چند اصلاح طلب اشعار(شکیل احمد خان)

کہیں سے یہ کانوں میں آواز آئی
کہ قربت سے بہتر ہے لمبی جدائی
دلیل اس نے یہ دی کہ دیکھ آسماں، جو
زمیں سے پرے ہے تو ہے یہ خدائی
وگرنہ وہ سرمہ تھا کس کام کا جب
زمیں آسماں مل کے کرتے پسائی
یہ ہے فلسفہ فصل اور وصل کا اب
کہ شاید اسی میں ہے سب کی بھلائی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ مسلسل ہے کیا؟

کہیں سے یہ کانوں میں آواز آئی
کہ قربت سے بہتر ہے لمبی جدائی
.. درست، پہلے مصرع سے جو بھی مراد ہو

دلیل اس نے یہ دی کہ دیکھ آسماں، جو
زمیں سے پرے ہے تو ہے یہ خدائی
.. ابلاغ نہیں ہو رہا

وگرنہ وہ سرمہ تھا کس کام کا جب
زمیں آسماں مل کے کرتے پسائی
پِ سائی؟ یعنی زمین آسمان پیس کر سرمہ بنا دیتے؟

یہ ہے فلسفہ فصل اور وصل کا اب
کہ شاید اسی میں ہے سب کی بھلائی
اس کا بھی ابلاغ نہیں ہوا
 
یہ مسلسل ہے کیا؟

کہیں سے یہ کانوں میں آواز آئی
کہ قربت سے بہتر ہے لمبی جدائی
.. درست، پہلے مصرع سے جو بھی مراد ہو
استادِ گرامی !
میں اِنہی چند اشعار پر کام کررہا ہوں ۔انہیں ایک نظم یا مسلسل غزل کی صورت میں مکمل کرکے جلد آپ کی خدمت میں دوبارہ پیش کروں گا،انشاء اللہ۔آپ کی رہنمائی کا بے حد شکریہ ، خداآپ کا سایۂ شفقت تادیر قائم رکھے ، آمین۔
 

الف عین

لائبریرین
جلد بازی سے کام نہ لو، پہلے پوری کہہ لیا کرو، پھر دو چار دن اس پر خود غور کرو، جو خامیاں خود محسوس ہوں، انہیں دور کرو۔ الفاظ بدل بدل کر دیکھو کہ کون سی صورت واقعی رواں رہتی ہے۔ اگر کوئی بڑی زبان یا عروض کی غلطی نہ یو تو شاید ہی اصلاح کی ضرورت پڑے
 
آخری تدوین:
جلد بازی سے کام نہ لو، پہلے پوری کہہ لیا کرو، پھر دو چار دن اس پر خود غور کرو، جو خامیاں خود محسوس ہوں، انہیں دور کرو۔ الفاظ بدل بدل کر دیکھو کہ جون سی صورت واقعی رواں رہتی ہے۔ اگر کوئی بڑی زبان یا عروض کی غلطی نہ یو تو شاید ہی اصلاح کی ضرورت پڑے
جی ان شاءاللہ آپ کی ہدایات پر عمل کروں گا۔
 
آخری تدوین:
استاد ِ محترم !
یہ کاوش ایک بار پھر خدمت میں پیش کررہا ہوں:
social distance
کہیں سے یہ آواز کانوں میں آئی
ہے انساں ہی دنیا کی اِک خوش نمائی

