پی ٹی ایم کیلئے مہلت اب ختم ہوگئی، ترجمان پاک فوج

جان

محفلین
بھٹو کو سب معلوم تھا۔
بھٹو کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فوج پھانسی تک بھی جا سکتی ہے۔
قابل سینئر جرنیلوں کو جبرا ریٹائر کرکے بہت نیچے سے ضیاء الحق کو اوپر لے کر آئے کہ یہ بندہ اپنا ہے۔
جرنیل اول تو قابل نہیں، دوم وہ کسی کا بھی سگا نہیں۔ نواز شریف کے ساتھ بھی تو یہی ہوا تھا۔ آپ چاہے کپتان یا میجر کو بھی چیف بنا دیں وہ بھی کبھی آپ کے ماتحت نہیں رہ سکتا کیونکہ ان کی ذہن سازی ہی ایسی کی جاتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارے ہاں شیخ مجیب کو غدار کہا جاتا ہے، تاہم، ہماری درخواست ہو گی کہ ذرا یہ ویڈیو دیکھیے؛ اس میں کون سا غلط مطالبہ کیا گیا تھا۔ یقینی طور پر، بھٹو کو بھی سقوط مشرقی پاکستان کا ایک کردار تصور کیا جا سکتا ہے، تاہم، اصل ذمہ داری کس کی تھی، اس ویڈیو سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں
ویڈیو میں آپ سن سکتے ہیں کہ کیسے شیخ مجیب ماضی بھلا کر صدر یحیی خان کی ہر ڈیمانڈ پوری کرتے رہے۔ لیکن آخر میں جب شکست خوردہ بھٹو کی فرمائش پر صدر صاحب نے اسمبلی سیشن موخر کیا تو پھر شیخ مجیب سے برداشت نہیں سکا اور انہوں نے آزادی کا مطالبہ کر دیا۔
اسی لئے ملک توڑنے میں جمہوریے بھٹو کا بھی اتنا ہی ہاتھ تھا جتنا ڈھول سپاہیا جنرل یحیی کا تھا۔ اگر شیخ مجیب اقتدار ملنے کے بعد ملک توڑتے تو تاریخ ان کو قصوروار ٹھہراتی۔ البتہ اقتدار کی جائز اور جمہوری منتقلی میں مزاحمت دکھا کر یحیی اور بھٹو اس سنگین جرم کا براہ راست مرتکب قرار پائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویڈیو میں آپ سن سکتے ہیں کہ کیسے شیخ مجیب ماضی بھلا کر صدر یحیی خان کی ہر ڈیمانڈ پوری کرتے رہے۔ لیکن آخر میں جب شکست خوردہ بھٹو کی فرمائش پر صدر صاحب نے اسمبلی سیشن موخر کیا تو پھر شیخ مجیب سے برداشت نہیں سکا اور انہوں نے آزادی کا مطالبہ کر دیا۔
اسی لئے ملک توڑنے میں جمہوریے بھٹو کا بھی اتنا ہی ہاتھ تھا جتنا ڈھول سپاہیا جنرل یحیی کا تھا۔ اگر شیخ مجیب اقتدار ملنے کے بعد ملک توڑتے تو تاریخ ان کو قصوروار ٹھہراتی۔ البتہ اقتدار کی جائز اور جمہوری منتقلی میں مزاحمت دکھا کر یحیی اور بھٹو اس سنگین جرم کا براہ راست مرتکب قرار پائے۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بنگالی افراد کی محرومیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ یقینی طور پر، اس میں بھٹو صاحب کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ آپ کی ملٹری اسٹیبلشیہ نے اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔ تاہم، آپ ہمیشہ کمزور کو ہدف بناتے ہیں۔ کچھ ہمت دکھائیے، آپ تو ملک سے باہر بیٹھے ہیں ۔۔۔! :)
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب بھٹو یا نواز شریف کی طرح فوج کی نرسری میں پل کر جوان نہیں ہوئے :sneaky:
بے فکر رہیے، نیازی صاحب اس حوالے سے بھی آپ کو مایوس نہ کریں گے ۔۔۔! :) جب وہ ہنستے مسکراتے 2014ء میں دھرنے کے دوران جی ایچ کیو پہنچ گئے تھے؛ اس سے قبل پاشا جی کے ساتھ اپنی گیم بنانے میں مصروف رہے۔ اس سے قبل مشرف صاحب سے سیٹیں مانگتے پائے گئے۔ اور، اس سے بھی قبل، یعنی کہ ریفرنڈم میں مشرف صاحب کی حمایت سےبھی قبل، 1999ء میں ایک اہم ملاقات میں دیگر سیاست دانوں کے ساتھ حاضری لگوانے مشرفیہ دربار میں پہنچ گئے اور اس سے قبل انہیں سیاست میں لانے کے حوالے سے جنرل حمید گل اور حتیٰ کہ جنرل ضیاء الحق کا بھی نام آتا ہے تاہم، اس متعلق کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہ ہیں ۔۔۔! :) شکر کیجیے ۔۔۔! جن پر آپ فوج کی نرسری میں پل کر جوان ہونے کا تذکرہ فرما رہے ہیں، وہ بھی کون سا ہمہ وقت جی ایچ کیو بیٹھے رہا کرتے تھے۔ دراصل، اقتدار میں آنے کا یہی چور دروازہ (اور شاید واحد دروازہ) ہے یہاں، بدقسمتی سے ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بنگالی افراد کی محرومیاں دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ یقینی طور پر، اس میں بھٹو صاحب کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ آپ کی ملٹری اسٹیبلشیہ نے اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا۔
ایک غلط کام کا جواب ایک اور غلط کام نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جو 1950 کی دہائی سے نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتی چلی آئی تھی اس کو درست کرنا جمہوری لیڈران کاکام تھا۔ لیکن انہوں نے بھی قوم کو اکٹھا رکھنے کی بجائے ملک توڑنے کو ہی ترجیح دی۔
شیخ مجیب نے اپنی پوری کوشش کی تھی کہ یہاں تک نوبت نہ آتی۔ صدر پاکستان جنرل یحیی خان کے ساتھ مکمل تعاون کیا تھا۔ البتہ الیکشن جیتنے کے بعد جمہوری بھٹو کے ایما پر صدر پاکستان نے اسمبلی کا سیشن موخر کر دیا۔ اوپر سے بھٹو کے ہتک آمیز بیانات کہ اگر کوئی پی پی پی سے اسمبلی میں جاکر بیٹھا تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اس کے بعد بنگلہ قوم کے پاکستانی رہنے کی کوئی توجیہہ باقی نہیں رہتی تھی۔ رہی سہی کسر آپ کے ڈھول سپاہیا کے مظالم نے پوری کر دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
میجر جنرل آصف غفور اور مہاتما گاندھی
01/05/2019 سہیل وڑائچ


