصول کے لئے کسی حملے یا جنگ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ صرف اقوامِ متحدہ کی اُس قرارداد کو تسلیم کرنا ہی کافی ہوتا جس کا مقصد ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانا تھا۔

اِس دو ریاستی فارمولے پہ عمل درآمد کے لیے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا لازمی ہوتا جو عرب ممالک کو کبھی بھی قابلِ قبول نہ تھا اور نہ ہے۔ عرب ممالک فلسطینی ریاست کے قیام میں کوئی دلچسپی رکھتے تو اردن خود فلسطین کے ایک بُہت بڑے حصّے پر قابض نہ ہو جاتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی بھی کسی اسلامی دُنیا نے اردن پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ فلسطین علاقے پر اپنا قبضہ ختم کر دے۔ وہ تو اردن خود اُس مقبو ضہ علاقے کا بیشتر حصہّ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ہار بیٹھا۔

بیشتر فلسطینی جو اپنے لیے ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں، اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ اِس رویے میں تھوڑی سی تبدیلی صرف کُچھ سال پہلے آئی جب1990ء کے بعد پی ایل او کو اس بات کا احساس ہونے لگا اسرائیل کو جڑ سے مٹانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اُس نے اپنے بُنیادی مقصد یعنی اسرائیل کی بربادی سے کنارہ کش ہوکر دو ریاستی حل پر بات چیت کا راستہ اختیار کیِا۔ لیکن اِس حل کے راستے میں سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پی ایل او خود فلسطینیوں کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چُکاہے۔ اُسے تنہا حماس کے ہاتھوں انتخابات میں شکست ہو چکی ہے۔ حماس کا نصب العین آج بھی اسرائیل کو نیست و نابود کرنا ہے۔ اگر آج دوسری فلسطینی انتہا پسند تنظیمیں جیسے اسلامک جہاد یا AL-Aqsa Martyrs Brigade، حماس کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہیں تو پی ایل او کا وجود مکمل طور پر ختم ہو جائیگا۔ اُس صورت میں اسرائیل کو سلامتی کی ضمانت کون دے گا ؟؟ اسرائیل فلسطینی علاقے چھوڑ دے اور خود فلسطینی اور دیگر عرب، اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کریں ؟ اسرائیل فلسطین کو ایک مُلک کے طور پہ آزاد کر دے تاکہ وہ خود اسرائیل کے وجود کیلیے خطرہ بن جائے ؟ واہ کیا منطق ہے ! کیا انصاف ہے جس کی باتیں اسلامسٹ اور لیفٹسٹ کر رہے ہیں۔

پاکستان اور اسرائیل کی تخلیق کا موازنہ :
پاکستان کا وجود 1947 ء میں ہواکیونکہ ہندوستان کے مُسلمان برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کے وقت مُسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اُس مطالبے کے درُست ہونے کی نہ تو کوئی منطقی توجہیہ تھی اور نہ ہی کوئی مجبوریِ حالات۔

ہندوستان ہزاروں سال سے ہندؤوں کی سر زمین تھی۔ مسلمان یہاں پر حملہ آوروں کی حیثیت سے آئے تھے۔ یہاں آکر اُنہوں نے جبرو استبداد کے ذریعے یہاں کی اکثریتی آبادی پر حکمرانی کی۔ برطانیہ کے تسلط سے آزادی کے وقت یہاں کے ہندؤں کو اِس بات کی اُمید نظر آئی کہ اب ہندوستان کے لوگ ہندوستان پر جمہوری طریقے سے حکومت کریں گے جس میں مُسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتوں کا بھی بحثیت ہندوستانی نہ کہ مذہبی بنیاد پر حصہّ ہو گا۔ لیکن مُسلمانوں کو یہ بات منظور نہ تھی کہ ہندو بحثیت افراد اپنی اکثریت کی وجہ سے حکومت میں سب سے زیادہ حصہ حاصل کر سکیں۔ اُن کے نزدیک یہ حق صرف اُن کا ہی تھا کہ باوجود اقلیت ہونے کے وہ تو دیگر مذاہب کے لوگوں پر حکومت کریں لیکن کوئی اُن پر حکومت نہ کر پائے۔

