پھول چُن کر کہاں سے لا رہی ہو

وقار..

محفلین
تم جو اِتنے جتن جتا رہی ہو
خیر تو ہے کسے بنا رہی ہو
تم سے ملنے میں کتنی مشکل ہے
کتنی آسانی سے بتا رہی ہو
اور کتنوں کو رام کرنا ہے
کون سا بُت کدہ بنا رہی ہو
یہ تو کانٹوں کا شہر بھی نہيں ہے
شاہ زادی ہو اور تم لڑکی
اِک جولاہے سے دل لگا رہی ہو
شکل دیوی سی ہاتھ پریوں سے
تم بھی لگتا ہے اَپسرا رہی ہو
پاؤلو کو ابھی پڑھا نہيں ہے
اور کیمسٹری پڑھا رہی ہو
راہ گیروں نے وقت پوچھا ہے
تم اِنہیں راستہ بتا رہی ہو
سوچ لو عشق ہے مذاق نہيں
تم ہوا میں چراغ لا رہی ہو
پھر گلی میں یہ دُھوپ کیسی ہے
چھت پہ کپڑے اگر سُکھا رہی ہو
جب یہ طے ہے کہ بولنا نہيں ہے
پھر مری کال کیوں اُٹھا رہی ہو
اِن دنوں کس کی جان لینی ہے
اِن دنوں کس پہ جاں لُٹا رہی ہو
ایک لڑکے سے دل لگانا ہے
کتنے لڑکوں کو آزما رہی ہو
اب مرا ڈوبنا تو بنتا ہے
تم جو دریا دِلی دِکھا رہی ہو
یہ تمہیں نظم کرکے چھوڑیں گے
شاعروں کو گلے لگا رہی ہو

عمران عامی
 
Top