پہلی عالمی دہشت گردی کی 68 ویں سالگرہ --- منوبھائی

الف نظامی

لائبریرین
عالمی دہشت گردی کی دہشت زدگی سے بچنے کیلئے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما دنیا اور انسانی زندگی کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور اکلوتی سپر پاور امریکہ نے 68 سال پہلے 1945ء کے اگست کی چھ تاریخ کو جاپان کے صنعتی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے کی شکل میں دنیا کی پہلی سب سے زیادہ تباہ کن اور خون ریز دہشت گردی کا مظاہرہ کیا تھا جس سے پوری دنیا نے آج کے دن مکمل آگاہی اور دہشت حاصل کی ہوگی۔ اس وقت میری عمر بارہ سال تھی اور میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اس حادثے کے دو سال بعد پاکستان وجود میں آیا تھا ،تین سال بعد عوامی جمہوریہ چین وجو دمیں آیا تھا اور اسرائیل وجود میں لایا گیا تھا اور عربوں کے سینے میں چھرے کی طرح گھونپا گیا تھا۔
امریکی صدر بیری ٹرومین نے اطلانٹک کے وسط میں یو ایس ایس اگسٹا سے اعلان جاری کیا تھا کہ
دنیا کے سب سے زیادہ تباہ کن بم سے دو ہزار گنا زیادہ طاقت کے ایٹم بم نے جاپان کے جنگی اسلحہ تیار کرنے والے صنعتی شہر ہیروشیما کے پرخچے اڑا دیئے ہیں
۔
بی بی سی نے اس بم کی تباہی اور انسانی زندگیوں کے تلف ہونے کا کوئی اندازہ جاری کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی کیونکہ پورا ہیروشیما دھوئیں اور گرد و غبار کی لپیٹ میں تھا۔

ایٹم بم امریکی جنگی طیارے بی 29 سپر فورٹرس سے اٹھارہ بج کر پندرہ منٹ پر گرایا گیا تھا اور طیارے کے عملے نے زمین سے غبار کا ایک مینار اٹھتے ہوئے دیکھا تھا۔ امریکی صدر ٹرومین نے کہا کہ ایٹم بم دنیا کی بنیادی طاقت کو قابو میں رکھنے والی طاقت ہے۔ امریکہ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جرمنی سے پہلے جوہری توانائی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، امریکی صدر نے جاپان کو خبردار کیا کہ وہ جاپان کی جنگ لڑنے کی طاقت کو سلب کر سکتا ہے۔

1945ء سے اب تک کے 68 سالوں میں یہ انکشاف نہیں ہو سکا کہ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ کیوں کیا تھا؟ جبکہ اس وقت تک جاپان جنگ میں اپنی شکست تسلیم کر چکا تھا اور عالمی امن کے مذاکرات شروع ہونے والے تھے۔ گزشتہ 68 سالوں کی تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاکی پر ایٹمی حملوں کے ذریعے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا ا علان کیا تھا جو آج تک بغداد اور کابل میں جاری ہے اور غالباً اگلے سال کابل سے ناٹو فوجوں کے انخلاء کے بعد ”عرب ملکوں کی بہار“ کے عنوان سے چوتھی عالمی جنگ کے آغاز کا اعلان کر سکتا ہے۔

امریکہ نے 68 سال پہلے ایٹمی حملوں کے ذریعے اقوام عالم میں اپنی ”اینٹری“ کا اعلان کیا تھا،
پوری دنیا پر ڈالر اور اسلحہ کا رعب ڈالنے اور ٹیکنالوجی کی دھاک بٹھانے کی کامیاب کوشش کی تھی
۔

ڈالر، اسلحے اور ٹیکنالوجی کا یہ رعب امریکہ اور اس کے مغربی ساتھی اس تمام عرصے میں جو نصف صدی سے زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ فلموں، کتابوں،ٹیلی ویژن کے پروگراموں یہاں تک کہ بچوں کے کارٹون پروگراموں کے ذریعے بھی پوری دنیا کے ذہنوں اور دماغوں پر تھونپنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں لیکن گزشتہ ایک دہائی سے دنیا کی اکلوتی سپر پاور کا 68 سال پہلے استعمال میں آنے والا ہتھیار، ”دہشت گردی“ خود اس کے خلاف استعمال ہو رہا ہے اور امریکہ دہشت گردی کے خلاف دہشت گردی کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید وسعت اور شدت لانے کا ذمہ دار ہو رہا ہے۔