میجر جنرل آصف غفور کی تمام اہم قومی امور پر ہمہ جہتی پریس کانفرنس سن کر مہاتما گاندھی کا میاں افتخار الدین اور ان کی بیگم کے نام اپنے ہاتھ سے اردو میں لکھا ہوا خط یاد آیا۔

یہ خط میاں افتخارالدین کے خاندان کے پاس اب بھی محفوظ ہے۔

مہاتما گاندھی نے یہ خط اس وقت لکھا جب میاں افتخار الدین نے انڈین نیشنل کانگریس پنجاب کی صدارت چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ ظاہر ہے کہ مہاتما گاندھی کو اپنے دیرینہ ساتھی اور پنجاب کانگریس کے صدر کے پارٹی چھوڑ جانے پر افسوس تو بہت ہوا ہو گا۔

لیکن انھوں نے فلسفہ عدم تشدد اور منفی چیز پر بھی مثبت طریقے سے ردعمل کے طور پر میاں افتخار الدین اور بیگم کو مخاطب کر کے لکھا ’تم بھلے لوگ ہو۔ کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ چلے گئے ہو وہاں بھی بھلا ہی کرو گے۔‘

اس خط کی پیروی میں عرض ہے کہ جنرل آصف غفور بھلے آدمی ہیں جو بھی کہیں گے بھلے ہی کے لیے کہیں گے۔

جنرل آصف غفور اس لیے بھی بھلے آدمی ہیں کہ ماضی کے عسکری میڈیا سپنرز جنرل شیر علی پٹودی اور جنرل مجیب الرحمن کی طرح گول مول اور نفسیاتی طور پر پیچیدہ بیان نہیں دیتے، وہ صاف اور سیدھی بات کرتے ہیں۔

ان کا پیغام بھی بڑا واضح ہوتا ہے مگر اصل مسئلہ ان کے دلائل کے منطقی نتیجے پر ہے ان کے اس فقرے سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ 1971 میں اگر میڈیا آزاد ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہیں ہو سکتا تھا۔

مگر اس سے سبق الٹا سیکھا گیا ہے اور بار بار میڈیا پر پابندی لگتی رہی۔ آج کل بھی ہم صرف مثبت باتیں لکھنے پر مامور ہیں۔

تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اس بار میڈیا پر پابندی سے کوئی نیا سانحہ مشرقی پاکستان کرنا مقصود ہے؟ ورنہ تو جنرل آصف غفور جیسے بھلے آدمی کو فوراً تمام پابندیاں ختم کر کے میڈیا کو آزاد کر دینا چاہیے تاکہ بقول ان کے ملک مستحکم اور مضبوط ہو اور خدانخواستہ پھر سے میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کا کوئی اور حصہ الگ نہ ہو۔

