پہلی اردو یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ

بافقیہ

محفلین
پہلی اردو یونیورسٹی، جامعہ عثمانیہ
میر حسین علی امام​

(جامعہ عثمانیہ کے قیام کو اگست میں سوسال ہو گئے۔ یہ جامعہ کیا تھی، نئی نسل کے لیے یہ جاننا ضروری ہے)


حیدر آباد دکن شروع ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ قطب شاہی عہد میں مدرسہ شجاعیہ نہایت مشہور درسگاہ تھی۔ آصف جا ہی عہد کی ابتداء میں نواب ناصر الدولہ کے دور میں مدرسہ طبابت 1845ء میں قائم کیا گیا اور ڈاکٹری کی تعلیم اردو میں ہونے لگی 1854ء میں سالار جنگ اول نے مدرسہ دارالعلوم قائم کیا جو ریاست حیدر آباد میں تعلیمی تاریخ کا پہلا منظم، مستقل قدم تھا۔ 1870ء میں نواب عماد الملک ناظم تعلیمات ہوئے۔ 1878ء میں حیدرآباد کالج کا قیام عمل میں آیا جو بعد میں نظام کالج میں تبدیل ہوا۔ 1884ء میں نواب میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس نے فارسی کے بجائے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا اور یوں اردو کو ترقی حاصل ہونی شروع ہوئی۔
نواب رفعت یار جنگ نے قومی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اردو کی جامعہ کے قیام کی پہلی تحریک 1870ء کی دہائی کے آغاز میں شروع کی۔ جمال الدین افغانی 1879ء میں حیدرآباد آئے اور اپنے قیام کے دوران مشرقی علوم کی درس گاہ کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ جمال الدین افغانی کے دوست مسٹر بلنٹ نے 1883-85ء میں نظام سادس کو خطوط لکھے اور علاقائی زبان میں تعلیمی درسگاہ کی ضرورت کی طرف توجہ دی۔ 1885ء میں باغ عامہ میں منعقد جلسہ تقسیم اسناد نظام کالج جس کی صدارت نواب میر محبوب علی خان نے کی۔ مسٹر بلنٹ نے نظام یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ 1894ء میں نواب سروقار الامراء نے جلسہ تقسیم انعامات میں نظام کالج میں مشرقی یونیورسٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔
مدرسہ دارالعلوم جس کا قیام 1856ء میں عمل میں آیا تھا اس کے سابق طلبہ میں محمد مرتضیٰ، عبدالقدیر صدیقی، ملا عبدالباسط، رضی الدین کیفی، اکبر علی مدیر صحیفہ نے مل کر 1901ء میں انجمن طلبۂ قدیم دارالعلوم قائم کی اور تعلیمی اصلاحات پر زور دیا۔ترقی طبع (1902ء) مولوی عبدالقادر (نصیر الدین ہاشمی کے والد) نے اصلاحات تعلیمات حیدر آباد کے عنوان سے سلسلہ مضامین لکھے۔انجمن دارالعلوم کے قیام کا ساٹھ سالہ جشن 1913ء میں اہتمام سے منایا اور اس میں نظام یونیورسٹی کے قیام کی تجاویز پیش کیں اس انجمن کے اراکین نے 1914ء میں حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی جس کا پہلا اجلاس یکم مارچ 1915ء کو ٹائون ہال باغ عامہ میں ہوا جس کی صدارت متعمد تعلیمات سر اکبر حیدری نے کی 1917ء میں سراکبر حیدری نے ایک عرض یادداشت مرتبہ کی اور 24 اپریل 1917ء بمطابق 29 جمادی الثانی 1336ھ کو اعلیٰ حضرت میر عثمان خان کے حضور پیش کی گئی۔ اس عرض داشت میں جدید یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت بیان کرتے ہوئے غیر زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دینے کے نقصانات جو بیان کئے گئے ہیں بہت اہم ہیں عرض گذاشت کے اہم نکات یہ ہیں۔
1۔ غیر مادری زبان کے ذریعے سے حصول تعلیم میں دماغ پر بے جا اور غیر معمولی بار پڑتا ہے اور اس محنت اور وقت کے مقابلے میں جو اس پر صرف کیا جاتا ہے فائدہ بہت قلیل ہوتا ہے۔
2۔ طلبہ غیر زبان کی مشکلات اور اس کی اصطلاحات و محاوارت کو سلجھانے میں اس قدر الجھے رہتے ہیں کہ اصل مضمون فروگذاشت ہو جاتاہے اور تعلیم کا مدار حافظہ پر رہ جاتا ہے۔
3۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حافظہ کی مدد سے امتحان کی کامیابی اصل مقصد قرار پاتا ہے اور علم ایک ضمنی شے رہ جاتی ہے اور وہ کبھی جزو زندگی نہیں ہوتا۔