کچھ بعید نہیں بلکہ بہت حد تک ممکن اور قرین قیاس بھی ہے کہ ماضی کی ”سپر پاور“ اگر وہ طاقت ہوتی ہے جو کم از کم عرصہ میں زیادہ سے زیادہ انسانی زندگیاں تلف کرنے کی صلاحیت اور ٹیکنالوجی رکھتی ہے تو
مستقبل کی سپر پاور وہ کہلائے گی جو کم از کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ انسانی زندگی کو بچانے کی طاقت اور اہلیت رکھتی ہو گی۔ آئندہ کی ایک دو دہائیوں میں یہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان شاء اللہ!
 
آخری تدوین:

Fawad -

محفلین
دوسری جنگ عظيم کے دوران امريکہ کی جانب سے جاپان پر کيے جانے والے حملے کی وجوہات کے ضمن ميں کيا جانے والا تجزيہ ميرے نزديک خاصا حيران کن ہے۔ اس سے محض تاريخی واقعات کے حوالے سے کم علمی اور محدود سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔


کالم ميں ديے جانے والے دلا‏ئل کے برعکس حقيقت يہ ہے کہ سال 1941 سے امريکہ جنگ عظيم دوئم ميں شموليت سے سخت گريزاں تھا۔ بلکہ امريکہ ميں بڑے پيمانے پر ايک سوچ کا غلبہ تھا جس کے ماننے والوں کو آئ سوليشنسٹس کہا جاتا تھا۔ ان کے نزديک جنگ عظيم اول ميں شرکت کی امريکہ نے بڑی بھاری قيمت ادا کی تھی اس ليے امريکہ کو معاشی استحکام پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور امريکی صدر روزويلٹ کے "نيو ڈيلز پروگرامز" کو نافذ کرنا چاہيے۔ آئ سوليشنسٹس امريکی ايک مزيد مہنگی اور طويل جنگ ميں شموليت کے سخت مخالف تھے۔ ان امريکی شہريوں کی تحريک اور لابنگ اتنی متحرک اور مقبول تھی کہ اس وقت کی امريکی خارجہ پاليسی ميں بھی اس کی واضح جھلک موجود تھی۔ يہاں تک کہ کانگريس نے "نيوٹريلی ايکٹ آف 1935" کے نام سے باقاعدہ ايک قانون کی منظوری بھی تھی جس کے تحت جنگ ميں شامل ممالک کو فنڈز اور مال واسباب کی ترسيل کے عمل کو غير قانونی قرار دے ديا گيا تھا۔


انيس سو تيس کی دہائ ميں امريکی کانگريس کی جانب سے جو "نيوٹريليٹی ايکٹس" منظور کيے گئے تھے وہ براہراست ايشيا اور يورپ ميں ان منفی عوامل کے ردعمل ميں تھے جو دوسری جنگ عظيم کا سبب بنے تھے۔ ان قوانين کی منظوری کا محرک پہلی جنگ عظيم ميں امريکی شرکت کے منفی معاشی اثرات اور اس کے نتيجے ميں امريکہ ميں بتدريج پروان چڑھتی ہوئ يہ سوچ تھی کہ امريکہ کو لاتعلق رہنا چاہيےاور کنارہ کشی کی روش اپنانی چاہيے تا کہ اس بات کو يقینی بنايا جائے کہ امريکہ بيرونی تنازعات ميں شامل نہ ہو۔


مثال کے طور پر "نيوٹريليٹی ايکٹ" ميں يہ شق بھی شامل تھی کہ امريکی کسی ايسے بحری جہاز پر سوار نہيں ہوں گے جس پر ايسے ملک کا جھنڈا ہو گا جو يا تو خود جنگ ميں شامل ہو يا جنگ ميں ملوث ممالک کے ساتھ اسلحے کے لين دين ميں ملوث ہو۔


