چار مارچ: طلبہ کے لیے یادگار دن

پاکستان میں سٹوڈنٹس یونین تو بحال نہیں ہوسکیں لیکن چار مارچ کا دن ایوب خان کے اس فوجی جبر کی یاد دلانے پھر آگیا جس نے ملک میں جمہوری تحریک کو ایک نئی قوت بخشی تھی۔

ہوا یہ تھا کہ چار مارچ 1967ء کو پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی کے طلبہ نے برسراقتدار جنرل ایوب خان اور اس ون یونٹ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا تھا جس نے پاکستان کو وجود بخشنے والے صوبوں یا اکائیوں کے وجود کو ہی ختم کردیا تھا۔

فوجی حکومت احتجاجی جلوس کو بہت سنگین جرم تصور کرتی ہے۔

اسی لیے سکیورٹی اہلکاروں نے جلوس کے شرکاء کو جامشورو کے قریب گھیر لیا اور ان پر لاٹھی چارج اور فائرنگ کی اور دو سو سے زائد طلبہ کو گرفتار کرلیا۔

واقعے کے بعد ملک کے دوسرے حصوں میں بھی فوجی حکومت اور ون یونٹ کے خلاف احتجاج میں شدت آئی اور اسکے نتیجے میں دو سال بعد جنرل ایوب خان کو استعفی دیکر جانا پڑا تھا۔
یوسف لغاری جو آج ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہیں اس وقت طلبہ یونین کے ان رہنماؤں میں سے ایک تھے جو اس جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’جب ہم جامشورو کے پاس (کوٹری بیراج کے پُل پر) پہنچے تو پولیس، فوج اور رینجرز کے اہلکاروں نے پل کی ناکہ بندی کردی اور لڑکوں کو بسوں سے اتار کر پکڑنا شروع کردیا، وہ انہیں مارتے رہے اور فائرنگ بھی کی جس سے بہت سارے لڑکے زخمی بھی ہوئے۔ کئی لڑکوں نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔‘

یوسف لغاری نے بتایا کہ اس دور میں کوئی سیاسی جماعت اتنی سرگرم نہیں ہوتی تھی۔ ’سیاسی جماعتوں کا جو بھی کام ہوتا تھا مثلاً لوگوں کو ایشوز پر منظم کرنا یا احتجاج کرنا وغیرہ وہ یا تو ٹریڈ یونین والے کرتے تھے یا پھر اسٹوڈنٹس یونین کرتی تھیں۔‘

قیام پاکستان کے بعد کی بات کریں تو پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کو اس طلبہ سیاست کے عروج کا دور کہا جاسکتا ہے جس کا محور طلبہ اور عام لوگوں کے حقوق ہوتے تھے اور اس کا پہیہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہر سال ہونے والے وہ انتخابات ہوتے تھے جن کے ذریعے طلبہ یونینوں کے عہدیداروں کا چناؤ ہوتا تھا۔

یہ یونین اور ان کے انتخابات میں حصہ لینے والی تنظیمیں نہ صرف طلبہ کے اہم تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی تھیں بلکہ طلبہ کو سیاسی طور پر باشعور بنانے اور منظم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی تھیں۔

پروفیسر توصیف احمد ستر کے عشرے میں طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سرگرم رہنما رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چار مارچ 1967ء کے احتجاج نے صوبہ سندھ میں طلبہ سیاست کو ایک نئی جہت دی تھی ’خاص طور پر ون یونٹ بننے کے بعد جو جبر تھا سندھ میں سندھی زبان پر، ان کے کلچر پر، لوگوں کے حقوق پر اور تعلیم پر اسکے خلاف یہ جو جدوجہد تھی اس نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور حکومت کو یہ سوچنا پڑا کہ ون یونٹ اب نہیں چل سکتا اور بعد میں یحییٰ خان نے ون یونٹ کو ختم کیا۔‘
ان کے بقول چار مارچ کے واقعے کے بعد سندھ کے نوجوانوں میں بھی ایک آگہی کی تحریک چلی اور طلبہ اس بات پر متحرک ہوئے کہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے وہ اپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں اور اپنی دھرتی کا تحفظ کرسکتے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق نے 1984ء میں طلبہ یونینوں پر پابندی لگادی جس کے خلاف طلبہ تنظیموں نے احتجاج کیا لیکن اسے حکومت نے طاقت کے ذریعے کچل دیا۔

پروفیسر توصیف احمد کہتے ہیں کہ فوجی حکومت کے اس اقدام نے اس جمہوری کلچر کو ختم کردیا جو طلبہ سیاست کی بنیاد تھا۔ ’جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایک غیرسیاسی کلچر پیدا ہوا جس کی بنیاد پیسے اور اسلحے کی طاقت پر تھی۔ پھر طلبہ یونینوں کے انتخابات کے عمل سے طلبہ کو جمہوری قدروں اور رویوں کی بنیادی تربیت ملتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے خیالات کو برداشت کرنا سیکھیں۔ جنرل ضیاء نے جب یونین کا ادارہ ہی ختم کردیا تو اس سے طلبہ اور تعلیمی اداروں میں جمہوری رویے ختم ہوگئے۔‘

موجودہ حکومت نے برسرِاقتدار آتے ہی طلبہ یونینوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک اس سلسلے میں کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سٹوڈنٹس یونینوں کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں قانونی تحفظ فراہم کرے اور نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو یونین سازی کا حق دیا جائے۔
چار مارچ: طلبہ کے لیے یادگار دن
بی بی سی اردو ڈاٹ کام
 
Top