چند پیاسی تحریریں

ایک وقت ایسا بھی آتا ھے جب انسان کو خود اپنی ذات سے آشنائی کی ضرورت پڑتی ھے ۔ اور یہ وقت بہت کٹھن اور صبر آزما ھوتا ھے ۔ کہ انسان کو خود اپنی ، اپنی ضروریات اور اپنے مقام کا تعین کرنا ھوتا ھے ۔ کہ خود اپنے لیے کتنا ضروری ھے ۔ اس وقت سب دلیلیں اور دعوے ایک طرف رکھ کر انسان خود سے ریا کاری برتے بغیر یہ فیصلہ کرتا ھے کہ آیا اب تک جو وقت اسے گزار چکا ھے ۔ وہ اس نے گزارا ھے ۔ وہ وہی ھے ۔ یا وہ صرف تماشائی تھا ۔ اس کی زندگی اسے ایک گمشدہ شے کی طرح ملی مگر حیات کے خار زاروں میں اس نے اسے بے قدر جانا ۔ تب پھر زندگی اس کی تحقیر، ارزانی کا شکوہ کیے بغیر اسے اتنا بے وقعت کر دیتی ھے کہ تمام دلائل ، دعوے اور عذر دھرے رہ جاتے ھیں ۔ اور انسان اس وقت زخمی لہجے ، اور شکست خوردہ سپاہی کی مانند زندگی کی قید میں بے بسی محسوس کرتا ھے ۔ مگر لازم نہیں کہ یہ بے کسی اور بے دلی کا لمحہ ھر کسی پر وارد ھوتا ھے ۔ کوئی خوش نصیب اس سے بچ بھی نکلتا ھے ۔ مگر اکثریت اس لمحے کی زد میں آ جاتی ھے ۔
محترم قاری یہ ایک تجربہ ھے جو اکثر شوریدہ سروں پہ آتا ھے ۔ اور وہ اس تجربے سے کامیاب نکلتے ھیں اور کچھ ناکام ۔ مگر میرا مطمح نظر تو کچھ اور ھے ۔ کہ ھم اس لمحے اور اس میں موجود کرب سے اس وقت تک آشنا ھی نہیں ھوتے جب تک ھم اس میں مبتلا نہیں ھوتے ۔
شاید میں کچھ ادھر ادھر بھٹک رہا ھوں ۔ اور میرا سر بھی میرے طرح بھٹکا ھوا ھے ۔ مجھے اس لمحے میں آئے ھوئے ایک وقت ھو گیا اور میں اپنی سادہ دلی اور ھٹ دھرمی کی وجہ سے اس لمحے کا قیدی بن چکا ھوں ۔ میہں چاھوں بھی تو اس لمحے کی قید سے نہیں نکل سکتا ۔
میں کون ھوں ، کیا ھوں ،کیوں ھوں کس کے لیے ھوں میرا وجود کس کی ملکیت ھے یہ میرے ھاتھ پاؤں میرے ھیں۔ مگر میں کہیں نہیں ھوں۔ میں تم ھوں تم میں ھوں ۔ تم اور میں شائد ھم ھیں ۔ مگر میں کہیں نہیں ھوں ،کہ گرفتار بلا کا وجود بھی موجود ھے مگر وہ نہیں ھے ۔ میں تو اپنے اس وجود نا موجود سے ارفع کہیں اور ھوں ۔
جو کوئی میرے گمشدہ میں کی خبر لائے گا وھی میرا مرشد ھو گا ۔ اور وہی مجھے اس کیفیت اور حالت کے اندوہ ناک سلسلے سے نکالے گا ۔
کوئی بھی حالت نہیں اب یہ حالت ھے
یہ تو آشوب ناک صورت ھے
 
انسان ایک اکائی ھے ۔ میں مانتا ھوں مگر شائد اگر انسان اپنے آپ سے باہر نکل کر دیکھے تو اسے اس کائنات کی وسعت میں اپنا آپ ایک حقیر ذرہ سے بھی حقیر تر محسوس ھو گا۔ کہ اس سے بہت بڑی اور قد آور مخلوقات اور اشیاء اسے اپنی کم مائیگی کا احساس دلائیں گی۔ مگر یہ ذرہ، اکائی یا انسان کہ اس کے دم سے ھی رونق دنیا ھے ۔ اسی کے دم سے روشنی ھے ۔ اسی کے دم سے ایک ھاؤ ھو کا میلہ سجا ھوا ھے اس زمین پر۔ یہ اکائی بیشک حجم میں باقی اکائیوں سے کمتر ضرور ھے مگر ان سے زیادہ اہم ھے۔ اور یہ اکائی دوسری اکائیوں پر غالب آنے کی بدرجہ اتم صلاحیت رکھتی ھے ۔
