پیدل شریف خان زرداری (سیاسیہ طنز و مزاح)

زیرک

محفلین
پیدل شریف خان زرداری
ہالینڈ کا وزیراعظم اکیلا سائیکل پر سرکاری دفتر جایا کرتا تھا، عمران خان پانچ سال وزیراعظم رہا تو پورا پاکستان سائیکل پر یا پیدل ہی دفتر جایا کرے گا۔ جانتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ جب کوئی 25 ہزار یا 50 ہزار خرچ کرنے نکلے گا یا بنک سے نکلوائے گا تو اس کے پیچھے ایف بی آر والے لگے ہوں گے کہ بتایئے کہ پھر پیسے کہاں سے آئے ہیں، نتیجہ بنکنگ سسٹم تباہ دے نہ کوئی بنک میں پیسے رکھے گا نہ نکلوائے گا۔ جب کوئی 25 ہزار یا 50 ہزار کی خریداری کرے گا تو ایف بی آر والا اسے زبردستی پکڑ کر ٹیکس کے جال یعنی نیٹ میں ڈالنے کے لیے باقاعدہ فری سٹائل کشتی کیا کرے گا، نتیجہ خریدار فرار، دکاندار بے کار اور کاروبار تباہ دے۔ جب کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل لینے نکلے گا تو پہلے تو ماضی کے مقابلے میں زیادہ ٹیکسز ادا کرے گا اور ایک ہفتے بعد ایف بی آر والے اسے بھی ٹیکس نیٹ میں گھسیڑ دیں گے، نتیجہ کار و موٹر سائیکل انڈسٹری کی تباہی، نتیجہ کار انڈسٹری تباہ، لوگ بیروزگار۔ دنیا پہلے ہی پاکستانی کار مینوفکچررز کے کارٹل کے ہاتھوں تنگ ہے، اب سیانے حکمران کی طرف سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ ہائبرڈ کاریں خریدیں، جس کی ایک مثال ملائیشیا کی پروٹان ہے جس کا وزیراعظم عمران خان کو آج تحفہ بھی ملا ہے، دینے والے کا نام ڈاکٹر مہاتر محمد ہے، پہلی بات تو یہ کہ اب ایسا کون ملک ریاض کا ہم پلہ ہو گا جو 38 لاکھ کی پروٹان خرید سکے گا؟ جب ایسی پالیسیوں سے ملک کا کاروبار تباہ و برباد کر دیا جائے گا تو مجھے بتائیں کہ خزانہ بھرنے کے لیے ریونیو کیسے حاصل ہو گا؟ اس سوال کا جواب آپ کو کوئی حکومتی وزیر یا حامی نہیں دے پائے گا۔ حکومت آسان حل کی طرف نہیں جائے گی کہ چلیں ملک مشکل معاشی صورت حال میں ہے، چلیں سب مل کر قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ اس سال سبھی پاکستانی ہر شے کی خریداری پر ٪25 ویلیو ایڈڈ ٹیکس ادا کریں، اگلے سال کم کر کے ٪23 اور اس سے اگلے سال اسے مزید کم کر کے ٪20 کر دیں گے تاکہ ایک سادہ و آسان طریقے سے قومی خزانے میں ریونیو آتا رہے، لیکن حکومت تو شاید کسی خودکش طریقے سے 70 سالہ پرانے کینسر کو جڑ اکھاڑنے پر جتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، نتیجہ پیسے والے ملک ریاض وغیرہ کی طرح پیسہ باہر منتقل کر چکے ہیں، اسے لے دے کر غریب عوام کا ہی گلہ کاٹا جا رہا ہے اور کاڑا جاتا رہے گا، پھر چند سال بعد میرے منہ میں خاک منظر کچھ یوں ہو گا کہ سب دال روٹی بلکہ چٹنی روٹی ہی کھا رہے ہوں گے بشرطیکہ زندہ رہے کیونکہ ہر شے مہنگی ہو کر خریدار کی پہنچ سے باہر چکی ہو گی، پٹرول ہر ماہ مہنگا کر دیا جاتا ہے، اس لیے جو کچھ سکت رکھتے ہوں گے ان کے لیے آئندہ سائیکل ہی بطور سواری ایک آپشن رہ جاتی ہے، یوں حکومتی پالیسیوں کے طفیل ہر پاکستانی ہالینڈ کے وزیراعظم کی برابری کا ہو جائے گا اور یقین کریں کہ پاکستان کا سب سے دولتمند شخص وہ ہو گا جس کے پاس سائیکلوں کی دکان ہو گی۔ اور جو خیر سےمیری طرح کا پھکڑ ہو گا وہ تو سائیکل بھی نہیں خرید سکے گا، پھر وہ اپنے لیڈروں کو یاد کر کے اپنا نام رکھے گا پیدل شریف خان زرداری۔
 
Top