يہ وہ عمومی صورت حال اور مقبول رائے عامہ تھی جو دوسری جنگ کے دوران امريکہ ميں پائ جاتی تھی۔ اس تناظر ميں يہ دعوی کرنا کہ امريکہ جان بوجھ کر اپنے جنگی عزائم کی تسکين يا اپنی جارج پسندی کی وجہ سے دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا، سراسر لغو اور غلط بيانی ہے۔


حقيقت يہ ہے کہ اس زمانے ميں امريکہ کی لاتعلق رہنے کی پاليسی اور بڑے بڑے عالمی تنازعات ميں مداخلت نہ کرنے کی روش کے سبب اکثر عالمی سطح پر ہميں شديد تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا تھا۔ يہ حقيقت اس دور کے بے شمار کالمز، جرنلز اور لٹريچر سے عياں ہے۔ اس ضمن ميں ايک مثال


http://s16.postimg.org/nwq0pjffp/406px_Flagg_Wake_Up_America.jpg


دوسری جنگ عظيم کے دور کے اب بھی ايسے بے شمار افراد موجود ہيں جو اس حقيقت کی گواہی دے سکتے ہيں کہ امريکہ سال 1939 ميں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظيم ميں اس وقت تک شامل نہيں ہوا تھا جب تک کہ دسمبر 7 1941 کو جاپان نے پرل ہاربر کے مقام پر امريکہ پر حملہ نہيں کر ديا تھا۔ اس کے چار روز کے بعد ہٹلر نے باقاعدہ امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر ديا تھا۔ امريکہ کی جانب سے ايٹم بم کے استعمال کا فيصلہ يقينی طور پر ايک انتہائ دشوار فيصلہ تھا اور اس کا بنيادی مقصد اس مت۔بادل صورت حال کو روکنا تھا جس ميں جاپان پر زمينی حملہ کيا جاتا اور جس کے نتيجے ميں دونوں جانب بے پناہ جانی نقصان ہوتا جو برسا برس جاری رہتا۔ يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ جولائ 1945 ميں اتحادی افواج کی جانب سے جاپان کو ہتھيار ڈال کر شکست تسليم کرنے کا موقع فراہم کيا گيا تھا جسے جاپان کی حکومت نے مسترد کر ديا تھا۔


سال 1945 کے زمينی حقائق اور واقعات کا القائدہ کے مقاصد اور کاروائيوں اور اس عالمی دہشت گردی کے عفريت سے کوئ موازنہ نہیں ہے جو آج دنيا کے سامنے موجود ہے۔۔ اسامہ بن لادن اور ان کی دہشت گرد تنظيم القائدہ نے 911 کے واقعات سے کئ برس قبل امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر ديا تھا۔ ايٹمی ہتھيار اسامہ بن لادن جيسے دہشت گرد کے ہاتھوں ميں اس ليے خطرناک تصور کيا جاتا ہے کيونکہ وہ بے دريخ اس ہتھيار کو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کرے گا۔ امريکہ نہ ہی اس کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے کوئ مقاصد اس حوالے سے ہيں۔


سال 1945 ميں امريکہ کے سامنے صرف دو آپشنز تھے ، يا تو جاپان ميں ايک بڑی فوج اتار کر باقاعدہ ايک طويل جنگ کا آغاز کيا جائے يا ايٹمی ہتھيار کا استعمال کر کے جاپان کو فوری طور پر شکست پر مجبور کيا جائے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہيروشيما اور ناگاساکی ميں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت ايک بہت بڑا سانحہ تھا ليکن يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ طويل المدت زمينی جنگ کی صورت ميں انسانی جانوں کا نقصان اس سے کہيں زيادہ ہوتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s12.postimg.org/vfb6pryh9/eid_urdu.jpg
 

جیہ

لائبریرین
مجھے سیاست سے تو کوئی سرو کار نہین۔ مگر یہ صاحب یہاں جس کام کے لئے آتے ہیں اس کے بارے مین پشتو ایک بر محل محاورہ ہے۔ ترجمہ ہے۔۔۔۔

فضلے کی گندگی کو پیشاب سے دھونا۔۔۔ :)
 