بھلے آدمی اور بھلی حکومت کے کارناموں میں سے تازہ ترین دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے نظام سے جوڑنا ہے۔ کئی سالوں کی کاوشوں کے بعد ’اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا فقہ چھیڑو نہیں‘ کے ماٹو کے تحت کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ بھلا کام ہے، اس کی ہر کوئی تعریف کرے گا۔ لیکن اس کام کو بار بار ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے اور بوتل میں بند جن پھر سے باہر آ جاتا ہے۔

توقع کرنی چاہیے کہ اس بار دینی مدارس کو قومی دھارے میں لا کر وہاں پڑھنے والے بچوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ کر لیا جائے گا اور بعض مدارس میں جو نفرت انگیز مواد پڑھایا جاتا ہے یا وہاں سے بچے نفرت کا جو سبق لیتے ہیں وہ یقینی طور پر بند کیا ہو جائے گا۔

بھلے آدمی آصف غفور نے پریس کانفرنس میں ایران اور سعودی عرب کی پاکستان کے اندر فرقہ وارانہ پراکسی وار کا بھی اعتراف کیا ہے اور اس کے نقصانات کا ذکر بھی کیا ہے اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم پراکسی وار سے نکل آئیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی سعودی عرب سے مالی امداد و تعاون کے چکر میں اس کی اس خطے میں پراکسی بنے ہوئے ہیں اور اگر یہی معاملہ جاری رکھا گیا تو پھر فرقہ وارانہ جنگ اور بھڑکے گی۔

مہاتما گاندھی خود بھلے آدمی تھے مگر آج کل بھارت میں جو سرکار موجود ہے اسے شاید گاندھی جی بھی بھلا قرار نہ دیتے کیونکہ مودی جی گاندھی کے فلسفے پر عمل کی بجائے بالکل اس کے الٹ چل رہے ہیں۔

93581572_83331189-aeef-4420-aaf2-73e241fd01fd.jpg

جنرل آصف غفور بھارت کے جھوٹوں پر خوب برسے۔ یہ ان کا میدان ہے اور وہ اس کے مردِ میدان ہیں۔ بات یہیں تک رہتی تو درست تھا مگر ہمارے بھلے آدمی نے تو حکومت کے ہر ہر شعبے کی پالیسی پر بات کی پی ٹی ایم سے لے کر ان کی سیاست اور عمل پر بھرپورروشنی ڈالی۔

ہر شعبے پر ان کا اس طرح اظہار خیال۔ ان کے اختیار سے کہیں زیادہ تھا شاید اسی لیے بلاول بھٹو نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ فوج کے ترجمان کو سیاست اور مختلف محکمہ جات پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے سب سیاسی جماعتوں کے حکومت سے اختلاف ہوتے ہیں ان کا جواب سیاسی حکومت کو ہی دینا چاہیے اگر یہ فریضہ فوج نے سنبھال لیا تو فوج بھی متنازع ہو جائے گی اس لیے ملکی فوج کو متنازع سیاسی امور میں الجھانا غلط رویہ ہے۔

بھلے آدمی کو علم ہونا چاہیے کہ ریاست پاکستان ٹھیک ٹھیک چل رہی تھی کہ اچانک جنرل شیر علی نے دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان اور ایسی ہی دوسری اصلاحات متعارف کر کے ریاست پاکستان ہی میں موجود کئی لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری اور کئی ایک کو نظریہ پاکستان کا منحرف قرار دے دیا۔

یوں بیٹھے بٹھائے بنگالی غدار ٹھہرے، ہر چھوٹی قومیت کے حق کی بات کرنے والے غیر محب وطن قرار پائے۔

کیا سندھی، کیا بلوچ اور کیا پشتون کوئی بھی غداری کے پھٹے سے نہ بچا۔ جنرل آصف غفور خود مشرقی پاکستان کی مثال کو جانتے ہیں انہیں چاہیے کہ ان سیاسی امور سے دور رہیں اسی طرح کے ایک اور فلاسفر جنرل مجیب الرحمن تھے جنہوں نے ضیا ڈاکٹرائن میں ’اسلامی جمہوریت‘ ، ’صدارتی نظام‘ جیسے مثبت اور پر کشش الفاظ تخلیق کیے اور سیاسی مخالفین کو تخریب کار اور بھارت کے دوست قرار دیا یوں اس وقت ملک کی سب سے مقبول پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی حب الوطنی ہی کو مشکوک بنا ڈالا۔

جنرل آصف غفور سیاسی جماعتوں اور گروپوں کی غداری کے فتوے دینے سے گریز کریں کیونکہ ماضی میں عسکری ترجمانوں سے یہی غلطی ہوتی رہی۔

اگر انھیں ماضی کی غلطیوں کا ادراک ہے تو انہیں دوبارہ سے یہ غلطی ہر گز نہیں کرنی چاہیے۔ آخرمیں بقول گاندھی اس بھلے آدمی سے گزارش ہے کہ آزاد میڈیا کی تعریف کے بعد انہیں چاہیے کہ وہ ملک میں میڈیا کو آزاد کروا دیں۔ ہمیں علم ہے کہ اس بھلے آدمی سے کہیں بہت نیچے کے لوگ ہیں جو میڈیا پر پابندی لگواتے ہیں۔

