پی ایچ ڈیوں کا بازار

عاطف بٹ

محفلین
السلام علیکم،
آج قابلِ احترام محمد اصغر ( تلمیذ ) صاحب نے ذاتی پیغام کے ذریعے مجھے دو روابط بھیجے جن میں ایک انتہائی اہم مسئلے کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ مسئلہ خاصا سنگین ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مذکورہ روابط پر موجود دونوں تحریریں پیشِ خدمت ہیں۔ امید ہے کہ احباب اس موضوع پر اپنی تجاویز و آراء پیش کرنے کے ساتھ ساتھ سیر حاصل گفتگو بھی کریں گے، تاہم اس سلسلے میں ایک گزارش یہ ہے کہ بےجا تنقید اور اعتراضات کی بجائے مسائل کا حل بتانا زیادہ مناسب رہے گا۔ علاوہ ازیں، دورانِ بحث موضوع کے دائرے میں ہی رہا جائے تو بحث میں شریک تمام احباب اور اسے پڑھنے والے بہتر طور پر مستفید ہوپائیں گے۔

p12_06.jpg


اس کالم کے حوالے سے انور سدید صاحب نے ایک مراسلہ بھی لکھا تھا جو پیش خدمت ہے۔
p13_01.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
پہلے ایک چھوٹی سی اصلاح، سابق فرسٹ کلاس کرکٹر نے ہاکی پر تبصرہ کیا؟
پھر یہ بات بھی کہ ایک جگہ چھت بھئے لکھنا ہے جو کہ شاید چھٹ بھیئے ہے اصل لفظ

باقی جہاں تک پی ایچ ڈی کی بات ہے تو میرا ذاتی تجربہ دو طرح کا ہے

پہلی قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو کسی سائنسی موضوع پر کام کرتے ہیں، ان کی تحقیق کو بین الاقوامی طور پر دو غیر ملکی پروفیسروں سے منظور کرایا جاتا ہے اور پھر جا کر اسے قبول کرتے ہیں۔ میرے کئی دوست اس وقت بھی کینسر یا دیگر موضوعات پر ریسرچ کے لئے حکومت کی جانب سے امریکہ، سوئیڈن، جرمنی اور اٹلی آتے جاتے رہے ہیں اور ذاتی طور پر میں ان سے مطمئن ہوں کہ وہ محنت کر کے ڈگری لے رہے ہیں۔ سائنس کے پی ایچ ڈی کو شاید 30،000 روپے ماہانہ ملتے ہیں بطور وظیفہ

دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو انگریزی ادب، اردو، پولیٹکل سائنس وغیرہ جیسے مضمون کو پکڑتے ہیں۔ ان میں میری ایک جاننے والی محترمہ جو پی ایچ ڈی انگریزی ادب میں ہیں، بتا رہی تھیں کہ ان کی سہیلی کی شادی ہے اور وہ اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ نہیں لکھ سکتی تو میں اسے لکھ کر دے رہی ہوں۔ یہ محترم لیڈز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکی ہیں اور ان کی سہیلی پاکستانی کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی تھیں
 

دوست

محفلین
نہ پوچھیں جی جو کچھ انہوں نے کہا وہی کچھ ہے۔ لائن لگی ہوئی ہے ایم فِل کی اور پی ایچ ایچ ڈی کے امیدواروں کی۔
 

سید ذیشان

محفلین
ایچ ای سی والی کہانی جب شروع ہوئی تھی تو پرویز ہودبائی کہتے کہتے تھک گیا کہ ہمیں کوانٹٹی کی جگہ کوالٹی پر توجہ دینی چاہیے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ اب حالات قابو سے باہر ہیں۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
شکریہ بٹ جی۔ آپ نے اس موضوع کو محفل میں متعارف کرایا۔