دوسری جنگ عظيم کے دوران امريکہ کی جانب سے جاپان پر کيے جانے والے حملے کی وجوہات کے ضمن ميں کيا جانے والا تجزيہ ميرے نزديک خاصا حيران کن ہے۔ اس سے محض تاريخی واقعات کے حوالے سے کم علمی اور محدود سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔


کالم ميں ديے جانے والے دلا‏ئل کے برعکس حقيقت يہ ہے کہ سال 1941 سے امريکہ جنگ عظيم دوئم ميں شموليت سے سخت گريزاں تھا۔ بلکہ امريکہ ميں بڑے پيمانے پر ايک سوچ کا غلبہ تھا جس کے ماننے والوں کو آئ سوليشنسٹس کہا جاتا تھا۔ ان کے نزديک جنگ عظيم اول ميں شرکت کی امريکہ نے بڑی بھاری قيمت ادا کی تھی اس ليے امريکہ کو معاشی استحکام پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور امريکی صدر روزويلٹ کے "نيو ڈيلز پروگرامز" کو نافذ کرنا چاہيے۔ آئ سوليشنسٹس امريکی ايک مزيد مہنگی اور طويل جنگ ميں شموليت کے سخت مخالف تھے۔ ان امريکی شہريوں کی تحريک اور لابنگ اتنی متحرک اور مقبول تھی کہ اس وقت کی امريکی خارجہ پاليسی ميں بھی اس کی واضح جھلک موجود تھی۔ يہاں تک کہ کانگريس نے "نيوٹريلی ايکٹ آف 1935" کے نام سے باقاعدہ ايک قانون کی منظوری بھی تھی جس کے تحت جنگ ميں شامل ممالک کو فنڈز اور مال واسباب کی ترسيل کے عمل کو غير قانونی قرار دے ديا گيا تھا۔


انيس سو تيس کی دہائ ميں امريکی کانگريس کی جانب سے جو "نيوٹريليٹی ايکٹس" منظور کيے گئے تھے وہ براہراست ايشيا اور يورپ ميں ان منفی عوامل کے ردعمل ميں تھے جو دوسری جنگ عظيم کا سبب بنے تھے۔ ان قوانين کی منظوری کا محرک پہلی جنگ عظيم ميں امريکی شرکت کے منفی معاشی اثرات اور اس کے نتيجے ميں امريکہ ميں بتدريج پروان چڑھتی ہوئ يہ سوچ تھی کہ امريکہ کو لاتعلق رہنا چاہيےاور کنارہ کشی کی روش اپنانی چاہيے تا کہ اس بات کو يقینی بنايا جائے کہ امريکہ بيرونی تنازعات ميں شامل نہ ہو۔


مثال کے طور پر "نيوٹريليٹی ايکٹ" ميں يہ شق بھی شامل تھی کہ امريکی کسی ايسے بحری جہاز پر سوار نہيں ہوں گے جس پر ايسے ملک کا جھنڈا ہو گا جو يا تو خود جنگ ميں شامل ہو يا جنگ ميں ملوث ممالک کے ساتھ اسلحے کے لين دين ميں ملوث ہو۔


يہ وہ عمومی صورت حال اور مقبول رائے عامہ تھی جو دوسری جنگ کے دوران امريکہ ميں پائ جاتی تھی۔ اس تناظر ميں يہ دعوی کرنا کہ امريکہ جان بوجھ کر اپنے جنگی عزائم کی تسکين يا اپنی جارج پسندی کی وجہ سے دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا، سراسر لغو اور غلط بيانی ہے۔


حقيقت يہ ہے کہ اس زمانے ميں امريکہ کی لاتعلق رہنے کی پاليسی اور بڑے بڑے عالمی تنازعات ميں مداخلت نہ کرنے کی روش کے سبب اکثر عالمی سطح پر ہميں شديد تنقيد کا نشانہ بنايا جاتا تھا۔ يہ حقيقت اس دور کے بے شمار کالمز، جرنلز اور لٹريچر سے عياں ہے۔ اس ضمن ميں ايک مثال