میں بھی ایک اکائی ھوں ۔ یا یہ میرا وہم ھے ۔ میں تو کبھی اپنے آپ سے باہر ھی نہیں نکلا ۔ میرا وجود ھی میری کائنات بن گیا ۔ کہ اس کے تحیر اور اسرار روز ایک نئے زاویے سے مجھ پر منکشف ھوتے ھیں ۔ اور مجھے مزید کمتر کر دیتے ھین کہ اے نادان تو ابھی خود سے ھی واقف نہیں تو کیا تو اس بات کا اہل ھے کہ دوسرے موضوعات پر گفتگو کرے ۔ پہلے اپنا معمہ تو حل کر لے اس کے بعد تو اس کائنات کے دوسرے مسائل کی طرف توجہ دینا ۔
اگر میں اپنی ذات کا معمہ ھی حل نہیں کر سکا تو یقیناً میری ذات رائیگاں ھے ۔ میرا علم سطحی ھے ۔ اور میں قطعی ایک ناکام ، پیاسا ، نا آسودہ ،نامکمل اور ادھورا شخص ھوں۔ اور کوئی بھی اکائی اگر ادھوری ،نامکمل اور نا آسودہ ھو تو وہ اپنے علاوہ اپنے کل کے لیے بھی نقصان دہ ھے ۔
بات ایک ادھوری اکائی کی ھو تو چلو تسلیم کر لیتے ھیں کہ صرف میں ھی تو ادھورا نہیں اور بھی تو ھیں جنہیں اس ادھورے پن کا علم ھی نہیں ۔ مگر ان ادھورے لوگوں کو ایک لاعلمی اور بے پروائی کی دولت دستیاب ھے ۔ اور مجھے کیا ملا آگہی کا ایک کڑوا گھونٹ اور عمر بھر کا سراب ۔ کہ جس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اب تو سانس بھی ایسے آتی ھے جیسے سانس نہیں درد کی ٹیس اٹھتی ھے اور سارے بدن کو چیر دیتی ھے ۔
میں اپنے وجود کو اپنے موجود پر نوحہ کہنے کیلیے مجبور ھو جا تا ھوں ۔ کہ میں ایک نامکمل اور ادھورے موجود کے ساتھ پوری زندگی کرنے پر مصر ھوں۔
 
یہ لمحات اگرچہ گزر رہے ھیں مگر میرا یقین ھے یہ کہیں محفوظ بھی ھو رہے ھیں ۔ ھمارے وجدان اور سوچوں سے بھی دور کوئی ایسا مقام ھے ضرور جس تک ھماری سوچ کی بھی رسائی ناممکن ھے۔ مگر یہ گزرتے لمحات اور وہ تمام وقت جو ھم نے ایسے صرف کیا جیسے سر سے کوئی بوجھ اتارا ھو ۔ یا ایک ناپسندیدہ امر انجام دینے کیلیے مجبور کر دیئے گئے ۔ یہ تمام محسوسات جو وقتی تھے ۔ اور اب جو پلٹ کر دیکھتے ھیں تو وھی پل ماضی کی گرد میں دبے ایسے چمکتے ھیں جیسے وہ بہت خوشگوار اور یاد گار پل تھے اور ھم نے انہیں ان کے شایان۔شان گزارنے کی کوشش ھی نہ کی بلکہ ھم نے ان لمحات کی توھین کر دی ۔ اور اب وھی لمحات ایک مجسم وجود بن کر ھمیں اپنی دلکشی کا احساس دلاتے ھیں اور ھمیں اپنی بے پروائی اور لاعلمی کا طعنہ دیتے ھیں۔