پاکستان کے بن جانے کے بعد بھارت نے پاکستان کو تسلیم کیا باوجود اِس حقیقت کے کہ پاکستان کا وجود اُس علاقے میں ظہور پذیر ہو ا جو گذشتہ ہزاروں سال سے ہندوستان کا حصہ سمجھا جاتا رہا تھا۔ لیکن بھارت نے پاکستان پر حملہ نہیں کیِا جیسے کہ عربوں نے اسرائیل کی نو مولود ریاست پر ہلہ بول دیا۔ اِس کے برعکس اپنے وجود میں آنے کے کُچھ مہینوں کے اندر پاکستان نے قبائلی لشکر کی آڑ میں کشمیر کی ریاست پر حملہ کر کے جارحیت کا آغاز کیِا۔ یہ قبائلی لشکر آج کے طالبان کی ابتدائی شکل تھے اور یہیں سے اِن قبائلی مُجاہدین کو پاکستانی اسٹیبلشمینٹ نے اپناسٹرٹیجک سمجھنا شُروع کر دیا تھا۔

پاکستان میں یہ تاثُر عام ہے کہ بھارت پاکستان کو مٹانا چاہتا ہے، جب کے اب تک لڑے جانے والی تمام پاک بھارت جنگوں میں جارحیت کی ابتدا ء پاکستان کی طرف سے ہوئی۔ یہ بھی خوب حکمتِ عملی ہے۔

مارو بھی خود اور روؤ بھی خود

پاکستان بنائے جانے کے مقابلے میں اسرائیلی ریاست بنائے جانے کے لیے ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔ موجودہ اسرائیلی سر زمین ہزاروں سال سے یہودیوں اور عیسائیوں کا وطن رہی ہے جسِ کو ساتویں صدی عیسوی میں عربوں نے بزورِ شمشیر فتح کر لیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی میں ہولو کاسٹ کے واقعے نے، جس میں تقریباً 90 لاکھ یہودیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، اقوامِ عالم کو شدت سے اِس بات کا احساس دلایا کہ یہودیوں کے رہنے کیلیے کوئی اپنا وطن ہونا چاہئے۔ چنانچہ ہنگامی بُنیاد پر ایک یہودی ریاست کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا گیا جہاں یہودیوں کو جان و مال اور شہری آزادی کا تحفظ حاصل ہو۔ ہندوستان کے مُسلمانوں کی جانوں اور شہری حقوق کو ایک متحدہ ہندوستان میں کوئی ایسا خطرہ لاحق نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے ایک جُداگانہ ریاست کی ضرورت محسوس ہوتی۔ تو بھی مسلمانوں کے نزدیک پاکستان کا بنایا جانا تو حق بجانب تھا، اسرائیل کا نہیں۔ پاکستان کا وجود صرف اِس لیے ہوا کہ یہاں کے مُسلمان ہندؤں کے ساتھ رہنے پر تیار نہ تھے۔ اسرائیلی ریاست کا وجود اِس لیے ہوا کہ یہودیوں کے لیے کُرہ ارض پر سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ وہ جہاں جہاں رہتے تھے وہاں کے مقامی حکومتیں اور لوگ اُن سے جیسا چاہے سلوک کر رہے تھے۔ یہاں تک بعض اُنہیں جینے کا حق دینے کو تیار بھی نہ تھے۔

اسرائیلی حکومت کے بارے میں بُہت کُچھ کہا اور سُنا گیا لیکن کیا کوئی اسلامی مُلک یا لیفٹسٹ مشرقی تیمور کے بارے میں کچھ بولا ؟ اپنے 24 سالہ ناجائز قبضے کے دوران اسلامی ملک انڈونیشیا نے مشرقی تیمورEast Timor میں تقریباً دو لاکھ عیسائی آبادی کاقتل عام کیا۔
(source:International Watchdog)

کیا کسی اسلامی ملک یا نمایاں مسلمان شخصیت نے اِس سلسلے میں ایک لفظ مذمت کا بھی کبھی مُنہ سے نکالا؟ باوجود فلسطینیوں اور عربوں کی اسرائیل کے خلاف شدید جارحیت کے، کیاساٹھ سالہ مشرقی وسطیٰ کے تنازعہ میں اتنی جانوں کا زیاں ہوا ہے ؟

اقلیتوں کے حقوق۔ اسرائیل بمقا بلہ اسلامی ممالک :
تمام اسلامی ممالک میں غیر مُسلم اقلیتوں کی تعدا د میں مسلسل کمی آرہی ہے لیکن اسرائیل کی حدود میں رہنے والے مُسلمانوں کی آبادی میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ایک اندازے کے مُطابق آئندہ آنے والی دو دہائیوں میں مسلمان اسرائیل میں اکثریتی مذہبی آبادی بن جائیں گے۔ باوجود اِس کے دُنیا کے مختلف گوشوں سے یہودی افراد مسلسل اسرائیل کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