http://s16.postimg.org/nwq0pjffp/406px_Flagg_Wake_Up_America.jpg


دوسری جنگ عظيم کے دور کے اب بھی ايسے بے شمار افراد موجود ہيں جو اس حقيقت کی گواہی دے سکتے ہيں کہ امريکہ سال 1939 ميں شروع ہونے والی دوسری جنگ عظيم ميں اس وقت تک شامل نہيں ہوا تھا جب تک کہ دسمبر 7 1941 کو جاپان نے پرل ہاربر کے مقام پر امريکہ پر حملہ نہيں کر ديا تھا۔ اس کے چار روز کے بعد ہٹلر نے باقاعدہ امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر ديا تھا۔ امريکہ کی جانب سے ايٹم بم کے استعمال کا فيصلہ يقينی طور پر ايک انتہائ دشوار فيصلہ تھا اور اس کا بنيادی مقصد اس مت۔بادل صورت حال کو روکنا تھا جس ميں جاپان پر زمينی حملہ کيا جاتا اور جس کے نتيجے ميں دونوں جانب بے پناہ جانی نقصان ہوتا جو برسا برس جاری رہتا۔ يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ جولائ 1945 ميں اتحادی افواج کی جانب سے جاپان کو ہتھيار ڈال کر شکست تسليم کرنے کا موقع فراہم کيا گيا تھا جسے جاپان کی حکومت نے مسترد کر ديا تھا۔


سال 1945 کے زمينی حقائق اور واقعات کا القائدہ کے مقاصد اور کاروائيوں اور اس عالمی دہشت گردی کے عفريت سے کوئ موازنہ نہیں ہے جو آج دنيا کے سامنے موجود ہے۔۔ اسامہ بن لادن اور ان کی دہشت گرد تنظيم القائدہ نے 911 کے واقعات سے کئ برس قبل امريکہ کے خلاف اعلان جنگ کر ديا تھا۔ ايٹمی ہتھيار اسامہ بن لادن جيسے دہشت گرد کے ہاتھوں ميں اس ليے خطرناک تصور کيا جاتا ہے کيونکہ وہ بے دريخ اس ہتھيار کو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کے لیے استعمال کرے گا۔ امريکہ نہ ہی اس کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے کوئ مقاصد اس حوالے سے ہيں۔


سال 1945 ميں امريکہ کے سامنے صرف دو آپشنز تھے ، يا تو جاپان ميں ايک بڑی فوج اتار کر باقاعدہ ايک طويل جنگ کا آغاز کيا جائے يا ايٹمی ہتھيار کا استعمال کر کے جاپان کو فوری طور پر شکست پر مجبور کيا جائے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہيروشيما اور ناگاساکی ميں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت ايک بہت بڑا سانحہ تھا ليکن يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ طويل المدت زمينی جنگ کی صورت ميں انسانی جانوں کا نقصان اس سے کہيں زيادہ ہوتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://s12.postimg.org/vfb6pryh9/eid_urdu.jpg
فضول اور بے سروپا باتیں کرنا آپ کی عادت ہے
اور آپ اپنی اس عادت پر پوری ڈھٹائی سے قائم ہیں
اس مستقل مزاجی پر آپ کو سلام پیش کرتا ہوں
 

arifkarim

معطل
اس وقت میری عمر بارہ سال تھی اور میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اس حادثے کے دو سال بعد پاکستان وجود میں آیا تھا ،تین سال بعد عوامی جمہوریہ چین وجودمیں آیا تھا اور اسرائیل وجود میں لایا گیا تھا اور عربوں کے سینے میں چھرے کی طرح گھونپا گیا تھا۔​
اسرائیل بھی اپنے آپ وجود میں آیا تھا، کسی بیرونی قوت نے لایا نہیں تھا۔ بیک وقت 5 عرب ممالک نے نئی خود مختار ریاست ہائے اسرائیل پر حملہ کیا اور ہار گئے۔ اب بھگتو:
http://en.wikipedia.org/wiki/1948_Arab–Israeli_War
 

زلفی شاہ

لائبریرین
آج کل کے دور میں کوئی بھی ملک خود بخود معرض وجود میں نہیں آسکتا جب تک کہ اس کے پیچھے عالمی قوتوں کی مکروہ اور شیطانی من مانی چالیں موجود نہ ہوں۔
 
Top