پہنچ سکا نہ مری گرد کو گمان مرا ٭ راحیلؔ فاروق

پہنچ سکا نہ مری گرد کو گمان مرا
خود اپنی سوچ سے آگے ہے کاروان مرا

ہوا تو ایک ہوا دشمن آسمان مرا
کسے پڑی ہے کہ لے ورنہ امتحان مرا

ادھر درازئ گیسو ادھر بیان مرا
سنو کوئی کہ فسانہ ہے داستان مرا

شمار کر کے ذرا اپنی دھڑکنیں دیکھو
تمھارے پاس بھی ہے ایک ترجمان مرا

مری اڑائی ہوئی دھول بیٹھنے کی نہیں
زمانے ڈھونڈتے رہ جائیں گے نشان مرا

سنا ہے گھر پہ کوئی ملنے والے آئے تھے
مکان بھول گئے ہوں گے مہربان مرا

مجھے یہ خدشہ کہ وہ داستاں سنیں نہ سنیں
انھیں یہ ڈر کہ نہ ہو ذکر درمیان مرا

کہوں تو کہہ نہ سکوں چپ رہوں تو رہ نہ سکوں
غزل زبان مری عشق بےزبان مرا

لبوں کے قفل میں راحیلؔ ہے قیامت بند
سہار پائیں گے محشر نہ دو جہان مرا

راحیلؔ فاروق​
 
Top