2007 ء میں غزہ پر حماس کے غلبے کے بعد وہاں کی قدیم مقامی عیسائی آبادی پر حماس کے ارکان نے حملے کر کے اُن کے ذاتی املاک اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیِا ہے اور پُر تشدد کاروائیوں میں سینکڑوں افراد کو قتل کیِا۔ باوجود حماس کی حکومت کے عیسائی آبادی کو تحفظ دینے کے وعدوں کے، کوئی بلوائی وہاں پر گرفتار نہیں ہوا۔

اسلامی ممالک میں غیرمسلم آبادی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جارہا ہے ؟ اِس کا اندازہ اِن اعداد و شُمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

- 1947 ء میں پاکستان کی ہندوآبادی 15% سے گھٹ کر 1% رہ گئی ہے جو مسلسل ظُلم و ستم کا شکار ہے۔
- 1947 میں بنگلہ دیش کی ہندو آبادی 30% سے گھٹ کر 10% رہ گئی ہے۔
- عراق میں آج سے دس سال پہلے 800,000 عیسائی آباد تھے اب صرف 150,000 رہ گئے ہیں۔
- پہلی جنگ عظیم کے وقت ترکی میں 20 لاکھ عیسائی آباد تھے جو اب گھٹ کے 1 لاکھ سے بھی کم رہ گئے ہیں۔
- حالیہ ‘عرب بہار’ (Arab Spring)کے بعد مصر میں عیسائی کوپٹ آبادی (Copts) پر حملے اور اُن کا قتلِ عام ایک معمول بن چُکا ہے۔

ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اسلامی ممالک میں غیر مُسلموں کی زبوں حالی کو ثابت کرتی ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت وہاں پہ رہنے والے عربوں کو مساوی حقوق دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مقامی فلسطینیوں کی خطرناک کاروائیوں کے باعث اسرائیلی حکومت کو یہودی اور عرب شہریوں کیلیے امتیازی قوانین بنانے پڑے۔ غیر معمولی تحفظاتی اقدام کے تحت اپنے شہری حقوق میں تخفیف کے باوجود اسرائیل میں آباد عربوں کو ‘آزاد’ عرب ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شہری حقوق حاصل ہیں۔ مثال کے طور پہ اُنہیں ووٹ کا حق حاصل ہے۔ اُنہیں مہذب حدود میں رہتے ہوئے اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے پُر امن مظاہرے کرنے کا حق ہے۔ اُنہیں آزادیٔ صحافت کا اور حکومت پہ تنقید کا حق ہے۔ کیا سعودی عرب، کویت، امان، قطر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات، شام، اردن کے شہریوں کو اُن کے اپنے ممالک میں یہ حقوُق حاصل ہیں ؟ عراق میں شہریوں کو یہ حقوق صرف حال ہی میں حاصل ہوئے ہیں جب ‘کافر’ مُلک امریکہ نے وہاں حملہ کر کے‘کافرانہ’ جمہوریت کو وہاں پرمتعارف کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اِن جمہوری حقوق سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل میں آباد فلسطینی کھلے عام اسرائیلی ریاست کے مٹائے جانے کی بات کرتے ہیں اور اُس کے باوجود آزاد شہری رہتے ہیں جب تک کہ کسی پر تشدد کاروائی یا دہشت گردی میں ملوث نہ پائے جائیں۔

حال ہی میں اسرئیلی پارلیمنٹ(Knesset) کے مسلمان رُکن عظمیٰ بِشریٰ نے ایران کے صدر احمدی نثراد کے اِس مطالبے کی پُرزور حمایت کی ہے کہ اسرائیلی ریاست کو مشرقِ وسطیٰ سے اُٹھا کر یورپ مُنتقل کر دیا جائے۔ عظمی بشریٰ اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک اور مُسلم رُکن محمد بارک نے شام کی موجودہ حکومت کی حمایت میں کئی جلوس نکالے۔ واضح رہے کہ ایران کے ہمراہ شامی حکومت بھی اسرائیل کے خاتمے پر یقین رکھتی ہے۔ یہاں بشریٰ نے اعلان کیِا کہ اگر ساری دُنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے تو وہ پھر بھی اُسے تسلیم نہیں کریگا یعنی اُس مُلک کو جس کی پارلیمان کا وہ خود رُکن ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا کوئی اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والا رُکن پاکستان کو مٹانے کی بات کرے تو اُس پر غداری کا مُقدمہ نہ چلایا جائے۔