ھمیں گزرے پل اور ماضی دلکش لگتا ھے ۔ مگر جب ھم ان لمحوں میں سانس لیتے ھیں تو ھمیں وھی پل ایک سزا لگتے ھیں ۔ شائد ھم لوگ اس قابل ھی نہیں کہ ھم اپنے حال کو بھی دلکش بنانے کی کوشش کریں ۔ ھماری سوچیں ھمیں آگے جانے سے روکتی ھی اور جو کوئی مستقبل یا حال کا سوچتا ھے ھم لوگ اسے ابنارمل سمجھتے ھیں۔ اور اسے آزاد سوچنے کا حق دینے کیلیے بھی راضی نہیں ۔ عجب سانحہ ھے ۔ کہ ھم ماضی کی چوٹوں اور زخموں کو سہلاتے ضرور ھیں مگر مستقبل میں ان چوٹوں اور زخموں سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہیں کرتے یہ المیہ میرے لوگوں کا عجب المیہ ۔
شائد میں کچھ اور کہنا چاہ رہا ھوں مگر الفاظ پر میری گرفت نہیں ۔ کہ میں اپنا مدعا بیان کرنے پر قادر ھی نہیں ھوں ۔ میں تو درِ الفاظ کا وہ سائل ھوں جو صرف الفاظ کا ھی نہیں تاثیر کا بھی سائل ھوں ۔ کیونکہ میرے دامن میں میں تو کچھ بھی نہیں سوائے نہ کوئی سنہرے دنوں کا تصور اور نہ ھی کوئی سہانی یاد ۔ سو میرے پاس تو کچھ شکائتییں ھیں اور کچھ ان کہی اوران سنی التجائیں ھیں اور شائد ھی کسی کے پاس اس قدر وقت ھو کہ وہ ان دماغ سوز لمحوں پر غور کرے اور اس کا ایسا حل نکالے جو میرے اور میرے موجودہ وقت اور آنے والے وقت کیلیے قابلِ قبول ھو ۔
 
میں خوابوں کو آنکھوں میں سجائے پھر رہا ھوں ۔ میرے ھاتھوں میں رنگ ھیں ۔ میرے بدن پر بہاریں ھیں۔ میرے ماتھے پر اجالا ھے ۔ میرے پاؤں میں زمین کی طنابیں ھیں۔ میرے اطراف زمانے کی گردشیں میرا طواف کر رھی ھیں۔ میرے راستے کہکشاں کی گرد سے سجے ھیں ۔ زمان و مکان میری گرفت میں ھیں ۔
میں ایک ادنٰی اور حقیر انسان ھوں۔
جس پر ایک ایسی اعلٰی اور ارفع ھستی نے بارخلافت اور نیابت ڈالا ۔ کہ اگر اس ھستی کی تعریف میں سب سمندر سیاھی اور سب اشجار قلم بن جائیں ۔ تو بھی اس کی تعریف اس کا مرتبہ بیان نہیں ھو سکتا ۔
ایسے ذوالجلال ذی اکرام مالک کا میں غلام ھوں ۔ اور اس کا ھی کیا میں تو اسکے غلاموں کا غلام ھوں۔
اور تعریف و توصیف سب اسی ذات کو زیبا ھے ۔ ھم تو اپنے راستے سے بھٹکے ھوئے ۔ بےسکون اور پریشان حال لوگ ھیں ۔ جن کو سیدھے اور صحیح راستے کا بھی علم نہیں ۔
ھمارے پاس تو صرف ایک اشارہ ھے ۔ ایک کنایہ ھے ۔ اور منزل کا علم ھے ۔ مگر راستے اور زادِ راہ کا کوئی انتظام ھے اور نہ ھی خبر ھے ۔
ھم بے راہرو راھی ھیں ۔ یا شائد بےمنزل کے مسافر ھیں ۔ جو گھر سے ایک موہوم سی امید اور ایک مدھم اور بے نشان سی منزل کے تعاقب میں نکل کھڑے ھوئے ۔
اور اب انجام ایسے انجان اور بےگھر لوگوں کا کیا ھو گا؟ یہ معلوم ھوتے ھوئے بھی ھم اپنی ڈگر تبدیل نہیں کر سکتے ۔ کہ اپنا جینا اور مرنا اپنے لیے یا اپنی ذات کیلیے تھا ھی کب ؟ ھم تو بے نشان جزیروں، نا معلوم سمندروں اور بہتے پانیوں کی مسافرت پر نکلے ھوئے ھیں ۔ ھمیں اپنے انجام کی خبر ھے ۔ مگر ایسا حسرت ناک انجام اور ایسی بے خبری ، بے پروائی اور دیوانہ پن کیا کہنے؟