ہمیں یہ خوش گمانی بھی ہے کہ یہ ساری پابندیاں اسے بھلے آدمی سے بالا ہی بالا یا نیچے ہی نیچے سے لگ جاتی ہیں۔ اگر انہیں اس کا علم ہو تو وہ ایسا کبھی نہ ہونے دیں ۔اس بھلے آدمی نے پاکستانی میڈیا کو کچھ عرصے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کی ذمہ داری عطا کر رکھی ہے اور ہم سب منشی آج کل سب میٹھا میٹھا لکھ رہے ہیں۔

پوچھنا یہ تھا کہ ہم نے یہ ذمہ داری کب تک نبھانی ہے؟ کیاوہ چھ ماہ گزر چکے ہیں یا دوبارہ سے آگئے ہیں۔ ہم منشیوں پر جب سے یہ بھاری ذمہ داری پڑی ہے ہمارے کندھے بوجھل ہو گئے ہیں، مثبت لکھنے کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ سر بھی بھاری ہو رہا اور پاؤں بھی۔ براہ کرم منشیوں کا یہ بوجھ ہلکا کر دیں یہ بچارے اس بھاری ذمہ داری کے اہل ہر گز نہیں۔ باقی آپ بھلے آدمی ہیں جو بھی کریں گے بھلا ہی کریں گے۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج اور پی ٹی ایم
01/05/2019 سلیم صافی



افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے پی ٹی ایم کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا آلہ کار قرار دینے اور اُن سے متعلق ریاست کے پیمانہ صبر کے لبریز ہونے کے اعلان کے بعد اِس موضوع پر بحث زور پکڑ گئی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ مجھ جیسے صحافیوں کے لئے ٹی ٹی پی سے زیادہ مشکل موضوع بن گیا ہے۔ بہت کچھ جانتا ہوں، بہت کچھ سوچتا ہوں، بہت کچھ لکھ اور بول سکتا ہوں لیکن بوجوہ بول سکتا ہوں، نہ لکھ سکتا ہوں۔ اِس لئے کچھ نیا لکھنے کے بعد دوبارہ وہی کالم سپرد قلم کرتا ہوں جو 30 جنوری 2019کو اِسی صفحہ پر شائع ہوا تھا۔

’’دروازے پر دستک دیتی نئی تباہی‘‘ کے زیرِ عنوان تمہیدی گزارشات کے بعد میں نے عرض کیا تھا کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی سیکورٹی فورسز، قوم اور بالخصوص پختون تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزرے۔ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر طبقے کی آزمائش اتنی سنگین تھی کہ اُسے دوسرے کی آزمائش اور قربانی کا صحیح ادراک اور احساس ہی نہ ہو سکا۔ مثلاً سیکورٹی اداروں کے لئے یہ شاید تاریخ کی طویل اور مشکل ترین جنگ تھی۔ موجودہ فوجی قیادت میں سے شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو کہ جس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ وزیرستان اور بلوچستان کے بعض محاذوں پر ایک ہی افسر یا جوان کی دو دو، تین تین بار پوسٹنگز آئیں۔ یہ جنگ تاریخ کی مشکل ترین جنگ اِس لئے تھی کہ یہ اپنی سرزمین پر، اپنے ہم وطنوں سے لڑنا پڑی- کچھ کو دونوں سرحدوں پر پہرا دینا پڑ رہا ہے تو کچھ کو ملک کے اندر اِس طرف یا اِس طرف سے مدد لینے والے اپنے ہم وطن اور ہم کلمہ بھائیوں سے برسرِ پیکار رہنا پڑا۔

یہ جنگ اُن لوگوں کے خلاف لڑی گئی کہ جو اپنی جنگ کے لئے اِس مذہب کی آڑ لے رہے تھے جو خود اُن سیکورٹی فورسز کا بھی مذہب ہے اور اُس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ جس دشمن کے خلاف یہ جنگ لڑنا پڑی وہ ماضی میں اپنے اور اتحادی بھی رہ چکے تھے- اِسی طرح سیکورٹی فورسز کو ایک ایسی جنگ لڑنا پڑی جس پر ایک لمبے عرصہ تک پوری قوم تو کیا سیاسی جماعتیں بھی یکسو نہیں تھیں- اِسی طرح وہ ایک ایسے دشمن سے لڑرہی تھیں اور اب بھی لڑ رہی ہیں کہ جس کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے ہر علاقے، ہر طبقے اور ہر ادارے میں موجود تھے اور ہیں۔ یوں یہ جنگ لڑنے والے جوان اور افسران جذباتی بھی ہیں اور بہت پرجوش بھی۔ وہ فتح کے جذبے سے سرشار ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اِس قوم کا ہر فرد اُن کا اور اُن کی آئندہ نسلوں کا احسان مند رہے اور اگر اُس جنگ میں اُن سے کسی غلطی یا تجاوز کا صدور ہوا بھی ہے تو اُس سے درگزر کر کے اُسے ہیرو اور محسن مانا جائے۔