اعلی تعلیم یافتہ افراد کسی بھی ملک وقوم کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور اگر زندگی میں حصول علم کے لئے کی ہوئی محنت شاقہ ان کے وطن کے کام آجائے تو یہ ہر دو کے لئے عین خوش بختی کی علامت ہوتی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے وطن عزیزمیں اس بات پر ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بے حد کم عمل ہواہےاور یہاں کی زیادہ تر یونیورسٹیوںمیں آج کل وہ تعلیمی معیار نہیں رہا جو کہ ایک اعلی تعلیم کے ادارے سے درکار ہوتاہے۔ یہ انحطاط دو طرفہ ہے،یعنی(۱)ایک طرف تو طلباء میں اختراعی لگن و تڑپ کا فقدان ہو گیاہےاور وہ فقط اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لئےداخلہ لیتے ہیں اورکسی بھی موضوع پر اس کے تقاضوں کے مطابق خاطر خواہ تحقیق کئے بغیر فارغ التحصیل ہو جاتے ہیں۔ اس ڈگری کی تکمیل کے مدارج طے کرنے لئے جو ہوشربا حربے اختیار کئے جاتے ہیں ،ان کی تفصیل ایک الگ دفتر کی متقاضی ہے۔ (۲) دوسرے، آجکل ان اداروں کے اساتذہ بھی طلباء پر اتنی دل جمعی سےمحنت نہیں کرتے جو کہ ان کے مقدس پیشے اور انتقال علم کا تقاضا ہوتا ہے اور جو دنیا کی بآعتماد accredited یونیورسٹیوں میں نظر آتا ہے۔ نتیجۃًجو نام نہاد اعلی تعلیم یافتہ افراد مارکیٹ میں آتے ہیں ان میں سے زیادہ ترکی طرف سے تحقیق کے میدان میں عالمی معیار کی کوئی کنٹری بیوشن دیکھنے میں نہیں آتی۔
میرے خیال میں تو یہ ہماری یونیورسٹیوں کی مجموعی تعلیمی ماحول اور تدریسی فضا اور تعلیمی نظم وضبط کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے تمام طلباء غبی یا کم لیاقت کے حامل ہیں کیونکہ ایسی مثالیں موجود ہیں جب یہی سپوت مغرب کی سرکردہ یونیورسٹیوں میں امتیازی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر آتے ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اعلی تعلیمی ادارے
ایڈہاکزم سے چھٹکارا حاصل کرکے کوئی ٹھوس پالیسیاں تشکیل دیں اور ان پر سختی سے عمل بھی کریں تاکہ ملک کی مالی، نیز انٹیلیکچوئل دولت کا اس طرح ضیاع نہ ہو۔
اللہ تعالے ہمارے اس خواب کے پورا ہونے میں مدد فرمائے۔

پس نوشت: (۱) جی ہاں،درست ترکیب 'چھٹ بھئیے' ہی پڑھنے میں آتی رہی ہے۔
سید زبیر, دوست,
فلک شیر, فرحت کیانی, سعادت,
قیصرانی, نیرنگ خیال,
 

قیصرانی

لائبریرین
اس بارے ایک سوال ہے کہ سائنسی علوم کے لئے جو ایچ ای سی کے قوائد میں شامل ہے کہ سالانہ اتنے پیپر بین الاقوامی رسالوں میں چھپتے رہیں، کیا ان رسالوں کا اپنا سلیکشن کرائیٹیریا کچھ ہوتا ہے یا نہیں؟ کہ کوئی بھی اپنی بونگی سی تحریر بھی چھپوا سکتا ہے۔ یا پھر یہ کہ وہ لوگ اپنے معیار کو مدِنظر رکھتے ہیں؟
 

سید ذیشان

محفلین
اس بارے ایک سوال ہے کہ سائنسی علوم کے لئے جو ایچ ای سی کے قوائد میں شامل ہے کہ سالانہ اتنے پیپر بین الاقوامی رسالوں میں چھپتے رہیں، کیا ان رسالوں کا اپنا سلیکشن کرائیٹیریا کچھ ہوتا ہے یا نہیں؟ کہ کوئی بھی اپنی بونگی سی تحریر بھی چھپوا سکتا ہے۔ یا پھر یہ کہ وہ لوگ اپنے معیار کو مدِنظر رکھتے ہیں؟