یہ اثاثہ ھے ان اداس اور حرماں نصیب نسلوں کا جو ھمیں ورثہ میں ملا ھے ۔ اور یہی اثاثہ اور ناکام آرزوئیں تشنہ لب ساعتیں اور خزاں نما بہاریں اور حال کے نوحے ھم بھی اگلی نسل کو یہی دے پائیں گے شاید؟
سیرابی کی باتیں پیاسا صحرا کیا جانے گا؟ کہ اس کی پیاس بجھی ھی کب تھی جو وہ اپنے مہمانوں کو سیراب کرے؟ میرے تو آنسو بھی شاید خشک ھی ھوں گے۔
یا پھر میری رگوں میں خون نہیں ایک عجب طرح کی آگ رواں ھے ۔ جو مجھے اور میرے گردو نواح کے علاوہ میری خواہشوں اور امنگوں کو بھی جھلسائے دے رہی ھے۔
 
میں اکثر سوچتا ھوں کہ اگر یہ سب کچھ نہ ھوتا- میری مراد یہ سب کچھ سے اور کچھ نہیں صرف احساسات ھیں ۔ کہ یہ احساسات جو ھمیں ہر پل ٹوکتے ھیں ۔ جو ھمارا تنہائی میں اسطرح احتساب کرتے ھیں جیسے کہ ھم ان کے مجرم ھوں ۔ ھم نے ان کو برتنے میں اور ان کے اظہار میں کوتاھی کی ھو ۔
یہ احساسات بھی عجب ودیعت ھے ربِ باری تعالٰی کی ۔ کہ ادنٰی سے ادنٰی احساس بھی ھمیں اپنی موجودگی کا اس طرح احساس دلاتا ھے ۔ کہ اس وقت اس احساس کے آگے ھمیں اپنی باقی حسیات بہت معمولی اور بےتکی محسوس ھونے لگتی ھیں۔ بلکہ نہیں شاید میں غلط کہہ گیا کہ ایک احساس ھماری باقی کی حسیات کو بھی یرغمال بنا لیتا ھے۔ اور اپنے ھونے کا احساس شدت سے دلاتا ھے ۔ اور باقی کی حسیات ثانوی حیثیت اختییار کر لیتی ھیں ۔ اور کبھی وہ احساس اتنی شدت سے ھم پر وارد ھوتا ھے کہ باقی کی حسیات اس کی ھمنوا بن جاتی ھیں ۔
جیسے اگر کوئی چوٹ لگ جائےتو دیکھنے کی حس نم ھو کر دھندا جاتی ھے ۔ حسِ سماعت شائیں شائیں کرنے لگتی ھے ۔ حسِ شامہ صرف اور صرف زخم کا اور خون کا ادراک کرتی ھے ۔ اور بولنے کی حس رونے لگتی ھے ۔
اسی طرح بھوک کا اور دوسرے عوامل کا ھماری حسیات پر اثر ھوتا ھے ۔ اگر کوئی ایک حس دوسری حسیات سے زیادہ حساس ھے تو وہ حس دوسری حسوں کو وقتی طور پر دبا دیتی ھے ۔
میں نہ جانے کن چکروں میں الجھ گیا ھوں کہ میں کہنا کچھ چاہتا تھا اور بات کہیں سے کہیں نکل گئی ۔ بالکل اسی طرح جس طرح ایک غیر حاضر دماغ شخص جو کرنا کچھ چاھتا ھے اور کر کچھ اور دیتا ھے ۔ میں معذرت خواہ ھوں آپ سے کہ عجیب الجھی ھوئی بات شروع کی اور آپ کو بھی الجھا لیا ۔
تو میں اپنی حالت کے پیشِ نظر اپنے احساسات کی بات کرتا ھوں ۔ مجھے نہیں معلوم کے اس موقع پر دوسرے کسی شخص کا ردِ عمل کیا ھو گا ۔ کیوں کہ میں تو اپنے آپ کو ایک سیدھا سادھا اور سچا انسان بنانا چاہتا ھوں۔
اور ابھی تک خود کو تعمیر کر رہا ھوں ۔ شاید کبھی میری یہ تعمیر مکمل ھو جائے ۔ اور میں اپنی شخصیت کی تراش خراش اور تعمیر سے فارغ ھو جاؤں ۔ اور ایک اپنی ذات کو پسند آنے والی شخصیت کے روپ میں خود سے ملوں ۔ بالکل ایک عکس کیطرح ۔ کہ یہ میری سب سے بنیادی اور بڑی خواھش ھے ۔