اِسی طرح عوام اور بالخصوص پختون بھی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرے اور اب بھی گزر رہے ہیں۔ ابتدا میں اُنہیں ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کی خاطر اُن عسکریت پسندوں، جو پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کہلائے، کو گلے سےلگا لیں۔ پھر ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ طالبان اُن پختونوں کے گلے پڑ گئے- اُن کے زعما اور جوان اُن لوگوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ اُن کی معیشت تباہ ہوئی اور اُن کی ثقافتی اقدار تک کو تبدیل کیا گیا۔ لمبے عرصے تک ریاست تماشہ دیکھتی رہی اور یہ لوگ اُن سے لڑتے رہے، اُن کے ہاتھوں لٹتے رہے اور مرتے رہے۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھیجا گیا جنہیں اِن لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہار پہنائے اور سر آنکھوں پر بٹھایا۔

ابتدا میں اُن کو اُن عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہ تھی یا پھر اُن میں اچھے برے کی تفریق کی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے اُن لوگوں کا ڈپریشن یوں بڑھتا رہا کہ وہ دیکھتے کہ وہی عسکریت پسند یہاں حسبِ سابق سرگرم عمل ہے لیکن اُن کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی جبکہ اُن کو مارنے کے لئے امریکی اُن کے علاقوں میں ڈرون حملے کررہے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ ریاست نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیا- چنانچہ ایک دن اچانک اُن پختونوں کو گھروں سے نکلنے کا حکم ملا۔

لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ گھربار، کاروبار، فصلیں اور باغات چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ جب مہاجر بن گئے تو اُن کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی مناسب اور متبادل بندوبست نہیں تھا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک وہ ذلیل اور خوار ہوتے رہے کیونکہ یہاں بھی اُنہیں اِس شک کے ساتھ دیکھا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ کوئی ایک سال مہاجر رہا، کوئی پانچ سال اور کوئی آج بھی مہاجر ہے۔ اُن لوگوں کے ساتھ پولیس اور ریاست کی طرف سے کیا سلوک ہوتا رہا، اُس کی ایک زندہ مثال نقیب اللہ محسود ہیں۔

اُن کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا دوبارہ حلف اٹھائیں گے اور جان لیوا اسکروٹنی سے گزرنے کے بعد وطن کارڈ کے ذریعے ہی کئی چیک پوسٹوں پر سے گزر کر اپنے علاقوں کو واپس جائیں گے۔ وہ اپنے علاقوں میں واپس پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگ اور آپریشنوں کے نتیجے میں سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ یہ لوگ مطالبے کرتے رہے لیکن حکومتیں دیگر دھندوں میں مصروف رہیں۔ اِس جنگ میں کئی لوگوں کے پیارے بھی لاپتہ ہوگئے۔ اُن لوگوں کے معیشت کے پہلے سے موجود ذرائع تباہ ہو گئے لیکن نئے فراہم نہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے اُن لوگوں کی ترجمانی کی اور نہ میڈیا نے۔ چنانچہ خود اُن کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک اٹھی اور پلک جھپکتے سارے متاثرین اُس کے گرد جمع ہونے لگے-

اُن لوگوں کا پورا کیس بحیثیت مجموعی بالکل درست نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُن کے بیانیے میں غصہ بھی ہے اور بعض حوالوں سے تجاوز بھی- جس طرح ریاست کے پاس اُن لوگوں سے متعلق کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی بلکہ فائر فائٹنگ کرتی نظر آتی ہے، اِس طرح اُن لوگوں کے پاس بھی کوئی جامع منصوبہ عمل نہیں اور وہ صرف واقعات یا حادثات کی بنیاد پر ردعمل کی نفسیات کے تحت جذبات کو مزید بھڑکا رہے ہیں- جس طرح ریاست کا ایک ادارہ اُن سے متعلق کچھ تو دوسرا کچھ کررہا ہوتا ہے، اِسی طرح اُن لوگوں کی صفوں میں بھی بعض ایسے لوگ گھس آئے ہیں جن کے نعرے تو یہی لیکن ایجنڈے کچھ اور نظر آتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے یہ دونوں متاثرین اور ہیرو (سیکورٹی فورسز اور متاثرہ پختون) یک جان دو قالب ہوتے لیکن بدقسمتی سے اُن کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنے کی سازش ہورہی ہے- المیہ یہ ہے کہ دونوں متاثرہ فریق بہت جذباتی ہیں۔ ہر فریق کی قربانی اتنی زیادہ اور دکھ اتنا گہرا ہے کہ وہ دوسرے فریق کے دکھ اور مجبوریوں کا پوری طرح احساس نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر قربان ہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے جارہے ہیں‘‘۔
 

