پھول رکھتے ہیں کتابوں میں وفا کے نام پر - رخسانہ نور

شمشاد

لائبریرین
پھول رکھتے ہیں کتابوں میں وفا کے نام پر
چھین لیتے ہیں جو سانسوں کو وفا کے نام پر

بے سبب کب ہاتھ پھیلایا کسی کے سامنے
بھیک اب کوئی نہیں دیتا خدا کے نام پر

اُس نے کرنوں کے بہانے دی تمازت دھوپ کی
دے رہا ہے وہ سزا، دیکھو جزا کے نام پر

بد نظر سے تو بچے لگ جائے تجھ کو میری عمر
ماں نے دی یہ بدعا مجھ کو دعا کے نام پر

کھڑکیاں کھولیں نہیں دیوار گھر کی توڑ دی
اتنا ہی وہ کر سکا تازہ ہوا کے نام پر

کیا کرے گا وہ جو دوراہے پہ تنہا رہ گیا
اپنی تو کٹ ہی رہی ہے بے وفا کے نام پر
(رخسانہ نورؔ)
 
Top