میری تکمیلِ ذات کیلیے دعا کیجیے گا ۔ کہ اب اور کوئی کام بھی نہیں کہ جس کا بہانہ بنا کر میں اپنے اس مقصد سے دور ھو جاؤں ۔ یا اسے بھول جاؤں۔
 
کچھ احساسات دل کو چھو کر گزر جاتے ھیں ۔ اور چند لمحات زندگی میں ایسے آتے ھیں کہ دل یہ خواھش کرتا ھے کہ کاش زندگی صرف انہی لمحات میں بسر ھو جائے۔ یہ لمحات زندگی کا حاصل ھوتے ھیں یا شاید یہ لمحات اس ذات کی دین ھوتے ھیں جو اپنے بندے کو کبھی مایوس نہیں دیکھنا چاھتی۔ ان دل خوش کن لمحوں میں کوئی کوئی لمحہ تو ایسا دل خوش کن ھوتا ھے کہ انسان خواھش کرتا ھے کہ بس اب دل خوشی سے بھر گیا اب زندگی تمام ھو جانی چاھیئے۔
مگر زندگی خواھش کا نام ھی کب ھے ۔ زندگی تو ایک مسلسل جہد کا نام ھے ۔ کہ اسے جتنا جیا جاے اتنی ھی پر کشش معلوم ھوتی ھے ۔ اور کبھی تو یہ اتنی خوبصورت اور خوشرنگ نظر آتی ھے کہ انسان سوچتا ھے کہ زندگی ایک ایسا تحفہ ھے جو خوش قسمی سے اس کا ھاتھ آگیا ھے ۔ انجانے میں ۔
ھم میں سے ھر آدمی زندگی کے بارے میں اتنا ھی لا علم اور نیا ھے ۔ کہ اس زندگی کا ھر قدم ھر موڑ پر ایک نیا ، اچھوتا اور دلفریب انداز سامنے آتا ھے ۔ اگر کوئی سو برس بھی جی چکا ھو تو میرا نہیں خیال کہ وہ زندگی سے اکتا گیا ھو گا ۔ بلکہ زندگی شاید اسے بھی روز نت نئے رنگ دکھاتی ھو اور اس کے دل کو لبھاتی ھو ۔ یہ ایک ایسی محبوبہ دلنواز ھے جو اپنے عاشق کو کبھی مجنوں کی مانند رول دیتی ھے اور کبھی اسے ایسا شہنشاہ بنا دیتی ھے ۔ کہ اس کے پاس کچھ نہ ھوتے ھوئے بھی وہ ایک مسرور اور مطمئن حالت کا معتدل شخص نظر آتا ھے ۔ زندگی کے سبھی رنگ اور سبھی زاویے ایک سے بڑھکر ایک ھیں ۔
زندگی صرف خوشیاں ھی نہیں دیتی اس کے دامن میں آپکو مجھے اور ھم جیسے کروڑوں لوگوں کو متحیر کر دینے کیلیے ایسی ایسی باتیں اور واقعات ھیں کہ جن کا اندازہ اور شمار ممکن ھی نہیں ۔
مجھے نہیں معلوم کہ زندگی کل کیا میرے ساتھ کھیل کھیلے گی ۔ مگر مجھے یہ یقین ھے کہ زندگی کل جو بھی میرے ساتھ کھیل کھیلے گی وہ میرے لیے دلچسپ اور نیا ھو گا ۔ اور شاید کوئی ایسا کھیل جو مجھے اپنوں سے اور دور کر دے ۔ مگر مجھے میرے قریب کر دے گی ۔
میں اس ذات کا اور زندگی کا شکریہ ادا کرنے کے قابل نہیں ھوں جس نے مجھے زندگی جیسا انمول اور دلچسپ تحفہ دیا ۔ مگر میں اس ذات کو اور اس کی عظمتوں کو دل سے قبول کرتا ھوں اور اسے اپنے تمام معاملات زندگی میں فراموش کرنے کا گناہ نہیں کر سکتا ۔ کہ اس سے بہتر صورت میں اس کی بڑائی کی اور اور اسکی عظمت کے اعتراف کی نہیں پاتا۔
 