جاسم محمد

محفلین
بات جو سمجھ نہیں آتی
01/05/2019 ایاز امیر



پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خلاف تمام لگائے گئے الزامات درست ہوں گے۔ انہیں واقعی بیرونی ذرائع سے پیسے ملے ہوں گے۔ یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ تنظیم کسی بیرونی ایجنڈے پہ کام کر رہی ہے۔ لیکن ایک بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس تنظیم کے قیام کا محرک نوجوان نقیب اللہ محسود کا کراچی میں قتل بنا۔

اِس واقعہ سے پہلے پی ٹی ایم کا کوئی وجود نہ تھا۔ ہم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا۔ نقیب اللہ محسود کا گھناؤنا قتل کراچی میں ہوتا ہے اور پھر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ پشتون تحفظ کا نعرہ لگنے لگ جاتا ہے۔ آج جو لوگ پی ٹی ایم کے مطالبات کے بارے میں فکر مند ہیں، اور بجا طور پہ فکر مند ہوں گے، اُنہیں فکر تب کیوں لاحق نہ ہوئی جب یہ گھناؤنا واقعہ کراچی میں ہوا تھا، لواحقین چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن یوں لگتا تھا کہ اُس چیخ و پکار کو سُننے کی بجائے تمام متعلقہ ادارے اس کوشش میں لگے ہیں کہ جن پہ ماورائے قانون قتل کا الزام لگا اُن کو بچایا جائے؟

واقعہ جب رونما ہوا تو میڈیا کی زینت بنا۔ پہلے کچھ اور کہانی گھڑی گئی، پھر حقائق سامنے آئے کہ نقیب اللہ محسود اور اس کے ساتھی کوئی دہشت گرد نہ تھے بلکہ انہیں پولیس والوں نے اٹھایا تھا، کسی نا معلوم جگہ رکھا تھا ’جہاں پر اُن پر تشدد ہوا اور پھر ایک مقابلے کا ڈرامہ رچایا گیا جس میں وہ سب لوگ مارے گئے۔ یہ تو عام معلومات کی بات ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا تھا۔ بے گناہ لوگ مارے گئے تھے اور واردات کی پردہ پوشی کے لئے مقابلے کی کہانی بنائی گئی۔

اہم بات البتہ یہ رہی کہ کہانی زیادہ دیر چل نہ سکی اور واقعہ کے کرداروں کے اصل چہرے بے نقاب ہو گئے۔ لیکن پھر بھی اُن کے خلاف کچھ نہ ہوا۔ ڈرامے کے مرکزی کردار، ہمارے پرانے دوست راؤ انوار، کے خلاف ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ مقدمہ درج ہوا اور لوگوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ اُن کے گھر کو ہی سب جیل قرار دیا گیا اور وہیں وہ ٹھہرے۔ پھر اُنہیں ضمانت مل گئی۔

نقیب اللہ محسود کا تعلق وزیرستان کے محسود قبیلے سے تھا۔ یعنی اُنہی لوگوں سے تھا جو قبائلی علاقے کے آپریشنز کی زد میں رہے۔ یہ مفروضہ از روئے بحث مانا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے ہی مہم چلانے کا کوئی منصوبہ تھا۔ یہ بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ایسے ذہنوں میں شر پسندانہ خیالات ہوں گے لیکن منظر عام پہ آنے کا اُنہیں موقع نقیب اللہ محسود کے قتل اور اُس پہ ڈرامہ بازی نے ہی مہیا کیا۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ آج جو پی ٹی ایم کی کارروائیوں کے بارے میں اتنے فکر مند ہیں ’اُنہیں معاملے کا ادراک تب کرنا چاہیے تھا؟ اگر ڈرامے کے کرداروں کے خلاف مناسب کارروائی ہوتی اور وہ کیفر کردار تک پہنچائے جاتے تو کم از کم شر پسند ذہنوں کو وہ جواز میسر نہ آتا جو نقیب اللہ محسود کے قتل نے مہیا کیا۔

راؤ انوار کہیں پہاڑوں میں روپوش نہیں۔ اُن کی حرکات و سکنات اور اُن کا کردار منظر عام پہ ہے۔ پی ٹی ایم کے بارے میں شکوک کا اظہار یا اُس پہ الزامات لگانے سے پہلے۔ اور یہ بالکل مانا جا سکتا ہے کہ الزامات سو فیصد درست ہوں گے۔ اِس پہلو پہ غور نہیں کرنا چاہیے کہ راؤ انوار اور ساتھیوں کے خلاف مناسب کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ کیا اخبارات کے قاری اور ٹی وی دیکھنے والے یہ بھول سکتے ہیں کہ جب راؤ انوار کی عدالت میں پیشی ہوتی تھی تو اُنہیں کتنی آؤ بھگت سے لایا جاتا تھا؟ وہ مجرم کم اور فاتح زیادہ لگتے تھے۔ کیا یہ گھناؤنے واقعہ کے لواحقین کے دلوں پہ نمک پاشی کے مترادف نہ تھا؟

