سعود عثمانی چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے ۔ سعود عثمانی

چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے
کیسا پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے

نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے
جسم میں کھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے

مہلت ِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت
اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے

کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ
ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے

لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک
دور سے دیکھو تو یہ شہر بھنور لگتا ہے

وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ
دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے .

اب جو چاہیں بھی تو اس طرح نہیں مل سکتے
پیڑ اکھڑے تو کہاں بار ِ دگر لگتا ہے

ذہن کی جھیل سے یادوں کی دھنک پھوٹتی ہے
ایک میلہ ہے جو ہر شام اِدھر لگتا ہے

کوئی شوریدہ نفس جسم کے اندر یے سعود
دل دھڑکتا ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے

(سعود عثمانی )
 
Top