نصیر الدین نصیر پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ

جو وہ تو نہ رہا تو وہ بات گئی جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ امنگ کہاں ، وہ ترنگ کہاں ، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیں بھی الگ نہ ہوا ،شب و روز کہاں وہ میلہ نہ رہا
رگ جاں سے ہماری قریب رہا ، رگ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میں بھی ، کسی رنگ میں بھی ، کسی روپ میں بھی ، کسی ڈھنگ میں بھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا
تھی خزاں کے لباس میں کس کی نظر کہ جھلستی گئی ہے تمام شجر
کسی شاخ پہ تازہ کلی نہ رہی ،کوئی پتہ چمن میں ہرا نہ رہا
تیرے ظلم و ستم ہوئے مجھ پہ جو کم تو یہ حال مرا ہے قدم پہ قدم
وہ تڑپ نہ رہی ،وہ جلن نہ رہی ،غم و درد میں اب وہ مزا نہ رہا
بہے اشک و فور ملال میں جب ، کھلے راز تمام ،ہوا یہ غضب
کوئی بات کسی سے چھپی نہ رہی ،کوئی حال کسی سے چھپا نہ رہا
دم دید ہزار حواس گئے ،رہے دور ہی دور کے پاس گئے
ہمیں دیکھنا تھا انہیں دیکھ لیا ، کوئی بیچ میں پردہ رہا نہ رہا
مرے دم سے تھے نقش و نگار جنوں ،مرے بعد کہاں وہ بہار جنوں
کسی خار کی نوک پہ کیا ہو تری ، کوئی دشت میں آبلہ پا نہ رہا
مرے پاس جو آ بھی گیا ہے کبھی ، تو یہ ڈھنگ رہے تو یہ شکل رہی
وہ ذرا نہ کھلا، وہ ذرا نہ کھلا ، وہ ذرا نہ تھما ، وہ ذرا نہ رہا
کیے تیری نگاہ نے جس پہ کرم ، رہا دونوں جہان میں اسکا بھرم
جسے تیرے غضب نے تباہ کیا ، کہیں اسکا بھرم بخدا نہ رہا
جو نصیر ہم ان سے قریب ہوئے ،تو حیات کے رنگ عجیب ہوئے
غم ہجر میں اور ہی کچھ تھی خلش ، وہ خلش نہ رہی وہ مزا نہ رہا

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 


سنے کون قصہ درد دل میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا
وہ سخن شناس وہ دور بیں وہ گدا نواز وہ مہ جبیں
وہ حسیں وہ بحر علوم دیں میرا تاجدار چلا گیا
کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں کہ نہیں رہا کوئی قدرداں
کہاں اب وہ شوق میں مستیاں کہ وہ پر وقار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا درد دل وہ جو پوچھتا تھا غم درود
وہ گدا نواز بچھڑ گیا وہ عطا شعار چلا گیا
بہے کیوں نصیر نہ اشک غم رہے کیوں نہ لب پر میرے فغن
ہمیں بےقرار وہ چھوڑ کر سر راہ گزار چلا گیا

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 

w8mjn2sczlcokqlawv.jpg
[/URL][/IMG]
 

تلمیذ

لائبریرین
جاوید صاحب،
پیر صاحب مرحوم دا کلام کسے تعریف تےسلاہتا تھیں اُتے وے تے ایہدی وڈیائی وچ کسے نوں کوئی شک نئیں، پر بے ادبی معاف، ایہدے لئی میرے خیال وچ پنجابی فورم مناسب تھاں نئیں۔ اینہوں کسے ہور لڑی وچ ہونا چاہی دا سی۔
 

ابن محمد جی

محفلین
جی کوشش کر رہا ہوں آپ دوستوں کی مدد درکار ہے این محمد جی
آپ کی کوشش کہاں تک پہنچی ہے ،اور اس سلسلہ میں ایک سائیڈ میری نظر سے گذری تھی ،مگر علمی طور پر اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔آپ آپنی کاوش سے ہم کو آگاہ فرمائیں۔
 
میری پیاری بہن
پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ
اگر پیر نصیر الدین نصیر گیلانی رحمۃاللہ علیہ کا کوئی کلام آپ کے پاس ہو تو ضرور ارسال کریں ۔ شکریہ
 