آج یونہی لکھنے کیلیے بیٹھا تو ایک خیال آیا کہ اگر الفاظ بارش کی مانند ھوتے اور اوراق کسی زرخیز قطعہ ارا ضی کی طرح ھوتے تو ھم میں سے اکثر کسان بننا پسند کرتے ۔ کہ پھر کسان کاکام صرف اچھی اور بہترین قسم کی کتب اور خیالات کی کاشت ھوتا ۔ اور اس اراضی ( پاکستان) سے منتخب قسم کی کتب اور اقوال اور خیالات برآمد کیے جاتے ۔
ھے تو یہ عجیب سا خیال مگر نہ جانے کیوں مجھے اس خیال نے اپنی گرفت میں لے رکھا ھے ۔ مجھے اوراق پر الفاظ کی بارش ھوتی محسوس ھوتی ھے ۔ اور یہ سب تو ایک لمحے اور پل کا کھیل ھے خیال آیا اور کچھ دیر بعد وہ خیال کسی اور خیال کی زد میں آکر ذھن کے ایک حصے میں جا گزیں ھوتا ھے ۔ مگر جو خیال جو ھم اپنے مطابق اپنے ذھن سے جھٹک دیتے ھیں تو کیا حقیقتاً وہ فنا ھو جاتا ھے ۔
بس اسی طرح کی عجیب وغریب سوچیں ھیں میرے دماغ میں آج کل ۔
میں اپنی رو میں نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا تو بات ھے کہ اگر الفاظ بارش ھوتے اور اوراق کھیت تو آواز کو ھم کس درجے پر فائز کرتے ۔ اور اپنی حس سماعت کو کس زمرے میں رکھتے ۔
کبھی کبھی خیال آتا ھے کہ الفاظ خوش رنگ تتلیاں ھیں جو خیالوں کے گلابوں پر آ کر بیٹھتی ھیں ۔ اور سننے والے یا پڑھنے والے کو اپنی خوش رنگی اور حسن سے مسحور کردیتی ھیں ۔ نہ جانے میں کیا سوچتا ھوں ۔ اور اپنی سوچ کو الفاظ کا جامہ صحیح طرح سے نہیں پہنا سکتا- میں (انسان)ایک ادھورا اور نامکمل شاہکار ھوں شاید جو اپنے خالق کی کاریگری کا ایک اعلٰی نمونہ ھے ۔
الفاظ باہم ملکر ایک ایسا خوبصورت اور امید افزا پیغام بن جاتے ھیں جو کسی مایوس انسان کو زندگی کا حوصلہ دیتے ھیں ۔ الفاظ معتبر ھیں ۔ الفاظ مقتدر ھیں ۔ الفاظ یقیناً ایک معجزہ ھیں جو خالق نے اپنی مخلوق کو بخشا ۔ الفاظ ایک طاقت ھیں جو ایک کمزور کو ایک طاقتور کے مقابل کھڑا کر دیتے ھیں ۔ الفاظ آگ ھیں جو بعض اوقات ایک پر سکون اور خوشحال ماحول کو جلا کر خاکستر کر دیتے ھیں ۔ الفاظ ایک ندی ھیں جو یکساں رفتار سے دھیمی لے میں بہتی ھے ۔ اور جب اس ندی میں طغیانی آتی ھے تو یہ ایک خوفناک سیلاب بن جاتا ھے ۔ الفاظ جو کچھ بھی ھیں مگر یہ ایک ایسی نعمت ھیں جو ھمیں ھمارے روزمرہ میں اتنی مدد دیتے ھیں کہ شاید ھم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
الفاظ کی حرمت اور انکی قدر کرنا ھر انسان کا فرض ھے ۔ الفاظ مکرم ھیں الفاظ حیات ھیں ۔ الفاظ علامت حیات ھیں ۔ الفاظ تاج ھیں الفاظ جاندار ھیں ۔ الفاظ سرخرو ھیں ۔ الفاظ با آبرو ھیں ۔
الفاظ کی بارش شاید کبھی کبھی انسان کے ذھنوں کو بھی جلا بخشتی ھے ۔ انسان جس کا دماغ اس بارش کے بغیر بالکل بنجر ھوتا ھے ۔
دعا کریں کہ الفاظ کی بارش اللہ تعالٰی ھر انسان جو کہ انسانیت کا احترام کرتا ھے کے ذھن و دماغ پر کرتا رھے اور اس کی روح کو سر سبز و شاداب ،اور شاداں و فرحاں رکھے ۔۔
 
