چائے 'سگریٹ' کافی 'پان اور گٹکے کے استعمال کو نشہ نہ سمجھنا غلط فہمی ہے:حکیم قاضی ایم اے خالد

hakimkhalid

محفلین
پاکستان میں 80لاکھ سے زائد افراد منشیات کا زہر اپنی رگوں میں گھول رہے ہیں
دولت کی فراوانی 'غربت' دہشت گردی' ناانصافی اورملکی حالات منشیات کے استعمال کا باعث ہیں
aug6k4oxfu.jpg

کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور ینگ مسلمز انٹرنیشنل کے زیر اہتمام مجلس مذاکرہ سے مقررین کا خطاب
bc7jgwvuys.jpg

لاہور 24جون:انسداد منشیات کے عالمی دن کے حوالے سے کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور ینگ مسلمز انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ایک مجلس مذاکرہ بعنوان'' ترک منشیات اور اس کے تقاضے'' کا اہتمام کیا گیا کونسل ہذا کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور یونانی میڈیکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالد نے مجلس مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں بیس کروڑجبکہ پاکستان میں80لاکھ سے زائد افراد منشیات کا زہر اپنی رگوں میں گھول رہے ہیں ۔پاکستان میں ہر سال پچاس ارب روپے مالیت کی منشیات استعمال کی جا رہی ہیں۔نشے کے باعث ہر سال دنیا میں پچاس لاکھ سے زائد افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ملک کی22فیصددیہاتی آبادی اور38فیصد شہری آبادی منشیات کا شکار ہے۔ان نشہ کرنے والوں میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد سرنج کے ذریعے نشے کے عادی ہیںاور 80فیصد افراد مشترکہ سرنج استعمال کرتے ہیں جس سے بعد ازاں مہلک ترین بیماریاں'ہیپاٹائٹس سی' ایڈز 'کئی قسم کے کینسر اور دیگر خطرناک امراض جنم لیتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر 14 سے 18سال کے نوجوان ہیںپاکستان میں کم وبیش2ملین افراد ہیروئن اور 55ہزار افراد افیون کے نشے کے عادی ہیں ۔ایلوپیتھک نشہ آور اور سکون آور ٹرانکولائزر گولیاں استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 20ملین کے قریب ہے اور سکون ونیندآور ان ادویات کی بغیر نسخہ دستیابی سے ان کا استعمال کرنے والوں کا گراف بتدریج بڑھ رہا ہے۔ ان گولیوں کا استعمال چھوٹے اور بڑے مرد اور عورتیں جوان اور بوڑھے سب ہی کرتے ہیں۔ اگرچہ کوئی بھی کوالیفائڈ طبیب جنسی اور دیگر امراض میں نشہ آور دوا دینے سے پرہیز کرتا ہے تاہم ملک میں عطائیوں اورنیم حکیموں کی بھی کمی نہیں جن کی وجہ سے ہر سال 45ہزار افراد صرف نشہ آورجنسی ادویہ کا شکار ہورہے ہیں۔ نئی نسل میں نشہ آور اشیا کے استعمال کا رجحان درحقیقت دولت کی انتہائی فراوانی یا انتہائی غربت' دوستوں کی بری صحبت، جنس مخالف کی بے وفائی، اپنی زندگی کو بے مقصد سمجھنے،اپنے مقاصد میں ناکامی اور اس تناظر میں پیدا ہونے والی بے چینی اور مایوسی والدین کی مادیت پرستی 'انتہائی مصروفیت اور بچوں کے معاملات میں عدم دلچسپی وعدم تعاون معاشرہ کی طرف سے نظر انداز کئے جانے' عدم مساوات' ناانصافی'دہشت گردی اس کی جنگ کے عوارضات'عدم تحفظ' انارکی 'والدین کے گھریلو تنازعات بھی نشہ کے آغاز کے اسباب ہو سکتے ہیںاس کے علاوہ موجودہ ملکی معاشی و سیاسی حالات اور بجلی'پانی 'گیس جیسی بنیادی ضروریات کی حکومت کی طرف سے عدم فراہمی منشیات کے استعمال کا باعث ہے۔اسلام نے 14سو سال قبل تاقیامت انسان کے لئے جو ضابطہ حیات تفویض کیا اس میں ہر طرح کے نشے کو حرام قرار دیا گیا ہے تاکہ انسان روحانی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہے۔منشیات کا آغاز چھوٹے نشوں سے ہوتا ہے۔چائے 'سگریٹ کافی 'پان اور گٹکے کے استعمال کو نشہ نہ سمجھنا غلط فہمی ہے۔انہی سے ہیروئن' افیون 'چرس جیسے بڑے نشوںکی رغبت بڑھتی ہے ۔ ظاہر ہے اس بد عادت کا پرہیز ہی اصل علاج ہے۔شراب' ہیروئن 'چرس' افیون' بھنگ' صمد بونڈ'شیشہ' نشہ آور ٹیکے اور ادویات نیز دیگر جدید نشہ آور اشیا کا استعمال کرنے والوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔منشیات فروش مافیا اور ان کے سرپرست وطنِ عزیز میںہر طرف دندنا رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان منشیات فروشوں کوایسی حکومت عبرت ناک سزا دے سکے گی جس نے نہ صرف شراب کے پرمٹ اور لائسنس ہر خاص و عام کو جاری کرکے بلکہ بیشتر حکمرانوں نے شراب کی فیکٹریاں لگا کرمنشیات فروشی کا دھندہ اپنا رکھا ہے۔پاکستان کی آنے والی نسل کس طرح انسانیت کے ان دشمنوں سے محفوظ رہے گی؟ان کے خلاف ایکشن کون لے گا؟ ان کو پھانسی پر کون لٹکائے گا؟یہ ایک لمحہ فکریہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی منشیات کے تدارک کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسا شخص جو نشہ کرتا ہے اس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں اور اسے کمتر سمجھتے ہیں جبکہ منشیات کے عادی سے نفرت نہیں کرنی چاہئے بلکہ منشیات بیچنے والوں اور اس دلدل کی جانب دھکیلنے والوں سے نفرت کی جانی چاہئے۔مجلس مذاکرہ سے حکیم محمدیوسف آف گوجرانوالہ حکیم حیدر علی 'حکیم محمد ساجد'حکیم محمد نعمان'حکیم محمد سلمان' مولانابلال احمد قریشی 'مولانا اشتیاق احمد اور دیگر نے خطاب کیا ۔
 
Top