چوروں کی سیاست بھی تماشے کی طرح ہے

چوروں کی سیاست بھی تماشے کی طرح ہے
اب اپنی معیشت بھی بتاشے کی طرح ہے

بڑھکیں کسی پنجاب کے ہیرو کی طرح ہیں
صحت کوئی دیکھے تو وہ لاشے کی طرح ہے

کب توند تمنا کی بھری جائے گی اِس سے
امید کا پیکج بھی تو ساشے کی طرح ہے

لیڈر میں بھی در آئے ہیں اطوار زنانہ
تولے کی طرح ہے کبھی ماشے کی طرح ہے

وہ خط بھی جو لکھتا ہے تو کیا دھانسو قسم کا
چالان کے مرقوم تراشے کی طرح ہے

کیا جانئے، بھر جاتا ہے کیوں چھالے زباں پر
جو آم کے کاٹے ہوئے قاشے کی طرح ہے

باور نہ کرا پایا میں بپھرے ہوئے خاں کو
’’جی آیاں نوں‘‘ سرکار کے ’’راشے‘‘ کی طرح ہے

ظالم نے ’’چول پن‘‘ کا نیا رنگ نکالا
مرزے کی طرح ہے نہ وہ پاشے کی طرح ہے

پھٹکار بھی اْس پر ہے ،مراپیار بھی ہے وہ
وہ بت کہ سیاست کے مہاشے کی طرح ہے

نویدظفرکیانی
 
آخری تدوین:
Top