جو وہ تو نہ رہا تو وہ بات گئی جو وہ بات گئی تو مزا نہ رہا
وہ امنگ کہاں ، وہ ترنگ کہاں ، وہ مزاج وفا و جفا نہ رہا
شب و روز کہیں بھی الگ نہ ہوا ،شب و روز کہاں وہ میلہ نہ رہا
رگ جاں سے ہماری قریب رہا ، رگ جاں سے ہماری جدا نہ رہا
کسی شکل میں بھی ، کسی رنگ میں بھی ، کسی روپ میں بھی ، کسی ڈھنگ میں بھی
وہ ہماری نظر سے چھپا تو مگر وہ ہماری نظر سے چھپا نہ رہا
تھی خزاں کے لباس میں کس کی نظر کہ جھلستی گئی ہے تمام شجر
کسی شاخ پہ تازہ کلی نہ رہی ،کوئی پتہ چمن میں ہرا نہ رہا
تیرے ظلم و ستم ہوئے مجھ پہ جو کم تو یہ حال مرا ہے قدم پہ قدم
وہ تڑپ نہ رہی ،وہ جلن نہ رہی ،غم و درد میں اب وہ مزا نہ رہا
بہے اشک و فور ملال میں جب ، کھلے راز تمام ،ہوا یہ غضب
کوئی بات کسی سے چھپی نہ رہی ،کوئی حال کسی سے چھپا نہ رہا
دم دید ہزار حواس گئے ،رہے دور ہی دور کے پاس گئے
ہمیں دیکھنا تھا انہیں دیکھ لیا ، کوئی بیچ میں پردہ رہا نہ رہا
مرے دم سے تھے نقش و نگار جنوں ،مرے بعد کہاں وہ بہار جنوں
کسی خار کی نوک پہ کیا ہو تری ، کوئی دشت میں آبلہ پا نہ رہا
مرے پاس جو آ بھی گیا ہے کبھی ، تو یہ ڈھنگ رہے تو یہ شکل رہی
وہ ذرا نہ کھلا، وہ ذرا نہ کھلا ، وہ ذرا نہ تھما ، وہ ذرا نہ رہا
کیے تیری نگاہ نے جس پہ کرم ، رہا دونوں جہان میں اسکا بھرم
جسے تیرے غضب نے تباہ کیا ، کہیں اسکا بھرم بخدا نہ رہا
جو نصیر ہم ان سے قریب ہوئے ،تو حیات کے رنگ عجیب ہوئے
غم ہجر میں اور ہی کچھ تھی خلش ، وہ خلش نہ رہی وہ مزا نہ رہا

چراغ گولڑہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
خدا کو میں نے صدا لا شریک مانا ہے
تو بادشاہے دو عالم کی ایک شہزادی
میں اک غریب تیری گرد راہ یا زھرا
خدا کو میں نے صدا لا شریک مانا ہے
خدا کے سامنے رہنا گواہ یا زھرا
ملے جو اسکی اجازت مجھے شریعت سے
تو تیرا در ہو میری سجدہ گاہ ہو یا زھرا
ہیں جن کے نور سے امت کے روزو شب روشن
حسن حسین تیرے مہرو مہ یا زھرا
تیرے حسین کا کردار دیکھ کر اب تک
پکارتے ہیں ملک واہ واہ یا زھرا
درود تجھ پے ہو بمصداق بضعة منی
سلام تجھ پے ہو گیتی پناہ یا زھرا
ہیں تیری آل سے پیران پیر محی الدیں
جو اولیا کے ہوئے سربراہ یا زھرا
بھروں تو کیسے بھروں دم تیری غلامی کا
بہت بڑی ہے تیری بارگاہ یا زھرا
کہاں تو ایک نجیبہ عفیفہ پاک نظر
کہاں میں ایک اسیر گناہ یا زھرا
اجڑ چکا ہوں غم زندگی کے ہاتھوں سے
کھڑا ہوں در پہ بحال تباہ یا زھرا
ہوں معصیت کی سیاہی ملے ہوے منہ پر
کسےدکھاؤں یہ روئے سیاہ یا زھرا
میں گو برا ہوں مگر تیرا وہ گھرانہ ہے
کیا ابروں سے بھی جس نے نبھا یا زھرا
بھری ہیں در سے ہزاروں نے جھولیاں اپنی
میری طرف بھی کرم کی نگاہ یا زھرا
نہ پھیر آج مجھے اپنے در سے تو خالی
کہ تیرے بابا ہیں شاہوں کے شاہ یا زھرا
جیو تو لے کے جیو تیری دولت نسبت
مروں تو لے کے مروں تیری چاہ یا زھرا
قدم بہ کلبہء ما گرنہیز روئے کرم
کنیم دیدہ و دل فرش راہ یا زھرا
بروز حشر نہ پرسا ہو جب کوئی اسکا
ملے نصیر کو تیری پناہ یا زھرا