مُسلمان آج تک اُس افسوسناک واقعے پر آگ بگوُلا ہیں جس میں ایک مشکو ک ذہنی حالت رکھنے والے یہودی فرد نے مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصے کو آگ لگا دی تھی۔ لیکن وہ اسلامی ممالک میں پیش آنے والے اُن واقعات کو معمول سے بھی کم سمجھتے ہیں جن میں آئے دن دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کردیا جاتا ہے۔ کیا کوئی گِن کے بتا سکتاہے کہ پاکستان میں اب تک کتنے مندر ڈھائے گئے ہیں اور کتنے گِرجوں کو آگ لگا دی گئی ہے؟

مسجدِ اقصیٰ کی آتش زنی کے افسوسناک واقعہ کا ذکر کرنے والے اِس حقیقت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ جبکہ بیشتر اسلامی ممالک میں دوسرے مذاہب کی عبادات پر مکمل یا جزوی پابندی ہے۔

سعودی عرب کا شہری صرف ایک مُسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب میں دوسرے مذاہب کے افراد کااپنی عبادت گاہیں بنانا تو دوُر کی بات ہے، اپنے گھروں تک میں اپنی مذہبی رسوُم کی ادائیگی مُشکل ہے۔ وہ یوں کہ دسیوں لاکھ غیر مُسلم افراد کو جو سعودی عرب میں بغرض روزگار مُقیم ہیں اپنی مذہبی کتابیں جیسے گیتاَ یا بائبل یا مذہبی علامتی نشانات جیسے بُت یا صلیب وغیرہ سعودی بادشاہت کے اندر لانے کی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ دبئی جیسی امارت میں، جو اپنی آزاد شبانہ زندگی میں لاس ویگاس کو مات دیتی ہے، چالیس لاکھ غیر مُسلم غیر مُلکی کارکُنان کے لیے صرف ایک گرجے اور ایک مندر کی اجازت ہے۔ یہ دونوں عمارات اتنی چھوٹی ہیں کہ وہاں مُشکل سے چند سو افراد ہی سما سکتے ہیں اور اپنے روایتی بیرونی ساخت سے عاری صرف عام مکانوں کی طرح ہیں۔

جبکہ ایک اسلامی مُلک میں دوسروں کی مذہبی آزادی سے یہ سب کُچھ ہو سکتا ہے تو کیا ایک یہودی ریاست میں اسلامی رسوم کی ادائیگی پر پابندی نہیں ہو سکتی تھی ؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ہوتا تو وہاں رہنے والے مُسلمان اب تک اسرائیل چھوڑ دیتے، وہاں رہ کر اپنی آبادی کو مسلسل بڑھا نہ رہے ہوتے۔
(جاری ہے)
http://www.rationalistpakistan.com/چور-مچائے-شور/
 

حسیب

محفلین
امریکہ، برطانیہ وغیرہ کو یہودیوں کا اتنا درد تھا تو اپنے قریب ہی کہیں ان کے لیے ملک بنا دیتے
براعظم امریکہ میں کافی جگہ موجود ہے

لگتا ہے کہ کالم نگا ر کی یاداشت کافی کمزور ہے۔ قبائلی لشکر کا کشمیر پر حملہ تو یاد ہے مگر بھارت کا حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور کشمیر پر حملہ یاد نہیں ہے
آپ اس بات پر بھی روشنی ڈال دیں کہ افریقی ممالک، آسٹریلیا اور امریکہ میں انگریز آج کل کیسے قابض ہیں؟؟ ان کے اصل رہائشی تو اور ہیں
 
اس سے زیادہ گمراہ کن اور جھوٹی تحریر شاید ہی کبھی نظر سے گزری ہو، اپنے مند پسند خیالات کو تجزیہ کا نام دیا گیا ہے اور حقائق کو مسخ کرکے یا ان کی من مان توجیح کی گئی ہے
 

arifkarim

معطل
کیا یہ سب باتیں سچ ہیں؟؟؟؟؟یہ ایک غیر جانبدار شخص کی تحریر نہیں لگتی۔

اگر آپکو کسی تاریخی حقیقت پر تفسار ہے تو پوچھ سکتی ہیں۔ میرے پاس اوپر موجود تمام تاریخی حقائق کے متعدد حوالہ جات موجود ہیں۔

امریکہ، برطانیہ وغیرہ کو یہودیوں کا اتنا درد تھا تو اپنے قریب ہی کہیں ان کے لیے ملک بنا دیتے
براعظم امریکہ میں کافی جگہ موجود ہے


