سید شہزاد ناصر
محفلین


چاویکے کا آخری قصہ گو: اللہ دتہ لچھ
قصے عموماً بیٹھ کر سنائے جاتے ہیں جو نثری اور منظوم حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں ہر گاؤں کے اپنے قصہ گو اور ان کا اپنا منفرد انداز ہوتا تھا جس سے وہ پہچانے جاتے تھے۔ پنجاب میں یہ لوگ عموماً میر عالم یا میر زادے اور عرفِ عام میں میراثی کہلاتے تھے۔ بدقسمتی سے وقت نے ان کی قدر نہ کیا ورنہ دراصل میراثی کا کام میراث یعنی تاریخ سنبھالنے کا تھا۔ پاکستان میں بسنے والی تہذیبوں کا اپنی تاریخ سے رشتہ میراثیوں کے ذریعے ہی استوار تھا۔ میراثی کے وجود سے انکار اپنی قدیم تاریخ اور شناخت سے انکار ہے جو پاکستانی معاشرے کی نئی پہچان بنتی جا رہی ہے۔


پروگرام سنئے

کلک کریں


سنئے: اللہ دتہ لچھ کی علی دی وار

کلک کریں


سنئے: اللہ دتہ لچھ کی مظفر خان دی وار

کلک کریں


سنئے: اللہ دتہ لچھ کا قصہ ہندی

کلک کریں


سنئے: اللہ دتہ لچھ کا قصہ فرید

کلک کریں
پرانے زرعی معاشرے میں جہاں تاریخ لکھنا صرف بادشاہوں کے مصاحبین کا کام تھا، ایک عام آدمی تک تاریخ میراثی ہی سینہ بہ سینہ پہنچایا کرتے تھے۔ اتنی ساری تاریخ کو یاد رکھنا ایک ایسا فن تھا جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور موسیقی کے ذریعے اسے یاد رکھنے میں آسانی رہتی تھی۔
میراثی انتہائی باریک بین اور کاریگر لوگ تھے اور ان کی یاداشت حیرت انگیز تھی۔ رقص، سنگیت اور ناٹک کے فن میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ایک تو اپنے کام میں سخت محنت اور ریاضت ان کا وطیرہ تھا اور دوسرا نسل در نسل ایک ہی کام کرتے رہنے سے یہ فن ان کے جینز کا حصہ بنتے چلے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے معاشرے میں لوگوں کو ان کی صلاحیتیں طلسماتی لگتی تھیں جس نے میراثیوں کے بارے میں مقبول عام فسانوں میں اضافہ کیا۔
ان ہی میں سے جو لوگ اپنے مقامی علاقوں سے اٹھ کے کسی نواب یا بادشاہ کے مصاحب بنے، وہ کسی ایک فن میں میں ماہر ہوتے چلے گئے اور کلاسیکی فنون کے خالق بنے اور نام کمایا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں اب بھی یہ قصہ گو کہیں کہیں موجود ہیں لیکن ان کی حالت دگرگوں ہے۔ نہ تو اب ان کے سننے والے رہے ہیں اور نہ ہی ان کی اگلی نسلیں اپنا صدیوں پرانا پیشہ اپنانے کو تیار ہیں۔ ایسی صورت میں کہیں پر کوئی کاری گر قصہ گو مل جانا ایک غنیمت ہے۔
پنجاب کے ضلع بہاولنگر کے ایک گاؤں جوئیہ چاویکا میں ایسے ہی ایک نایاب قصہ گو اللہ دتہ لچھ ہیں۔
جوئیہ چاویکا راجستھان کی سرحد کے قریب واقع ہے اور انوکھا گاؤں ہے جہاں اب بھی پرانے سنگیت اور ناٹک کی روایت کے رس میں جوان ہونے والے کچھ لوگ موجود ہیں۔ چاویکے کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تقسیم کے وقت یہاں سے صرف دس پندرہ کلومیٹر دور سرحد پار سے ہجرت کرکے آنے والوں پر مشتمل ہے۔