ہر جرنل کا اپنا الگ معیار ہوتا ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ ایچ ای سی کی ایسی کوئی ریکوائرمنٹ ہے کہ جریدوں میں مقالہ جات چھپوانا ضروری ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ آپ کے تھیسس کو دو بیرونی اور ایک اندرونی ایکزامینر پاس کریں گے تب آپ کو ڈگری ملے گی۔ دو نمبر کھاتا تو سائنس کے مضامین میں بھی چل رہا ہے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
اس بارے ایک سوال ہے کہ سائنسی علوم کے لئے جو ایچ ای سی کے قوائد میں شامل ہے کہ سالانہ اتنے پیپر بین الاقوامی رسالوں میں چھپتے رہیں، کیا ان رسالوں کا اپنا سلیکشن کرائیٹیریا کچھ ہوتا ہے یا نہیں؟ کہ کوئی بھی اپنی بونگی سی تحریر بھی چھپوا سکتا ہے۔ یا پھر یہ کہ وہ لوگ اپنے معیار کو مدِنظر رکھتے ہیں؟
ہر جرنل کا اپنا الگ معیار ہوتا ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ ایچ ای سی کی ایسی کوئی ریکوائرمنٹ ہے کہ جریدوں میں مقالہ جات چھپوانا ضروری ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ آپ کے تھیسس کو دو بیرونی اور ایک اندرونی ایکزامینر پاس کریں گے تب آپ کو ڈگری ملے گی۔ دو نمبر کھاتا تو سائنس کے مضامین میں بھی چل رہا ہے۔
پی ایچ ڈی کسی بھی مضمون میں کی جائے اس کے لئے ایچ ای سی نے تحقیقی مقالوں یا ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی شرط عائد کررکھی ہے، البتہ مختلف مضامین کے لئے رکھی گئی شرائط میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ شرط سب کے لئے ہے کہ مضامین ایچ ای سی کے منظورشدہ تحقیقی مجلوں یا ریسرچ جرنلز میں ہی شائع ہونے چاہئیں۔ ایچ ای سی کسی بھی تحقیقی مجلے کی باضابطہ منظوری دینے سے قبل اس کے مواد، مجلسِ ادارت اور مجلسِ مشاورت کا جائزہ لیتا ہے۔ مجلسِ ادارت جامعہ یا یونیورسٹی کے اپنے اسٹاف پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ مجلسِ مشاورت میں ملک کے اندر اور باہر سے اس مضمون کے نامور ماہرین کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ تحقیقی مجلہ ایک مقررہ مدت سے تسلسل کے ساتھ شائع ہورہا ہے یا نہیں۔ علاوہ ازیں، ایچ ای سی سے منظورشدہ ہر مجلے میں شائع ہونے والے ہر مضمون کو بیرونِ ملک بھیج کر اس پر مجلسِ مشاورت میں شامل دو ماہرین کی رائے یا پیئر ریویو حاصل کرنا بھی شرطِ لازم ہے۔
ان سب قواعد و ضوابط کے باوجود ہمارے ہاں لوگ دھوکے اور فریب سے مضامین شائع کروالیتے ہیں یا اقربا پروری کا جادو چلتا ہے اور سب اچھا ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں شیئر کرنے کو شدت سے جی چاہ رہا ہے مگر کچھ چیزیں آف دی ریکارڈ ہی رہیں تو بہتر ہے!
 