آج یوںہی دل میں خیال آیا کہ یہ حسن پرستی کیا شے ھے کیا بلا ھے ۔ پھر ذرا غور کیا تو یہ معاملہ کچھ عجیب اور کچھ دلچسپ نظر آیا ۔ وہ یون کہ ھر شخص اپنی ذہنی اپچ اور ماحول کے مطابق حسن پرست ھے ۔ اور کیا حسن پرستی صرف جنس مخالف تک ھی محدود کرنے والے شاید بہت ناانصافی کرتے ھیں ۔ حسن پرستی تو ایک بہت اعلٰی و ارفع جذبہ اور احساس ھے ۔ آئیہ قدسی کا ترجمہ ھے کہ
"اللہ تعالٰی خوبصورت ھیں اور خوبصورتی کو پسند کرتے ھیں" ۔
ھر شخص حسن پرست ھے ۔ کسی کو اپنی اس حس کی تسکین مناظر میں ملتی ھے ، کسی کو کتب میں ، کسی کو علم میں ، کسی کو چاند مین ، کسی کو رات میں کسی کو دن میں، کسی کو شام کے وقت میں ، کسی کو اچھے لباس میں ، کسی کو خوشبو میں ، کسی کو صفائی میں ، کسی کو ماحول میں ،کسی کو عمارات میں غرض کہ میرے نزدیک ھر شخص حسن پرست ھے ۔ اور یہ کوئی عیب نہیں ۔
بلکہ یہ تو ایک ایسی خوبی ھے ۔ جس کا ایک تھوڑا سا حصہ بطور عطیہ اس ذات باری تعالٰی نے ھم کو اس کائنات سے لطف اندوز ھونے کیلیے عطا کر دیا ھے ۔ یہ لو اور اب اس کائنات کے بکھرے اور رنگارنگ مناظر کی تعریف کرو اور دیکھو تمہارا خالق تم پر کتنا مہربان ھے ۔
سو حسن پرستی کا یہ زاویہ ایک ایسا زاویہ محسوس ھوا جیسے بالکل ایک نئی اور دلچسپ چیز ھاتھ آگئی ھو ۔ اب مجھے اپنے اردگرد یقین کریں اتنے خوبصورت اور رنگا رنگ مناظر نظر آتے ھیں کہ مجھے اللہ تعالٰی کی قدرت پر اور بھی یقین آتا ھے اور اس کی عطا کردہ حسیات سے مناطر کا صحیح طور سے مشاہدہ بہت ھی کیف آگیں معلوم ھوتا ھے ۔
حسن پرستی ایک عجیب اور دلچسپ صفت ھے ۔ کہ ھر شخص اپنے ماحول سے لطف اندوز ھوتا ھے ۔ مثلاً ایک صحرا نشین صحرا میں بھی ایک خوبصورتی کا پہلو ڈھونڈ لیتا ھے ۔ اسے صحرا اتنا اپنی طرف کھینچتا ھے کہ کوئی دوسرا شخص تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ ایک پہاڑوں میں رہنا والا پہاڑوں میں خوبصورتی تلاش کر لیتا ھے ۔ ایک گاؤں میں رہنے والا کھیتوں میں اللہ کی قدرت کی جھلکیاں دیکھتا ھے ۔ ایک شہر میں رھنے والا شہر کی رنگینیوں میں اس ذات کو جلوہ فرما دیکھتا ھے ۔ ایک برفانی علاقے میں رہنے والا برفانی مناظر میں اس خوبصورتی پا لیتا ھے ۔
غرض میرا خیال ھے کہ اس صفت یا خاصیت کا مطالعہ کیا جائے تو ھر شخص حسن پرست ھی ثابت ھو گا ۔
لیکن اگر اس حس کا یا اس جذبہ کا غلط استعمال کیا جائے تو شاید یہ معاشرے میں ایک بگاڑ کا سبب بھی بن سکتا ھے ۔ لیکن حسن پرستی کسی بھی شخصیت کا ایک مثبت اور اضافی پہلو ھے ۔ سو حسن پرستی کو صرف جنسِ مخالف کی کشش تک محدود کرنے والے نہ صرف اپنے آپ سے زیادتی کرتے ھیں بلکہ اللہ کی اس عطا کردہ نعمت سے کما حقہ’ بھی فیضیاب نہیں ھوتے ۔ کہ اللہ تعالٰی کے جلوے تو اس کائنات میں ھر سو بکھرے پڑے ھیں ۔۔
 
