چار سوگز کا سفر

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: روزنامہ جنگ، 26 مارچ 2009

آج روزنامہ جنگ میں عطاءالحق قاسمی نے اپنے دوست مسعود علی خان کی کتاب "چار سو گز کا سفر" پر تبصرہ کیا ہے۔

وہ ایک روز میرے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایک اردو کتاب کا مسودہ تھا۔ نام تھا ”چار سوگز کا سفر“ جب اس نے بتایا کہ وہ اس کتاب کا مصنف ہے اوراس کی خواہش ہے کہ میں اس کا فلیپ لکھوں، تو بے ساختہ میری ہنسی نکل گئی، میں نے کہا ”اے میرے انگلش میڈیم دوست، کیوں ہماری پیاری زبان اردو کا بیڑا غرق کرنے پر تل گئے ہو، اس کام کے لئے اور بہت سے دوسرے لوگ جو موجود ہیں“ اس نے جواب دیا ”تم یہ مسودہ گھر لے جاؤ، اگر اسے کسی قابل سمجھو تو چند لفظ لکھ دینا، ورنہ اسے وہیں کوڑے کے ڈبے میں پھینک دینا“ اور جب گھر پہنچ کر میں نے یہ ”چار سو گز کا سفر“ پڑھنا شروع کی تو میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے، نہایت خوبصورت اور شستہ اردو، صرف یہی نہیں بلکہ بیان پر مکمل قدرت اور دلچسپ اتنی کہ میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ یہ ا فسانہ نما تحریریں تھیں بلکہ اگر مقصدیت کا حاوی ہونا کوئی عیب نہیں تو یہ اعلیٰ درجے کے افسانے تھے جن میں جزئیات کا بیان اتنا دلکش تھا کہ پورا منظر سامنے آجاتا تھامقصد ان تحریروں کا بھی وہی، جو مسعود کی زندگی کا مقصد ہے اور وہ ہے لوگوں میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی امنگ جگانا۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ مسعود علی خاں اس میں بھی مکمل طور پر کامیاب رہا ہے۔

مزید پڑھیں۔۔۔
 
Top