بعد از خرابی بسیار چیخ و پکار دانش مندی کا کم ہی ثبوت ہوتا ہے۔ حالات اور اُن کے ممکنہ نتائج کا پہلے سوچنا چاہیے۔ یہ درست ہو سکتا ہے کہ ہم کہیں کہ شیخ مجیب الرحمن اگرتلہ سازش میں ملوث تھے۔ اِس سے بھی کون انکار کر سکتا ہے کہ جب مشرقی پاکستان میں حالات مزید خراب ہوئے تو ہندوستان نے اُس کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ مانا بھی جائے تو کیا اِس امر سے انکار ممکن ہے کہ ریاستی کوتاہیوں کے سبب مشرقی پاکستان کے حالات بہت پہلے سے خرابی کی طرف چل نکلے تھے؟

جن احساسات نے مشرقی پاکستان میں جنم لیا تھا ’وہ اگرتلہ سازش سے پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کے پیچھے ایک پوری داستان اور تاریخ تھی۔ یہ تو بڑی سطحی اپروچ ہے کہ مرض کی علامات کو تو دیکھا جائے لیکن اُس کے محرکات سے پہلوتہی کی جائے۔ یہ کہنا درست ہے کہ 1971 ء میں آج جیسا میڈیا ہوتا تو اصل حالات سمجھنے میں مدد ملتی۔ لیکن مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے میں بے خبری پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی شروع ہو چکی تھی۔

طاقت ور طبقات جو اقتدار پہ قابض تھے‘ اُن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا اور وہ شروع کے دنوں سے ہی مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے میں لا علمی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ مشرقی پاکستان میں بے چینی ایک دن کی پیداوار نہ تھی۔ یہ برسوں اور دہائیوں پہ محیط ایک طرزِ عمل تھا جس کی وجہ سے وہ بے چینی پیدا ہوئی اور پھر وہ کیفیت نفرت میں بدل گئی۔ ہندوستان نے حالات کا فائدہ اٹھایا ’اُنہیں پیدا نہ کیا تھا۔ وہ تو یہاں کے مقتدر طبقات کا کارنامہ تھا۔

اسی لیے نازک معاملات کے بارے میں سطحی اپروچ خطرناک عمل کا درجہ رکھتی ہے۔ باہر سے امداد کی باتیں سو فیصد درست ہوں گی ’لیکن پوری تاریخِ پاکستان میں ہم ایسے الزامات سُنتے آئے ہیں۔ سابقہ صوبہ سرحد میں غفار خان اور اُن کے سرخ پوشوں کا مسئلہ خالصتاً سیاسی نوعیت کا تھا۔ وہ آزادی کے لئے لڑنے والوں میں سے تھے ؛ البتہ اُن کا سیاسی نقطہ نظر مسلم لیگ سے مختلف تھا۔ بالکل اِسی طرح جیسے کئی جید علما کا تصورِ آزادی و ریاست مسلم لیگ سے مختلف تھا۔ لیکن ریاستی اداروں نے غفار خان اور اُن کے ساتھیوں پہ غداری کا لیبل لگا دیا۔

1970 ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو اعلیٰ پائے کی سیاسی سوچ رکھنے والے لیڈر تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا مزاج ایسا تھا کہ اِن بلوچ رہنماؤں کے ساتھ وہ چل نہ سکے۔ ذہین تو بھٹو صاحب بہت تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اعلیٰ بصیرت سے محروم تھے۔ بلوچ رہنما اور نیشنل عوامی پارٹی اُن کے قدرتی حلیف ہونے چاہئیں تھے ’لیکن بھٹو صاحب نے اُنہیں اپنا دشمن بنا لیا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اُس وقت کے سیاسی حالات میں اُن کے کون قدرتی حلیف اور کون حقیقی دشمن ہیں۔ جب مولوی حضرات اور دائیں بازو کی دیگر قوتیں 1977 ء میں اُن کے خلاف میدان میں اُتریں تو وہ تنہا رہ گئے۔ پھر جو اُنہیں ختم کرنا چاہتے تھے اُن کے لئے یہ کام اتنا مشکل نہ رہا۔

عسکری سوچ کا اپنا دائرہ ہوتا ہے۔ لیکن جو سیاسی نوعیت کے معاملات ہوں اُن کو سیاسی انداز میں طے کرنا ہی فائدہ مند نتائج دیتا ہے۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ جن معاملات پہ غور و فکر کی ضرورت تھی کچھ ریاستی اداروں نے جلد بازیاں کیں۔ اُس سے ملک و قوم کو نقصان پہنچا۔ اب بھی سوچنے کا مقام ہے کہ جو گھناؤنا واقعہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کے حوالے سے ہوا ’اُس کے بارے میں نظام عدل کے پہیے کیوں رُکے ہوئے ہیں؟