آج کہنے کو میرے پاس کچھ بھی نہیں شاید کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی شکوہ نہ کوئی گلہ اپنی پیاس کا بلکہ مجھے میری اوقات سے بڑھ کر سیرابی بخش دی گئی۔ میری تن بدن کی رگوں میں ایک عجیب سی کیف انگیز اور سرور آفریں مستی میرے لہو کیساتھ گردش میں ھے ۔ کیوں نا ھو کیونکہ جس نے مجھے پیاس بخشی تھی مجھے صرف وھی میری پیاس کا خالق ، اللہ تعالٰی ھی سیراب کر سکتا تھا میری روح کو سو اس نے اپنے اس گنہ گار بندے کی آہ و بکا کو سنا اور اسے اپنے در پر بلا لیا اور حاضری کا شرف بخشا ۔ میں جو بھٹکا ھوا تھا اور چیختا پھرتا تھا کہ مجھے سکون اور چین کی تلاش تھی مجھے اپنی روح اور اور اپنے بدن سے شکایت تھی کہ میں کیوں ھوں ۔ اگر ھوں تو ایسا کیوں ھوں ۔ میں آگے کیوں نہیں نکل سکا میں سب سے پیچھے ھی کیوں ھوں تو اس مالک کو مجھ پر ترس آگیا اور اس نے مجھے اپنے دربار میں حاضر ھونے کا اجازت نامہ عطا فرمایا ۔
اور کیا اجازت نامہ تھا ۔ کہ صرف دیکھ کر ھی میری پیدائشی اور بھٹکی ھوئی روح کو یکگونہ سکون محسوس ھو گیا اور مجھے اس گھڑی کا جب مجھے اس کے دربار میں حاضری کاشرف حاصل ھو گا انتظار کرنے لگا اور پیمان باندھنے لگا کہ اب کسی صورت بھی میں اپنی پیاس کی شدت کو اپنے مالک کے سامنے بیان کروں گا۔ سو مجھے اس ذاتِ باری تعالٰی نے یہ موقع عنایت کیا اور میں نے اپنے سارے دکھ اپنی ساری کمیاں اور کوتاہیاں اس کے دربار میں کھل کر بیان کیں اور اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی ۔
اس کی رحمت جو بے پناہ ھے اس سے میں نے چند بوندوں کا تقاضا کیا ۔ مگر اسکو شاید اپنے اس بندے پر ترس آگیا تھا سو اس نے بجائے چند بوندوں کے مجھے سیرابی کا ایک سمندر بخش دیا ۔
مجھے اس نے ایک موقع ایسا موقع جو وہ اپنے گنہگاروں کو بخشنے کیلیے عطا کرتا ھے مجھے بھی وہ موقع عطا کیا اور مجھے اپنے گھر میں حاضری کا شرف عطا فرمایا ۔
سو میں تو سیراب ھو گیا اور اپنی اوقات سے بڑھ کر سیراب ھو گیا ۔ اور اس کے بعد میرا میری پیاس کا شکوہ نہ صرف دور ھو گیا بلکہ مجھے تو وہ ایک عجیب سا اور ایک ناگوار سا شکوہ محسوس ھونے لگا سو میں اپنے اس نام کو جو کہ پیاسا صحرا ھے اب بدلنے کا تقاضا کرتا ھوں ۔ کیونکہ میں تو اب صحرا سے انسان بن گیا ھوں سو مجھے اب ایک نئے نام کی ضرورت ھے ۔ جو اس سیرابی کا مظہر ھو ۔
لہذٰا میرا خیال ھے کہ اب مجھے میرا نام جو پکارتے ھیں دوبارہ ملنا چاہئیے ۔
کیونکہ اب میں اس کا ایک شکر گزار اور فرمانبردار بندہ بننا چاھتا ھوں ۔
 
Top