تلمیذ

لائبریرین
۔
ان سب قواعد و ضوابط کے باوجود ہمارے ہاں لوگ دھوکے اور فریب سے مضامین شائع کروالیتے ہیں یا اقربا پروری کا جادو چلتا ہے اور سب اچھا ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ اس ضمن میں بہت سی باتیں شیئر کرنے کو شدت سے جی چاہ رہا ہے مگر کچھ چیزیں آف دی ریکارڈ ہی رہیں تو بہتر ہے!

واقعی اس بارے میں کچھ کہنے کی نسبت خاموشی ہی بہتر ہے کیونکہ 'پنبہ کجا کجا نہن، دل ہمہ داغ داغ شد' ۔ چند سال پیشتر پنجاب یونیورسٹی کے دو اساتذہ کے بارے میں چربہ کاری plagiarism کے شواہد کے منظر عام پر آنے سے اس عظیم درسگاہ کی جو جگ ہنسائی ہوئی تھی اس سے دل بے حد افسردہ ہوا تھا۔ لیکن یہ پہلا پتھر تھا، اس کے بعد تو چل سو چل۔ مہم جوؤں کو ایک
precedence مل گیا تھا،بلکہ 'جھاکا' کھل گیا تھا۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
اس موضوع پر میری ذاتی معلومات تو محدود ہیں، لیکن جو کچھ پڑھتا اور سُنتا رہتا ہوں، اس کے مطابق ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کی ڈگری شاید اس لیے بھی کھیل بن چکی ہے کہ تحقیق اور تحقیقی میدانوں میں قابلِ ذکر کام کرنے کے لیے جس کلچر کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ہماری اکثر جامعات میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے (جس کی طرف محترم تلمیذ صاحب نے بھی اشارہ فرمایا)۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری منزل نہیں ہوتی بلکہ تحقیق کے زینے کا پہلا قدم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس ڈگری کے حصول کو ہی ایک عظیم کارنامہ سمجھ لیا جاتا ہے (اور بلا شبہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے، اگر محنت اور خلوص کے ساتھ حاصل کی جائے)، لیکن تحقیق کا عمل تو ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کے تمام کیریئر میں جاری رہنا چاہیے۔ جب میں بیرونِ ملک یونیورسٹی پروفیسرز یا محققین کے ویب پیجز یا résumés وغیرہ دیکھتا ہوں، تو ان کی جانب سے جدید ترین موضوعات پر کی گئی تحقیق اور مقالوں کے روابط پڑھ کر رشک آتا ہے۔ اکثر اوقات یہ تمام تحقیق وہ اپنے کولیگز یا شاگردوں کے ساتھ مل کر تب انجام دے رہے ہوتے ہیں جب ان کو خود اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کیے کئی سال گزر چکے ہوتے ہیں۔ پاکستانی جامعات میں بھی ایسی مثالیں ضرور ملتی ہیں، لیکن افسوس کہ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہیں، جس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق اور اس کا کلچر درست طریقے سے پنپ نہیں سکا۔