اسلامی معاشروں میں یہ تاثر عام ہے کہ یہود قوم کو موجودہ اسرائیل عالمی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خیرات میں دیا ہے۔ جبکہ اگر غیرجانبداری کیساتھ صیہونیت کی تاریخ پڑھی جائے تو پتا چلتا ہے کہ صیہونیت کی ابتداء پہلی جنگ عظیم سے بھی قبل 1870 میں ہوئی تھی۔ یہ دراصل یہود پیشگوئیوں سے متاثر کچھ یہودی مذہبی فرقے تھے جو اپنے آبائی وطن اسرائیل کو دوبارہ آباد کرنا چاہتے تھے۔ انکا مقصد فلسطینی عربوں سے انکا وطن چھیننا نہیں بلکہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کرنا تھا جہاں وہ دیگر مذاہب کے لوگوں کیساتھ پر امن زندگی گزار سکیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران وقوع پزیر ہونے والے ہولوکاسٹ یعنی یورپی یہود کی نسل کشی کے جواب میں اس صیہونی تحریک کے نظریہ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے متفقہ طور پر فلسطین میں اپنے لئے ایک الگ آزاد اور خودمختار یہود ریاست کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اسی دوران فلسطین میں عرب اور یہودی آبادیوں کے درمیان جاری خانہ جنگی طور پکڑ گئی جسکے جواب میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک یہود اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کر دیا۔ اس قرارداد کو دنیا کی اکثریت اقوام بشمول صیہونی تنظیموں نے قبول کر لیا لیکن کسی ایک بھی عرب یا مسلم ملک نے اس کو قبول نہ کیا اور اسرائیل کی آزادی کے اگلے روز ہی چاروں اطراف سے اسپر حملہ کر دیا۔ اور یوں میدان جنگ میں یہودیوں کے ہاتھوں شکست فاش اٹھائی۔ جس فلسطینی ریاست کو آزاد کرنے کیلئے 5 عرب ممالک نے اسرائیل پر پہلا حملہ کیا تھا اسکے علاقے بھی اردن، شام اور مصر نے اپنے قبضے میں لے لئے۔ 1948 سے لیکر 1967 تک یہ علاقے ان کے قبضہ میں رہے اور کسی کو آزاد فلسطینی ریاست بنانے کا خیال تک نہ آیا۔ پھر جب 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے یہ مقبوضہ علاقے ان عرب ممالک سے چھین لیئے، تب ان منافقین کی عقل ٹھکانے آئی اور انہوں نے اقوام متحدہ کے ذریعہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں ہولناک شکست کے بعد جس اقوام متحدہ کی قرارداد کو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبہ کا ذریعہ بنایایا گیا، یہ وہی قرارداد تھی جسے 1947 میں تمام عرب ممالک بمع مسلم اقوام نے متفقہ طور پر رد کیا تھا۔ :)
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_Zionism
http://en.wikipedia.org/wiki/Palestinian_Declaration_of_Independence

لگتا ہے کہ کالم نگا ر کی یاداشت کافی کمزور ہے۔ قبائلی لشکر کا کشمیر پر حملہ تو یاد ہے مگر بھارت کا حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور کشمیر پر حملہ یاد نہیں ہے

یادشت کالم نگار کی نہیں کمزور، اس خطے میں موجود تاریخی طور پر متعصب زدہ لوگوں کی ہے۔ بھارت نے یقیناً نظام حیدر آباد، جونا گڑھ، گوآ وغیرہ کی آزاد ریاستوں کو عسکری قوت کے زور پر اپنے اندر شامل کیا۔ لیکن اس روایت کی بنیاد ہم پاکستانیوں نے 1947 میں کشمیر میں اسلامی جہادی لشکر بھیج کر شروع کی۔ درست جمہوری طریقہ تو یہ تھا کہ اسوقت کی پاکستانی حکومت برطانوی راج اور اقوام متحدہ کے ذریعہ کشمیریوں کی آزادی سے متعلق تحریک چلاتی جیسا کہ تحریک پاکستان کے ذریعہ پاکستان کو برطانوی راج سے آزادی ملی۔ لیکن نہیں۔ ہمیں تو اپنے جذبہ ایمانی اور عسکری قوت پر بڑا ناز تھا۔ اب دیکھ لیا نتیجہ اس 67 سال پر محیط اسلامی جہاد کا؟ نہ کشمیر آزاد، نہ انکی عوام خودمختار۔ الٹا کشمیر کی وجہ سے بھارت و پاکستان کے درمیان جنگیں، کشیدگی اور تنازعات آج تک قائم ہیں۔

آپ اس بات پر بھی روشنی ڈال دیں کہ افریقی ممالک، آسٹریلیا اور امریکہ میں انگریز آج کل کیسے قابض ہیں؟؟ ان کے اصل رہائشی تو اور ہیں