چاویکے میں زیادہ تر لوگوں کا پیشہ زمینداری ہے۔ یہ ایک وقت تک پنجاب میں کچے کا علاقہ شمار ہوتا تھا اور یہاں بڑی آبادکاری پاکستان بننے کے بعد ہوئی۔ اردگرد کے بہت سے گاؤں نسبتاً ان آباد کاروں پر مشتمل ہیں جن کا اس علاقے سے تعلق بہت زیادہ پرانا نہیں۔
شہری اثرات نے یہاں بھی طبقات کے بنیادی فرق کو نہیں توڑا پھوڑا اور زمیندار اور کام کرنے والے ایک ہی دنیا کے دو مختلف حقوق رکھنے والے باشندے ہیں۔
اللہ دتہ لچھ یہاں کے قدیم باشندوں میں سے ہیں جن کا کام صدیوں سے قصہ گوئی رہا ہے۔ ستر برس سے زیادہ عمر کے باوجود اللہ دتہ لچھ کے بیان کی چمک دمک اور اپنے آباؤ اجداد کے ورثے پر فخر اسی طرح برقرار ہے۔ وہ مجھے پنجاب میں واحد لوک فنکار ملے جنہوں نے فخر سے کہا کہ ان کی گوت میر عالم ہے۔
وہ اس عمر میں بھی جب قصہ شروع کرتے ہیں تو ان کی آواز دور تک سنی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دور تک آواز پہنچانا اور کہانی سے لوگوں کو باندھ کے رکھنا قصہ گوئی کے اہم ترین عناصر ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک خاندانی قصہ گو نہ صرف پرانے قصے اور علاقے کے لوگوں کے شجرے یاد رکھتا ہے بلکہ اسے خود بھی شاعری اور قصے گھڑنے کے فن پر ملکہ ہونا چاہیے جو مسلسل حصولِ علم کی لگن کے بغیر ناممکن ہے۔
اس قصہ گو کی یاداشت حیرت انگیز ہے۔ میں نے چار گھنٹے مسلسل قصے سننے کے بعد جب ان سے پوچھا کہ انہیں کتنے قصے یاد ہیں تو ان کا جواب تھا ’اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اس لیے میری یاداشت ویسی نہیں رہی لیکن اب بھی اگر آپ ایک سال تک بیٹھے رہیں تو میں آپ کو نئے قصے سناؤں گا‘۔
اسی لیے علاقے کے زمیندار جب ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کریں تو بھی انہیں ’علامہ میراثی‘ کہتے ہیں۔
بقول اللہ دتہ لچھ کے قصہ گوئی کا پیشہ ان کے آباء سے شروع ہوا جو بابا فرید شکر گنج کے خدمت گار تھے۔ تاہم اللہ دتہ لچھن نے اعتراف کیا کہ قصہ گوئی کا فن اپنے اختتام پر ہے۔
اللہ دتہ لچھ کے بیٹے شبیر احمد بھی اپنا آبائی پیشہ قصہ گوئی ترک کر کے اب درزی کا کام کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے اندر اپنے آباؤ اجداد کی جھلک دکھائی دے جاتی ہے کہ وہ ایک خوبصورت آواز کے مالک ہیں اور موسیقی کے رموز سے آشنا بھی۔ لیکن اب وہ یہ کام شوقیہ کبھی کبھی کرتے ہیں۔
پاکستان بھر میں ہر طرف روایت سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کا یہی حال ہے اور ان کی اگلی نسلیں بہتر مواقع کے لیے اپنے ان آبائی پیشوں کو چھوڑ رہی ہیں جو ایک بیش قیمت اثاثہ ہیں مگر انہیں کوئی کوڑیوں کے دام بھی خریدنے کو تیار نہیں۔
جوئیہ چاویکا اس لحاظ سے ایک منفرد گاؤں ہے کہ اس کے پاس اب بھی ایک بڑا قصہ گو موجود ہے لیکن پنجاب میں شاید ہی چند اور ایسے گاؤں مل سکیں اور اس گاؤں میں یہ آخری قصہ گو اب اختتامیہ کے حصے پڑھ رہا ہے۔