وگرنہ یہ دنیا وہ ہے جس کی قیمت
بہت سے بہت تھی فقط ایک پائی

اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اور بھی آدمی نے گرائی

یہ لندن یہ پیرس یہ اٹلی یہ سسلی
وہ دلّی وہ دبئی ،کراچی ،ہوائی

یہ شہروں کے ہیں نام یا کوئی تہمت
جو ویرانیوں پر ہے ہم نے لگائی

نہ ہو آدمی اور کہیں اس کو محفل
کہو کیا نہیں ہے یہ ہرزہ سرائی

مگر آج کل کچھ یہی ہو رہا ہے
ہے کورونا نے جب سے ہلچل مچائی

کہاں آدمی اور کہاں ہیچ شے یہ
مگر پھر بھی دیکھو ہے کیا منہ کو آئی

کہا جا رہا ہے رکھو فاصلہ تم
کہ اِس وقت بہتر ہے باہم جدائی

چلو مانا تم نے کہا ہے جو ہم سے
کہ پیشِ نظر ہے سبھی کی بھلائی

مگر تم بھی مانو کہ دنیا سراسر
ہے مچھر کے پر سے بھی کمتر اے بھائی

یہ انسان ہے جس کا رتبہ ہے اعلیٰ
رہے پاس اس کا ہی اب انتہائی
 
آخری تدوین:
جناب شکیل صاحب، آداب!
نظم کی روانی اچھی لگی۔ کچھ تاثرات ذہن میں ابھرے، سوچا گوش گزار کرتا چلوں۔
کہیں سے یہ آواز کانوں میں آئی
ہے انساں ہی دنیا کی اِک خوش نمائی
دوسرے مصرعے میں "اک"، بس، محض یا فقط کے بغیر بھرتی کا لگ رہا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے۔
کہ انساں ہی دنیا کی ہے خوشنمائی
یا
ہے انساں ہی دنیا کی بس خوشنمائی

اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اور بھی آدمی نے گرائی
یہ شعر مفہوم کے اعتبار سے کچھ عجیب محسوس ہوتا ہے۔ آپ کے مافی الضمیر کا مکمل ابلاغ نہیں ہو پارہا۔ دنیا کے قابل رہائش ہونے سے اس کی قدر میں کمی کیونکر ہورہی ہے؟

یہ لندن یہ پیرس یہ اٹلی یہ سسلی
وہ دلّی وہ دبئی ،کراچی ،ہوائی
میرے خیال میں یہاں دبئی کا تلفظ محل نظر ہے۔ معروف تلفظ تو دُ+ بئی ہے۔ عربی میں تو وہ لوگ املا بھی دبي کرتے ہیں۔ یہاں وزن پورا کرنے کے لئے "دوبئی" باندھا گیا ہے۔ ممکن ہے اس کا جواز موجود ہو، تاہم اگر اس سے بچا جاسکتا ہو تو کوشش میں کیا مضائقہ ہے؟

یہ شہروں کے ہیں نام یا کوئی تہمت
جو ویرانیوں پر ہے ہم نے لگائی
یہاں دوسرے مصرعے میں اصلا تو "ویرانوں" کا محل ہے۔ ویرانی تو ایک کیفیت ہوتی ہے، اسم مکان ویرانہ ہے۔ یہاں بھی بحر کی بندش کی وجہ سے ویرانہ لانا ذرا مشکل ہے، تاہم آپ کی۔ دسترس سے باہر نہیں :)

مگر آج کل کچھ یہی ہو رہا ہے
ہے کورونا نے جب سے ہلچل مچائی
کورونا کی الف ساقط ہورہی ہے، جس کی وجہ سے نا اور نے کا تنافر زبان پر واضح طور پر محسوس ہورہا اور روانی متاثر ہورہی ہے۔ کورونا کے بجائے "کرونا" واوین کے ساتھ (اختصاص کے لئے) لے آئیں۔ تو تنافر اتنا زیادہ محسوس نہیں ہوگا۔
"کرونا" نے جب سے یہ ہلچل مچائی

کہاں آدمی اور کہاں ہیچ شے یہ
مگر پھر بھی دیکھو ہے کیا منہ کو آئ
"کیا منہ کو آئی" کے بجائے "کیسے منہ کو آئی" زیادہ مناسب رہے گا۔
کہاں آدمی اور کہاں ہیچ سی شے
مگر دیکھو کیسے ہے منہ کو یہ آئی

کہا جا رہا ہے رکھو فاصلہ تم
کہ اِس وقت بہتر ہے باہم جدائی
کہا جارہا ہے، رکھیں فاصلہ سب
کہ اس وقت ۔۔۔ الخ

چلو مانا تم نے کہا ہے جو ہم سے
کہ پیشِ نظر ہے سبھی کی بھلائی
چلو، مان لیتے ہیں ہم امرِ حاکم
ہے پیش نظر اس کے سب کی بھلائی

مگر تم بھی مانو کہ دنیا سراسر
ہے مچھر کے پر سے بھی کمتر اے بھائی
رکھو یاد لیکن، کہ دنیا سراسر
ہے مچھر کے ۔۔۔ الخ