امریکہ، آسڑیلیا اور جنوبی افریقہ میں انگریز نے قبضہ کیلئے ہو بہو وہی طریقہ اپنایا جو ہمارے مسلمان فاتحین 1400 سال قبل مشرق وسطیٰ میں اپنا چکے تھے۔ یعنی اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر عرب اسلامی فاتحین نے پہلے فارس فتح کیا، پھر مصر، پھر رومی بازنطینی سلطنت، جسکے بعد شمالی افریقہ کی بربر ی ریاستوں میں اپنے جھنڈے گاڑے اور آخر میں اندلس اسپین میں اپنے جنگجو گھوڑے اتار دئے۔ کبھی آپنے غور کیا ہے کہ عراق سے لیکر مصر تک کے لوگوں کی اکثریتی زبان آج عربی کیسے ہے جبکہ اسلام کے ظہور سے قبل ان علاقوں میں دیگر مقامی اور علاقائی زبانیں بولی جاتی تھیں؟ اگر آج ان علاقوں پر عرب اسلامی فاتحین کی اولادوں کےقبضہ پر آپکو کوئی اعتراض نہیں تو انگریز کے امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ کے قبضہ پر اتنا غم و غصہ کیوں؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Muslim_conquests


اس سے زیادہ گمراہ کن اور جھوٹی تحریر شاید ہی کبھی نظر سے گزری ہو، اپنے مند پسند خیالات کو تجزیہ کا نام دیا گیا ہے اور حقائق کو مسخ کرکے یا ان کی من مان توجیح کی گئی ہے

ہاہاہا۔ الزام لگانا بہت آسان ہے۔ اسکو دلیل کیساتھ ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔ اس تحریر میں آپکو کیا چیز گمراہ کن اور جھوٹی لگی؟ مثالوں کیساتھ ثابت کریں وگرنہ خاموش رہیں۔ خالی بہتان باندھنے سے یہاں کچھ بھی نہیں ہونے والا۔

زیک
قیصرانی
حسان خان
 
آخری تدوین:
بقول نظیر اکبر آبادی، اگر ایک خاص مسئلے سے دوچار فرد کو چاند اور سورج بھی روٹیاں نظر آتی ہیں۔۔۔تو پھر اس عالم میں کچھ بھی ممکن ہے۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
برما کے مسلمان اور ان کی عورتوں کی عصمت دریاں؟ گجرات هند کے مسلمانوں کا حال 2002 اور حالیه ظلم؟؟؟ یه سب بھی مسخ شده حقائق هیں؟

لعنت الله علی الکازبین
 

arifkarim

معطل
برما کے مسلمان اور ان کی عورتوں کی عصمت دریاں؟ گجرات هند کے مسلمانوں کا حال 2002 اور حالیه ظلم؟؟؟ یه سب بھی مسخ شده حقائق هیں؟

لعنت الله علی الکازبین

ہرگز نہیں۔ کالم نگار نے ان حقائق سے انکار کہاں کیا ہے بلکہ اس نے مسلمان اکثریت ممالک میں غیر مسلمین کے ساتھ ظالمانہ اسلوک کا دیگر اکثریت ممالک میں مسلمان اقلیتوں کیساتھ بہیمانہ اسلوک کا تقابل پیش کیا ہے۔ جسکو پڑھتے ہی یہاں پر مزاح کی ریٹنگ آنا شروع ہو گئی۔ اسے کہتے ہیں دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت۔
 
کیا یہ سب باتیں سچ ہیں؟؟؟؟؟یہ ایک غیر جانبدار شخص کی تحریر نہیں لگتی۔
جی بالکل، یہ ایک ایسی تحریر ہے کہ جس میں حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے نیز بعض حقائق کی من مانی توجیع کی گئی ہے
اس تحریر کے مین پوائنٹ ہیں

1- اسرائیل کے مظالم اصل میں جھوٹی کہانیاں ہیں
2- اسرائیل کا قیام مبنی بر انصاف ہے
3-قیام پاکستان کو کوئ جواز نہیں تھا ۔
4- اسرائیل میں مسلم افراد ( قادیانی افراد) کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے !!!!!!!!!
5- مسلم ممالک میں اقلیتوں سے برا سلوک کیا جاتا ہے (افراد کی سطح پر کہا جا سکتا ہے نا کہ حکومتی سطح پر)

اب فیصلہ کرنا اسان ہے کہ ایک غیر معروف رائٹر کی غیر معروف بات سنی جائے گی
یا کہ مستند افراد کی بات جو تواتر سے بچپن سے سنتے آئے ہیں ان پر یقین کیا جائے گا
 