شاعر حق زباں پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
میں اور مجھ کو اور کسی دلربا سے عشق ؟
خیر الوریٰ سے عشق ہے خیر الوریٰ سے عشق
دنیا کی مجھ کو چاہ نہ اس کی ادا سے عشق
دونوں جہاں میں بس ہے مجھے مصطفیٰ سے عشق
وہ آخرت کی راہ کو ہموار کر چلا
جس کو بھی ہو گیا شہ انبیا سے عشق
کچھ اور مجھ کو کام نہیں اس جہان میں
اپنے نبی سے عشق ہے اپنے خدا سے عشق
دنیا کی دوستی تو ضیایع ہے فریب ہے
اسلام میں روا نہیں اس بے وفا سے عشق
سر میں سرور آنکھوں میں ٹھنڈک ہے دل میں کیف
جب سے ہوا دیار نبی کی ہوا سے عشق
دیوانائے رسول و علی و حسین کو
طیبہ کی دھن نجف کی لگن کربلا سے عشق
معراج بندگی کی تمنا میں رات دن
میری جبیں ہے در مصطفیٰ سے عشق
پہلے نبی کے عشق میں مدہوش ہو نصیر
پھر یہ کہے کوئی کہ مجھے ہے خدا سے عشق

شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ

میری بگڑی کے بنانے میں تکلف کیا ہے
آپ کو سینکڑوں انداز کرم آتے ہیں

حسن زے بصرہ از بلال حبش صہیب از روم
زے خاک مکہ ابو جہل ای چہ بل عجب ایست

کبھی بہلا دیا مجھ کو کبھی سر مستیاں دے دیں
میرے ساقی کا انداز نظر یوں بھی ہے اور یوں بھی

عاشق رسول صلی الله ہو علیہ وسلم
شہزادہ غوث الوراح پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
جشن عید میلاد النبی مبارک ہو سب کو

راستے صاف بتاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں
لوگ محفل کو سجاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

اہلِ دل گیت یہ گاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں
آنکھیں رہ رہ کے اُٹھاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

اُن کی آمد کے پیامی ہیں صبا کے جھونکے
پھول شاخوں کو ہلاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

اُن کے جلوں سے نکھرنے لگی دل کی رونق
میری تقدیر جگاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

کہکشاں ، راہ گزر ، چاند ، ستارے ، ذرّے
سب چمک کر یہ دکھاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

مرحبا صلِ علیٰ کی ہیں صدائیں لب پر
ہم تو صدقے ہوئے جاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

اہلِ ایماں کے لبوں پر ہے درود و سلام
یومِ میلاد مناتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

دل کو جلوں کی طلب آنکھ کو طیبہ کی لگن
دیکھئے مجھ کو بُلاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

اپنے شاہکار پہ خلاّقِ دو عالم کو ہے ناز
انبیاء جُھومتے جاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