(اتفاق کی بات ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے میری نظر سے The Ph.D. Grind – A Ph.D. Student Memoir نامی ای-بُک گزری تھی، جو سٹینفورڈ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں فارغ التحصیل ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے اور جسے تحقیقی حلقوں اور پی ایچ ڈی کے طالبعلموں میں کافی پذیرائی ملی ہے؛ شاید آپ احباب کو بھی دلچسپ لگے۔ میں نے اسے ڈاؤنلوڈ تو کر لیا تھا لیکن پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا، اب سوچ رہا ہوں کہ اس کا مطالعہ شروع کر ہی دوں۔ :) )
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واقعی اس بارے میں کچھ کہنے کی نسبت خاموشی ہی بہتر ہے کیونکہ 'پنبہ کجا کجا نہن، دل ہمہ داغ داغ شد' ۔ چند سال پیشتر پنجاب یونیورسٹی کے دو اساتذہ کے بارے میں چربہ کاری plagiarism کے شواہد کے منظر عام پر آنے سے اس عظیم درسگاہ کی جو جگ ہنسائی ہوئی تھی اس سے دل بے حد افسردہ ہوا تھا۔ لیکن یہ پہلا پتھر تھا، اس کے بعد تو چل سو چل۔ مہم جوؤں کو ایک
precedence مل گیا تھا،بلکہ 'جھاکا' کھل گیا تھا۔
متفق.
بہت اہم مسئلے پر گفتگو ہو رہی ہے. اتفاق سے کل میری بهی کسی سے اسی موضوع پر بات ہو رہی تهی. جس کی تفصیل پوسٹ کرنا چاہوں گی فرصت میں. ابهی تو اتنا کہ پاکستان میں پلیجیئر ازم پر بات ہونا تو شروع ہو گئی ہے لیکن اس کی روک تهام سے متعلق خاطرخواہ ٹهوس اقدامات نہیں لیے جاتے.
مجهے یاد ہے پچهلے سال فیڈرل بورڈ کی چیئرپرسن شاہین خان کے خلاف پی ایچ ڈی میں جعلسازی ثابت ہو گئی تهی اور ان کی ڈیموشن کے احکامات بهی جاری کر دیئے گئے تهے. لیکن وہ اب تک دهڑلے سے اسی عہدے پر براجمان بهی ہیں اور ڈاکٹر کا سابقہ بهی استعمال کر رہی ہیں.
 
بدقسمتی سے پاکستان میں لوگوں کی اکثریت جعلسازی اور دھوکہ دہی کی عادی ہوگئی ہے۔ یہاں وہی کامیاب ہے جو چرب زبان اور دھوکہ باز ہے۔
اسی وجہ سے پاکستان ایک ناکام ریاست لگتی ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بدقسمتی سے پاکستان میں لوگوں کی اکثریت جعلسازی اور دھوکہ دہی کی عادی ہوگئی ہے۔ یہاں وہی کامیاب ہے جو چرب زبان اور دھوکہ باز ہے۔
اسی وجہ سے پاکستان ایک ناکام ریاست لگتی ہے
خیر جعلسازی کی مثالیں ہر معاشرے اور ملک میں ملتی ہیں. صرف اس بنیاد پر آپ کسی ریاست کو ناکام قرار دیں گے تو دنیا کی بڑی بڑی ریاستیں اس فہرست میں شامل ہو جائیں گی.
 
خیر جعلسازی کی مثالیں ہر معاشرے اور ملک میں ملتی ہیں. صرف اس بنیاد پر آپ کسی ریاست کو ناکام قرار دیں گے تو دنیا کی بڑی بڑی ریاستیں اس فہرست میں شامل ہو جائیں گی.

جس ملک کےاستاد، جرنیلز، اخبارنویس، پارلیمنٹ اور فوج میں جعلساز بھرے ہوں وہ کیسے کامیاب ہوسکتا ہے؟
 

عاطف بٹ

محفلین
متفق.
بہت اہم مسئلے پر گفتگو ہو رہی ہے. اتفاق سے کل میری بهی کسی سے اسی موضوع پر بات ہو رہی تهی. جس کی تفصیل پوسٹ کرنا چاہوں گی فرصت میں. ابهی تو اتنا کہ پاکستان میں پلیجیئر ازم پر بات ہونا تو شروع ہو گئی ہے لیکن اس کی روک تهام سے متعلق خاطرخواہ ٹهوس اقدامات نہیں لیے جاتے.
فرحت، گفتگو میں شریک ہونے کے لئے بہت شکریہ اور تفصیل کا شدت سے انتظار ہے۔ میں کچھ واقعات شیئر کروں گا کہ آج کل جامعہ پنجاب میں ہماری دوپہریں اور شامیں تحقیق و تعلیم کے ساتھ ساتھ ایسے ہی موضوعات پر بحث کرتے گزرتی ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
پی ایچ ڈی کی ڈگری منزل نہیں ہوتی بلکہ تحقیق کے زینے کا پہلا قدم ہوتی ہے۔
بہت شکریہ سعادت بھائی کہ آپ نے اس انتہائی اہم نکتے کو اجاگر کیا۔ یہ واقعی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کو منزل تصور کرلیا جاتا ہے اور یہی تصور بےشمار خرابیوں کی جڑ ثابت ہوتا ہے!
 