جاسمن

لائبریرین
jihadist.jpg






mbhyuykkdاس کالم میں یہ تصویر بھی تھی۔ یہ آپ نے کیوں چھوڑ دی؟؟
 

جاسمن

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روزے کی طبی نقصانات:۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سماجی رابطے کی سائٹس اور موبائل فون روزے کے مبینہ طبی فوائد کے پیغامات سے بھر جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر مسلمان علما اور ماہرین صحت روزے کے طبی فوائد پر روشنی ڈالتے دکھائی دیتے ہیں ۔جدید ذرائع ابلاغ کے عام ہونے سے پہلے مساجد کے منبر پر براجمان ملا حضرات بھی اپنے وعظ میں جدید طبی تحقیق کی روشنی میں روزے کی فضیلت بیان کرتے نظر آتے تھے (یہ الگ بات ہے کہ ان کے دعووں سے متعلق کم ہی کسی نے سوال کیا ہو گا کہ جس تحقیق کا آپ ذکر کر رہے ہیں، براہ کرم اس کا حوالہ ہی دے دیجئے)، گھر کے بڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Read more at: روزے کی تاریخ اور مسلمانوں پر اس کے منفی اثرات | Rationalist Pakistan: Rationalist Society of Pakistan | http://www.rationalistpakistan.com/%d8%b1%d9%88%d8%b2%db%92-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b3%d9%84%d9%85%d8%a7%d9%86%d9%88%da%ba-%d9%be%d8%b1-%d8%a7%d8%b3-%da%a9%db%92-%d9%85%d9%86%d9%81%db%8c/
اس سوسائٹی کا یہی ماٹو لگتا ہے۔۔۔۔تحریروں سے ظاہر ہے۔
مسلمان دشمن ہی نہیں اسلام دشمن ہے۔
ایک اور تحریر پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاصل بحث اللہ کی تلوار خالد بن ولید اور مالک بن نویرہ کا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دور حاضر میں اگر طالبان کسی علاقہ پر حملہ آور ہوکر یا ڈیرہ جیل توڑ کر بطور مال غنیمت اگر عورتوں کو ساتھ لے جاتے اور اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں تو وہ اپنے آئیڈیل ، رول ماڈل اور ہیرو، سیف اللہ خالد بن ولید کی سنت پر عمل پیرا ہو رہے ہوتے ہیں۔ طالبان سچے مسلمان ہیں جو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ وہ مسلمان جو اس درندگی اور سفاکی کے خلاف بولتے ہوئے طالبان کی مذمت کرتے ہیں وہ ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان کے قوت محرکہ کی مذمت کریں۔ اور طالبان کا قوت محرکہ چودہ سو سال قبل عرب صحراوں سے اٹھنے والی غیرانسانی رویوں کی تحریک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Read more at: اللہ کی تلوار ۔ خالد بن ولید ۔ تاریخ کے آئینہ میں | Rationalist Pakistan: Rationalist Society of Pakistan | http://www.rationalistpakistan.com/%d8%a7%d9%84%d9%84%db%81-%da%a9%db%8c-%d8%aa%d9%84%d9%88%d8%a7%d8%b1-%d9%80-%d8%ae%d8%a7%d9%84%d8%af-%d8%a8%d9%86-%d9%88%d9%84%db%8c%d8%af-%db%94-%d8%aa%d8%a7%d8%b1%db%8c%d8%ae-%da%a9%db%92-%d8%a2/
 

جاسمن

لائبریرین
یہ دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمود غزنوی کو دلچسپی کافروں کے مسلمان ہونے سے نہیں، ان کے مال ودولت سے ہوتی تھی۔ اس نے اردگرد کے کمزور مسلمان حکمرانوں سے بھی جنگیں لڑیں۔ اور ان جنگوں میں دو طرفہ اہل اسلام کا خون بہا۔اس نے بغداد کے عباسی خلیفہ سے بھی کئی شہر اور علاقے چھین لئے تھے۔جسے سارے مسلمان حکمران عالم اسلام کا خلیفہ مانتے تھے۔ بلکہ اس نے بغداد کے عالم اسلام کے دارالخلافے کو ہاتھیوں سے روندڈالنے کی دھمکی بھی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Society of Pakistan |۔۔۔۔ http://www.rationalistpakistan.com/%db%81%d9%85%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d8%b3%db%8c%da%a9%d9%88%d8%b1%d9%b9%db%8c-%d8%a7%d8%b3%d9%b9%db%8c%d8%a8%d9%84%d8%b4%d9%85%d9%86%d9%b9-%da%a9%db%92-%db%81%db%8c%d8%b1%d9%88%d8%b2%d9%85%d8%ad%d9%85/
 