چاند تاروں میں نصیر آج بڑی ہل چل ہے
یہی آثار بتاتے ہیں کہ آپ آتے ہیں

صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

کلام : شاعرِ ہفت زباں پیر سیّد نصیر الدین نصیر گیلانی گولڑہ شریف

آمدِ مصطفیٰ مرحبا مرحبا۔
 
تجھ کو نصیر اب کیا خوف دوزخ
ماہ مدینہ وہ شاہ والا ہے
جس کے دم سے جگ میں اجالا
سب کا معلم ایسا اک امی
استاد جس کا خود حق تعالیٰ
امت میں جس کی ٹھہرا برابر
ادنیٰ سے ادنیٰ اعلیٰ سے اعلیٰ
ضربت سے توحید کی جس نے توڑا
شرک جلی کا مضبوط تالا
روتے ہووں کو جس نے ہنسایا
گرتے ہووں کو جس نے سنبھالا
جس کو عمر نے بس دے دیا دل
جانچا نہ پرکھا دیکھا نہ بھالا
پیوستہ باہم محراب ابرو
وہ گرد عارض زلفوں کا ہالا
ہر لمحہ جس کا اولیٰ سے اولیٰ
ہر آن میں جو بالا سے بالا
دیکھا نہ اب تک چشم فلک نے
ایسا انوکھا ایسا نرالا
ایمان وتقویٰ معیار عزت
وجہ فضیلت گورا نہ کالا
کنج لحد ہو پل ہوکہ میزاں
ہر جا چلے گا تیرا حوالا
جس کو ڈبویا موج الم نے
ٹھوکر سے تو نے اس کو اچھالا
تیرا بلایا مقبول داور
مردود یزداں تیرا نکالا
پانی کے ہوتے پانی کو ترسا
دلبند زھرا نازوں کا پالا
درباں جو الجھا باب نبی پر
اس نے کہا قم میں نے کہا لا
تجھ کو نصیر اب کیا خوف دوزخ
پل پہ کھڑا ہے خود کملی والا

شاعر حق زباں شاہ نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ الله علیہ
 
کیا ہے کسی سے کام تمھیں دیکھنے کے بعد
سب کو میرا سلام تمھیں دیکھنے کے بعد
جس کو بھی تو نے جام محبت پلا دیا
وہ کیا کرے گا جام تمھیں دیکھنے کے بعد
میری راہ حیات کے دشوار مرحلے
حل ہو گئے تمام تمھیں دیکھنے کے بعد
ہم آکے تیرے شہر سے واپس نہ جایئں گے
یہ فیصلہ کیا ہے تمھیں دیکھنے کے بعد
لاکھوں حسین سامنے آئے نگاہ نہ کی
آنکھوں کو سیہ لیا ہے تمھیں دیکھنے کے بعد
محمود کا ایاز تو بس ایک ہی رہا
لاکھوں بنے ایاز تمھیں دیکھنے کے بعد
 
دونوں عالم میں ہے دن رات اجالا تیرا
چھب انوکھی ہے تری حسن نرالا تیرا
غنچہ و گل میں ترے نقش پا کی جھلک
ہے بہار چمنستاں میں اجالا تیرا
مظہر نور ازل مصدر انوار ابد
از ازل تا بہ ابد نور دو بالا تیرا
اے شہ حسن دو عالم ترے قدموں پہ نثار
خود بھی شیدائی ہے الله تعالیٰ تیرا
زینت بزم جہاں صورت زیبا تیری
سرو گلزار حقیقت قد بالا تیرا
جس جگہ تیری جھلک ہو تری رعنائی
جا ٹھہرتا ہے وہیں دیکھنے والا تیرا
شب معراج ہے عنوان تیری رفعت کا
ذات ارفع ہے تری ذکر ہے اعلیٰ تیرا
تو ہے وہ شمع ضیاء بار دو عالم کے لئے
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں کونین اجالا تیرا
میری مرقد سے نکیرین پلٹ جائیں گے
ان کو مل جائے گا جس وقت حوالا تیرا
فَسَيَكْفِيْكَهُمُ الله سے یہ بات کھلی
تو ہے الله کا الله تعالیٰ تیرا
حشر میں ایک قیامت مرے دل پر گزری
بن گئی بات وسیلہ جو نکالا تیرا
صدق دل سے ہے نصیر اہل طلب میں شامل
آسرا حشر میں ہے شہ والا تیرا

شاعر ہفت زباں علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ
 
خاتون جنت پہ لاکھوں سلام
گردشیں تھم گئیں محفلیں جم گئیں کملی والے کی نسبت پہ لاکھوں سلام
ایک دو تین کیا لاکھوں سر کٹ گئے انکی منصوص عزت پہ لاکھوں سلام
جس کو پا کر حلیمہ غنی ہو گئی آمنہ تیری دولت پہ لاکھوں سلام
زینب و مرتضیٰ پھر حسین و حسن اور خاتون جنت پہ لاکھوں سلام
چار یاران حضرت پہ ہر دم درود ان کے دور خلافت پہ لاکھوں سلام
شاہ بغداد غوث الوریٰ محی دیں آبروئے طریقت پہ لاکھوں سلام
کیجیے بند آنکیں نصیر اور پھر بھیجیے انکی صورت پہ لاکھوں سلام
مصطفی شان قدرت پہ لاکھوں سلام اولین نقشے خلقت پہ لاکھوں سلام

چراغ گولڑہ شاعر ہفت زباں پیر سید نصیر الدین نصیر رحمتہ الله علیہ
 
Top