4۔ طبیعت کی جودت و جوت کند بلکہ اثر اوقات مفقود ہو جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ہمارا مایہ علم و فضل تقلیدانہ ترجمانی یا نقالی ہوتا ہے۔
5۔ فارغ التحصیل طلبہ صرف دفاتر سرکاری کے کام کے ہوتے ہیں۔ علمی ذوق پیدا نہیں ہونے پاتا نہ علمی مشاغل اور دیگر مفید پیشوں اور کاموں کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
6۔ موجودہ طریقہ تعلیم سے جو غیر زبان کے ذریعہ دی جاتی ہے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ جماعت میں بہ لحاظ خیالات ایک دریا حائل ہو گیا ہے اور بظاہر دیکھنے سے یہ یقین نہیں ہوتا کہ یہ ایک ملک کے باشندے ہیں اور ایک قوم کے افراد ہیں جدید خیالات اس تعلیم کی وجہ سے عام لوگوں تک پہنچ نہیں پاتے کیونکہ وہ ایک اجنبی اور غیر مانوس زبان میں مدفون ہیں۔ تعلیم یافتہ اصحاب جو ان خیالات کے حامل ہیں اپنی زبان میں ان کی ترجمانی سے قاصر اور معذور ہیں۔
7۔ ایک طرف ہماری تونیور سٹیاں اور درسگاہیں اپنے غلط طریقہ کی وجہ سے اور دوسری طرف ہمارے تعلیم یافتہ جو اس طریق کے معمول ہیں ملک میں عام طور پر علم کی روشنی پھیلانے میں ناکام رہے علم اس وقت تک نہیں رائج ہو سکتا جب تک کہ تعلیم کا ذریعہ اپنی زبان میں نہ ہو۔
8۔ اپنی زبان کے ذریعے سے تعلیم دینا ایک فطری اصول ہے اس کے برعکس غیر زبان کے ذریعے تعلم دینا فطرت کے خلاف ہے۔
میر عثمان علی خان کی تخت نشینی کی سالگرہ کے دن یعنی 28 اگست 1919ء کو اس کا قیام عمل میں لایا گیا باضابطہ تعلیم کا آغاز یکم محرم الحرام 1338ھ بمطابق 17 اگست 1919ء سے ہوا۔ کلیہ جامعہ عثمانیہ کا افتتاح 18 اگست 1919ء کو آغا منزل (آغا محمد حسن کی رہائش گاہ) واقع توپ کا سانچہ میں ہوا۔ حبیب الرحمان شیروانی صدر یار جنگ نے جلسہ کی صدارت کی سر اکبر حیدری نے فرمان پڑھ کر سنایا۔ 1923ء میں ایم اے اور ایل ایل بی کی تعلیم شروع کی گئی۔ 1924ء میں میڈیکل اسکول اور انجینئرنگ اسکول کو کالج کا درجہ دے کر عثمانیہ یونیورسٹی سے الحاق کیا گیا۔ 1926ء میں گرلز ہائی اسکول نامپلی کو بھی کالج کا درجہ دے کر عثمانیہ یونیورسٹی سے الحاق کیا گیا۔ 1926ء میں دائرۃ المعارف (جس کا قیام 1888ء میں ہوا تھا) کا انضمام جامعہ عثمانیہ سے ہوا۔ 1927ء سے ایم بی بی ایس کی جدید طبی تعلیم کا اردو میں آغاز ہوا۔ 1924ء میں یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ کا آغاز ہوا اور ایم ایس سی کی تعلیم شروع کی گئی۔ 1948 میں سقوط حیدرآباد کا عظیم سانحہ ہوا اور جامعہ عثمانیہ میں تعلیم اردو کے بجائے انگریزی میں شروع کی گئی۔
جامعہ عثمانیہ کے قیام سے پہلے ہی دارالترجمہ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ جدید سائنسی کتب کا فروغ اردو زبان میں ممکن ہو سکے۔ دارالترجمہ اور جامعہ عثمانیہ میں مختلف ماہرین علوم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مولوی عبدالحق، ڈکاٹر سید عبداللطیف، عبدالقدیر حسرت، ہارون خان شیروانی، عبدالحکیم، عبدالباری ندوی، الیاس برنی، ڈاکٹر میر ولی الدین، عبدالمجید صدیقی، نظم طباطبائی، عبدالقادر سروری، جعفر حسن، سجاد حسن، محمد نظام الدین، ضیاء الدین انصاری، عبدالستار جیسے علوم دفنون میں یگانہ ویکتا شہرت کی حامل ان شخصیات نے جامعہ عثمانیہ و دارالترجمہ کی آبیاری کی جامعہ عثمانیہ کا قیام، مشرقی علوم کی احیائے نو کی ممکنہ شعوری کوشش تھی۔ برطانوی، ہندوذہنیت کے خلاف مسلمانوں کو ملی تعلیمات، مذہبی اقدار جدید علوم سے آراستہ کرنے کی عملی کوشش، سقوط حیدر آباد نے جامعہ عثمانیہ سے اس کی روح لے لی۔ بھارت نے حیدر آباد پر قبضہ کرکے سب سے پہلے دارالترجمہ کو تہس نہس کیا۔....
 

عدنان عمر

محفلین
قومی زبان اردو کو اعلی درجات بالخصوص سائنسی مضامین کی تدریس کے لیے ذریعہِ تعلیم بنانے کا خواب پاکستان میں بھی ہنوز تشنہِ تکمیل ہے۔
 
Top