جاسمن

لائبریرین
یہ سوسائٹی تو لگتا ہے کہ نئیر خان کی طرح کے اسلام دشمن لکھنے والوں کو چن چن کے اکٹھا کر رہی ہے۔ اور ہمارے معصوم لوگوں کو "غیر جانبدارانہ تجزیے"فراہم کر رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(حلال سائنس)۔۔اگلے دن کانفرنس میں مہناز قادری کی ریسرچ دلچسپ و عجیب رہی تھی، اس نے تحقیق کا مفروضہ یا ریسرچ ہائپوتھیسس ایک مقامی ادیبہ بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” سے لیا تھا۔ جو کہ کچھ یوں تھا “رزقِ حرام سے انسانی ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ جو جینیاتی امراض کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً جنسی ملاپ کے دوران باتیں کرنے کے قبیح عمل سے بچے گونگے اور بہرے پیدا ہوتے ہیں”۔ اپنی ریسرچ میں اس نے قرآن اور احادیث کے حوالے دئے اور نہ ماننے والوں کی حتمی اور اٹل سزا موت تجویز کی جس پر کسی سوال کی گنجائش نہ رہی تھی،ہال میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ تا ہم ایک اور تحقیق کہ فحش مواد اور قبیح چیزیں دیکھنے سے نظر کمزور ہوتی ہے، نظر کا چشمہ لگائے سیشن کی چئر پرسن کو کرسی پر پہلو بدلنے پر مجبور کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Read more at: حلال سائنس | Rationalist Pakistan: Rationalist Society of Pakistan | http://www.rationalistpakistan.com/%d8%ad%d9%84%d8%a7%d9%84-%d8%b3%d8%a7%d8%a6%d9%86%d8%b3/
 

جاسمن

لائبریرین
(انسانی تہذیب کا ارتقاء)۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن مذہب اسلام اس معاملے میں کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہوا اور ابھی بھی اپنی متروک شدہ روایات پر ڈٹا ہوا ہے۔ امام غزالی نے مذہب کے علم برداروں کو دلیل و استدلال کا فن دیا ہے۔ اس کے دیے ہوئے دلائل استعمال کرتے ہوئے مذہب کے یہ علم بردار نہ صرف انسانی تہذیب کے ارتقاء کو جھٹلاتے ہیں بلکہ اس کے متوازی نام نہاد اسلامی تہذیب کا ڈھول بھی پیٹتے ہیں۔ جو سننے میں تو بہت متاثر کن ہے لیکن حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Read more at: انسانی تہذیب کا ارتقاء (حصہ دوم) اسلام ازم | Rationalist Pakistan: Rationalist Society of Pakistan | http://www.rationalistpakistan.com/%d8%a7%d9%86%d8%b3%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%aa%db%81%d8%b0%db%8c%d8%a8-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d8%b1%d8%aa%d9%82%d8%a7%d8%a1-%d8%ad%d8%b5%db%81-%d8%af%d9%88%d9%85-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85-%d8%a7/
 

جاسمن

لائبریرین
(آخر مرد اپنا چہرہ کیوں نہیں ڈھانپتے)۔۔۔۔۔
مجھے ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ میں “ایک عورت ہوں، مجھے حفاظت کی ضرورت ہے”، میں زیور ہوں قیمتی گہنا ہوں۔ اور بسا اوقات تویہ بھی کہ میں ایک مٹھائی ہوں جسے ملفوف رکھنے کی ضرورت ہے… ا گر میں نے حفاظتی ورق اتار دیا تو میرے ارد گرد مکھیاں بھنبھنائیں گی۔ میرا پسندیدہ گلوکار ٹی وی پر اپنی آواز کا جادو بکھیر رہا ہے۔ میرا دل چاہ رہا ہے ک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Read more at: آخر مرد اپنا چہرہ کیوں نہیں ڈھانپتے؟ | Rationalist Pakistan: Rationalist Society of Pakistan | http://www.rationalistpakistan.com/%d8%a2%d8%ae%d8%b1-%d9%85%d8%b1%d8%af-%d8%a7%d9%be%d9%86%d8%a7-%da%86%db%81%d8%b1%db%81-%da%a9%db%8c%d9%88%da%ba-%d9%86%db%81%db%8c%da%ba-%da%88%da%be%d8%a7%d9%86%d9%be%d8%aa%db%92%d8%9f/
 
Top