دعاگو،
راحل۔
 
جناب شکیل صاحب، آداب!
نظم کی روانی اچھی لگی۔ کچھ تاثرات ذہن میں ابھرے، سوچا گوش گزار کرتا چلوں۔
محترم آپ کی توجہ کا بیحد شکریہ۔آپ نے جو نِکات اُٹھائے اور اصلاحات فرمائیں،لاجواب ہیں ۔میں واقعی اس شعر میں اپنا مافی الضمیر ڈھنگ سے نظم نہ کرپایا:
اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اور بھی آدمی نے گرائی​
میں یہاں کہنا چاہتا تھا کہ دنیا کے بارے میں اہلِ حق کی رائے ہے کہ یہ رہنے کے لائق نہیں ۔ انسان نے اسے رہنے کے قابل بنا کر جنت کے مقابلے میں اِس کی قدر اور بھی گرا کر رکھدی ہے۔
 
آخری تدوین:
محترم آپ کی توجہ کا بیحد شکریہ۔آپ نے جو نِکات اُٹھائے اور اصلاحات فرمائیں،لاجواب ہیں ۔میں واقعی اس شعر میں اپنا مافی الضمیر ڈھنگ سے نظم نہ کرپایا:
اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اور بھی آدمی نے گرائی​
میں یہاں کہنا چاہتا تھا کہ دنیا کے بارے میں اہلِ حق کی رائے ہے کہ یہ رہنے کے لائق نہیں ۔ انسان نے اسے رہنے کے قابل بنا کر جنت کے مقابلے میں اِس کی قدر اور بھی گرا کر رکھدی ہے۔
میں اساتذۂ کرام کے ساتھ احباب سے بھی ملتمس ہوں اِس نظم کے سلسلے میں مجھے اپنے بیش قدر مشوروں اور آراءسے سرفرازفرمائیں۔
Social distance
کہیں سے یہ آواز کانوں میں آئی
ہے آدم سے ہی اس جہاں کی بڑائی

وگرنہ یہ دنیا تھی وہ جس کی قیمت
نہ رپیا نہ پیسا نہ دھیلا نہ پائی

پھر انساں نے جنت تھی جس کا ٹھکانہ
ٹھکانے لگا دی یہیں سب کمائی

اور اب اِس کو رہنے کے قابل بنا کر
ہے قدر اہلِ حق کی نظر میں گرائی

سمایا ہے ہر سر میں دنیا کا سودا
یہ ہے فخرِ آدم تو شاباش بھائی

وہ لندن وہ پیرس وہ اٹلی وہ سسلی
یہ دلّی ، منامہ ، کراچی ، ہوائی

ہیں شہروں کے یہ نام یا کوئی تہمت
کہ ویرانوں پر ہے جو ہم نے لگائی

نہ ہو آدمی اور کہیں اس کو محفل
کہو کیا نہیں ہے یہ ہرزہ سرائی

مگر آج کل کچھ یہی ہو رہا ہے
مصیبت’’ کرونا‘‘ کی جب سے ہے چھائی

کہاں آدمی اور کہاں ہیچ سی شے
مگر دیکھو کیسے ہے منہ کو یہ آئی

کہا جا رہا ہے رکھیں فاصلہ سب
کہ اِس وقت بہتر ہے باہم جدائی

چلو مان لیتے ہیں ہم حاکموں کی
کہ دنیا کی وہ چاہتے ہیں بھلائی

ہے گر خیرخواہی، بھلائی کا مطلب
’’نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی‘‘

تو پھر ہم شکیل آپ سے دُور اچھے
کہیں سے وہ آواز دی پھر سنائی
 
آخری تدوین:
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
وہ انساں جنت مین.... تو بحر میں ہی نہیں
وہ انساں، تھا جنت میں جس کا ٹھکانہ
جب سارے شہروں کے نام ہیں تو ایک ملک اٹلی کیوں؟ اسے بھی بدل کر کسی شہر کا ہم وزن نام لے آؤ، جیسے سڈنی
 
وہ لندن وہ پیرس وہ اٹلی وہ سسلی
یہ دلّی ، منامہ ، کراچی ، ہوائی
وہ لندن وہ پیرس وہ سڈنی وہ سسلی
یہ دلی ،،،منامہ،، ،کراچی، ، ،ہوائی
(۲)​
وہ انساں ، تھا جنت میں جس کا ٹھکانہ
ٹھکانے ،لگادی، یہاں، سب، کمائی

بہت شکریہ استادِ محترم​
 
آخری تدوین:
Top