عاطف بٹ

محفلین
کچھ عرصہ پہلے پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں مگر نام اور مقام کا ذکر نہیں کروں گا تاکہ جن صاحب سے متعلق یہ واقعہ ہے ان کا بھرم بھی قائم رہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جنہوں نے پاکستان کی بڑی جامعہ سے دو تین اچھی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے سے آپ انگلستان میں مقیم ہیں۔ چھ، آٹھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک روز ان کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ وہ انگلستان کی ایک بڑی جامعہ سے ایک خاص ڈگری حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔ ساتھ ہی ہمارے ان حبیب نے بتایا کہ انہیں اپنی ڈگری کی تکمیل کے لئے ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھ کر جمع کروانا ہے۔ انہوں نے موضوع بتایا تو ہم سٹپٹائے کہ بھائی، تمہیں کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ ایسا موضوع انتخاب کرو۔ خیر، اب بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ موضوع کی منظوری مل چکی تھی۔ انہوں نے منت سماجت کے انداز میں کہا کہ مجھے اس موضوع کے حوالے سے کوئی کتاب نہیں مل رہی اور وقت بھی کم ہے، لہٰذا آپ میری مدد فرمائیں۔ ہم چونکہ پیدائشی طور پر مددگار قسم کے واقع ہوئے ہیں، سو ان کی حالت اور حالات سن کر وعدہ کرلیا کہ انشاءاللہ کام ہوجائے گا۔
اب ہم نے موضوع سے متعلق کچھ چیزیں انہیں سمجھائیں اور اپنے علم کے مطابق کچھ مشورے بھی دئیے۔ جناب نے فرمایا کہ میں آپ کو اپنا تحقیقی خاکہ (Synopsis) ای میل کے ذریعے بھیجتا ہوں، اس میں آپ کے لئے کچھ دلچسپ باتیں ہیں۔ ہم نے کہا بھیج دو۔ اب جو خاکہ ہمیں موصول ہوا اس پر موصوف کے نگران/معلم نے قریب قریب وہی باتیں لکھی ہوئی تھیں جو ہم نے انہیں سمجھائیں۔ خیر، لاہور کے ایک بڑے تحقیقی کتب خانے سے اس موضوع پر کتابیں ڈھونڈیں کر ان کی نقول تیار کر کے موصوف کو ارسال کی گئیں۔ اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد انہوں نے مقالہ لکھ کر ہمیں ای میل کیا کہ استاد کو دکھانے سے پہلے آپ اسے دیکھیں اور اصلاح بھی کریں۔ مقالے میں لکھی گئی انگریزی کو پڑھ کر ہم حیران تھے کہ اس بندے کو انگلستان کی اتنی بڑی جامعہ میں داخلہ کس نے دیا ہے اور آخر کس بنیاد پر! اللہ اللہ کر کے وہ مقالہ مکمل ہوا اور اسے پیش کر کے ان صاحب نے ڈگری حاصل کی، جسے وہ اب دھڑلے سے اپنے نام کے ساتھ ایک دم چھلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
کچھ عرصہ پہلے پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں مگر نام اور مقام کا ذکر نہیں کروں گا تاکہ جن صاحب سے متعلق یہ واقعہ ہے ان کا بھرم بھی قائم رہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جنہوں نے پاکستان کی بڑی جامعہ سے دو تین اچھی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں اور گزشتہ کچھ عرصے سے آپ انگلستان میں مقیم ہیں۔ چھ، آٹھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ ایک روز ان کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ وہ انگلستان کی ایک بڑی جامعہ سے ایک خاص ڈگری حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔ ساتھ ہی ہمارے ان حبیب نے بتایا کہ انہیں اپنی ڈگری کی تکمیل کے لئے ایک تحقیقی مقالہ بھی لکھ کر جمع کروانا ہے۔ انہوں نے موضوع بتایا تو ہم سٹپٹائے کہ بھائی، تمہیں کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ ایسا موضوع انتخاب کرو۔ خیر، اب بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ موضوع کی منظوری مل چکی تھی۔ انہوں نے منت سماجت کے انداز میں کہا کہ مجھے اس موضوع کے حوالے سے کوئی کتاب نہیں مل رہی اور وقت بھی کم ہے، لہٰذا آپ میری مدد فرمائیں۔ ہم چونکہ پیدائشی طور پر مددگار قسم کے واقع ہوئے ہیں، سو ان کی حالت اور حالات سن کر وعدہ کرلیا کہ انشاءاللہ کام ہوجائے گا۔
اب ہم نے موضوع سے متعلق کچھ چیزیں انہیں سمجھائیں اور اپنے علم کے مطابق کچھ مشورے بھی دئیے۔ جناب نے فرمایا کہ میں آپ کو اپنا تحقیقی خاکہ (Synopsis) ای میل کے ذریعے بھیجتا ہوں، اس میں آپ کے لئے کچھ دلچسپ باتیں ہیں۔ ہم نے کہا بھیج دو۔ اب جو خاکہ ہمیں موصول ہوا اس پر موصوف کے نگران/معلم نے قریب قریب وہی باتیں لکھی ہوئی تھیں جو ہم نے انہیں سمجھائیں۔ خیر، لاہور کے ایک بڑے تحقیقی کتب خانے سے اس موضوع پر کتابیں ڈھونڈیں کر ان کی نقول تیار کر کے موصوف کو ارسال کی گئیں۔ اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد انہوں نے مقالہ لکھ کر ہمیں ای میل کیا کہ استاد کو دکھانے سے پہلے آپ اسے دیکھیں اور اصلاح بھی کریں۔ مقالے میں لکھی گئی انگریزی کو پڑھ کر ہم حیران تھے کہ اس بندے کو انگلستان کی اتنی بڑی جامعہ میں داخلہ کس نے دیا ہے اور آخر کس بنیاد پر! اللہ اللہ کر کے وہ مقالہ مکمل ہوا اور اسے پیش کر کے ان صاحب نے ڈگری حاصل کی، جسے وہ اب دھڑلے سے اپنے نام کے ساتھ ایک دم چھلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