ساہیوال میں کوئی تحریک شروع نہیں ہو رہی لیکن وہاں بھی یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ساہیوال میں جو واقعہ ہوا جب نہتے لوگوں پہ گولیاں چلیں اس کا بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد کیوں نہیں ہو رہا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ایک غلط کام کا جواب ایک اور غلط کام نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جو 1950 کی دہائی سے نظام کے ساتھ کھلواڑ کرتی چلی آئی تھی اس کو درست کرنا جمہوری لیڈران کاکام تھا۔ لیکن انہوں نے بھی قوم کو اکٹھا رکھنے کی بجائے ملک توڑنے کو ہی ترجیح دی۔
شیخ مجیب نے اپنی پوری کوشش کی تھی کہ یہاں تک نوبت نہ آتی۔ صدر پاکستان جنرل یحیی خان کے ساتھ مکمل تعاون کیا تھا۔ البتہ الیکشن جیتنے کے بعد جمہوری بھٹو کے ایما پر صدر پاکستان نے اسمبلی کا سیشن موخر کر دیا۔ اوپر سے بھٹو کے ہتک آمیز بیانات کہ اگر کوئی پی پی پی سے اسمبلی میں جاکر بیٹھا تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ اس کے بعد بنگلہ قوم کے پاکستانی رہنے کی کوئی توجیہہ باقی نہیں رہتی تھی۔ رہی سہی کسر آپ کے ڈھول سپاہیا کے مظالم نے پوری کر دی۔
دیکھیے، ہم شخصیت پرست نہیں ہیں، کسی بھی صورت۔ بھٹو صاحب نے بھی اسی طرح آمروں کے ساتھ مل کر کچھ سمجھوتے کیے، جو کہ نہ ہوتے تو بہتر تھا۔ بعد ازاں، اور ان سے قبل بھی، بعضے دیگر رہنماؤں نے بھی ، ایسا ہی کیا تھا۔ بسا اوقات، معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے شاید یہ کمپرومائزز ناگزیر بھی ہو جاتے ہوں گے۔ البتہ ان سمجھوتوں کا حتمی نتیجہ یہی نکلا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑ گیا۔ تاہم، ان کے کریڈٹ پر صرف یہی کچھ نہیں ہے کہ انہوں نے فوج کے ساتھ سمجھوتے کیے تھے۔ یہ ان کی شخصیت کا صرف ایک پہلو تھا، ویسے مجموعی طور پر وہ بڑے زبردست انسان تھے۔ یہ الگ بات کہ ان میں کئی خامیاں بھی تھیں۔ خود سر تھے، ضدی تھے اور تنقید کم ہی برداشت کرتے تھے۔ یہ صفات انہیں غیر متوازن شخصیت ظاہر کرتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب ان کا عدالتی قتل کیا گیا تو وہ صحیح معنوں میں 'زندہ' ہو گئے ۔۔۔! ہماری فوج کو بھی یہی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی فرد یا گروہ کو مظلوم بننے کا موقع نہ دیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے مجموعی طور پر وہ بڑے زبردست انسان تھے۔
متفق۔ بھٹو صاحب اپنی شخصیت میں تھوڑی سی جمہوری لچک پیدا کر لیتے تو آج پاکستان کے حالت یکسر مختلف ہوتے۔ بھٹو صاحب کے اندر قوم کو اکٹھا کرنے کی خداداد صلاحیت موجود تھی۔ بہت افسوس کے ساتھ ان کے بعد والے لیڈران بشمول خان صاحب میں ویسی صلاحیت نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی ایم کے کچھ لوگ بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، آرمی چیف
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1654186-qamarbajwaxx-1556802567-229-640x480.png

آرمی چیف نے مختلف جامعات کے طلبہ سے بات چیت، فوٹو: فائل

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پشتون تحفظ کے کچھ لوگ بیرونی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پشاور میں خیبرپختونخوا کی مختلف جامعات کے طلبہ سے ملاقات اور بات چیت کی۔

اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ بذات خود کوئی مسئلہ نہیں لیکن پی ٹی ایم کے کچھ لوگ بیرونی عناصر کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، بھٹکے ہوئے لوگ عوام کے جذبات مجروح کررہے ہیں لیکن یہ منفی قوتیں اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہوں گی۔

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ قوم اورمسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم کردار ادا کیا، قوم اور پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دیں، قبائلی عوام دہشت گردی سے متاثر ہوئے تاہم فورسز قبائلیوں کے مسائل پر بلاتفریق کام کررہی ہیں۔

سربراہ پاک فوج نے کہا کہ پاکستانیوں کا مستقبل باصلاحیت نوجوانوں سےوابستہ ہے اور پائیدارامن کی جانب پیش رفت کے لیے سماجی ترقی پہلا قدم ہے،اب وقت آگیا ہے سماجی اورمعاشی ترقی پرتوجہ دی جائے جب کہ تعلیم اہم شعبہ جس پرتوجہ کی ضرورت ہے۔
 
Top