انگلستان کی یونیورسٹیوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ٹاپ کی ایک آدھ چھوڑ کر باقی سب پیسہ بنانے کی مشینیں ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
آج واجب الاحترام تلمیذ صاحب کی وساطت سے اسی موضوع پر استاذ الاساتذہ جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا 'نئی بات' میں شائع ہونے والا مراسلہ نظر سے گزرا، سوچا اسے یہاں بھی پیش کردیا جائے تاکہ باقی لوگ بھی پڑھ سکیں۔
p13_01.jpg
 

عثمان

محفلین
(اتفاق کی بات ہے کہ کچھ ہی عرصہ پہلے میری نظر سے The Ph.D. Grind – A Ph.D. Student Memoir نامی ای-بُک گزری تھی، جو سٹینفورڈ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں فارغ التحصیل ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے اور جسے تحقیقی حلقوں اور پی ایچ ڈی کے طالبعلموں میں کافی پذیرائی ملی ہے؛ شاید آپ احباب کو بھی دلچسپ لگے۔ میں نے اسے ڈاؤنلوڈ تو کر لیا تھا لیکن پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا، اب سوچ رہا ہوں کہ اس کا مطالعہ شروع کر ہی دوں۔ :) )

مطالعہ کر رہا ہوں۔ کافی دلچسپ کتاب ہے۔ :)
 
Top