غالب پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب (مع شرح)

حسان خان

لائبریرین
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب
(یہ پوری غزل بہاریہ اور مسلسل ہے۔ بال کشا بہ معنی اڑنے کے لیے پر کھولنے والا۔ دل سے یہاں مراد ہے حوصلہ اور دست سے مراد ہے طاقت۔ شنا بہ معنی تیرنا۔ فرماتے ہیں پھر وہ خوشگوار موسم آیا کہ شراب کی لہریں اڑنے کے لیے پر کھولیں اور جوشِ شراب کا تماشا دکھائیں (شراب سے شرابِ شوق مراد ہے) نیز شراب کی لہریں اپنے جوش و خروش سے شراب کو تیرنے کا حوصلہ اور طاقت عطا کریں۔ تیرنے سے مراد ہے رندوں کے حلقے میں شراب کے دور کا چلنا۔ بط بہ معنی بطخ۔ شراب کی صراحی کو بطِ مے اکثر کہا جاتا ہے۔ مثلاً آتش فرماتے ہیں
فصلِ گل ہے چار دن ساقی تکلف ہے ضرور
پر جواہر کے بطِ مے کو لگایا چاہیے
موجِ شراب کو بال کشا بھی بطِ مے ہی کی رعایت سے کہا ہے۔ الفاظ کا تناسب قابلِ دید ہے۔)
پوچھ مت وجہِ سیہ مستیِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب
(سیہ مستی بہ معنی بدمستی۔ سائے کی رعایت سے بدمستی کو سیہ مستی کہا گیا۔ تاک بہ معنی انگور۔ انگور کے سائے کی خصوصیت اس لئے رکھی ہے کہ انگور سے شراب بنتی ہے۔ فرماتے ہیں اے ہم نشیں چمن والوں کی بدمستی کا سبب کیا پوچھتا ہے۔ اس موسم کا فیض ہی ایسا ہے کہ ہوا انگور کے سائے میں آ کر شراب کی لہریں بن جاتی ہے اور اسی کے اثر سے تمام چمن والے بدمست اور مدہوش ہو گئے ہیں۔ بہار کے فیض کو مبالغے سے بیان کیا ہے اور فیضِ بہار کے لیے یہ مبالغہ شعراء میں بہت مقبول ہے۔ عرفی نے اسی فیضِ بہار کی تعریف اس طرح کی ہے
اخگر از فیضِ ہوا سبز شود در منقل
یعنی ہوا کے فیض سے چنگاری بھی انگیٹھی میں سبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ اسی سبزہ زار کا بیان شعرِ مندرجہ ذیل میں دیکھو
مے سبز، شیشہ سبز، سبو سبز، جام سبز
ساقی شراب دے کہ ہے موسم بہار کا
یہ سب خیالات اسی قسم کا اغراق (مبالغہ) ہیں جو مرزا کے مذکورہ شعر میں پایا جاتا ہے۔)
جو ہوا غرقۂ مے بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب
(موجِ شراب کو ردیف رکھ کر ایسی مشکل اور تنگ زمین میں اس قسم کا مستانہ کلام مرزا کا ہی حصہ ہے۔ فرماتے ہیں جو شراب میں غرق ہو گیا یعنی اُس کے نشے میں ڈوب گیا وہ بڑا خوش نصیب ہے۔ اس شرابِ شوق کی لہریں سر سے بھی گزر جائیں تو بھی ہما کے سائے کی طرح مے کش کو بلند اقبال بنا دیتی ہے۔ سر سے گزر جانا، ان الفاظ سے ایک مطلب تو یہ ہے کہ دماغ میں چڑھ جائیں اور مدہوش کر دیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ مے کشی میں مے کش کو تباہ کر دیں۔ دونوں صورتوں میں وہ خوش نصیب ہوتا ہے یعنی شرابِ شوق سے مدہوش ہونا بہت بڑا مقامِ عشق ہے۔)
ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب
(کہاں تک خیال دوڑایا ہے۔ فرماتے ہیں برسات کا موسم وہ موسم ہے کہ اگر ہوا کا فیض زندگی کی لہروں کو شراب کی لہریں بنا دے تو کوئی تعجب نہیں۔ زندگی گزرنے والی چیز ہے۔ اسی حرکت کو وجۂ شبہ قرار دے کر اسے موجِ ہستی کہا گیا۔ مقصودِ کلام یہ ہے کہ اُس موسم میں ہوا کے فیض سے زندگی خود ہی مست نہیں ہے، اس میں مستی پیدا کرنے والا اثر بھی موجود ہے اور وہ اثر ایسا نشاط آور ہے کہ سب کو مست بنا رہا ہے۔ بہار کے ساتھ برسات کا ذکر اس شعر میں اس لئے آیا ہے کہ ایران میں بہار اور برسات اکھٹے آتے ہیں اور اردو پر بھی یہی فارسی خیالات چھائے ہوئے ہیں۔)
چار موج اٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سو
موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب
(شعر حدِ توصیف سے بالاتر ہے۔ چار موجیں جو تلاش کی گئی ہیں، محاورۂ زبان میں بہت مسلّم اور مقبول ہیں۔ پھر خوبی یہ ہے مصرعِ ثانی میں وہ کسی تکلف اور آورد کے بغیر بندش میں آ گئی ہیں۔ فرماتے ہیں اس موسم میں خوشی اور نشاط کا جو طوفان آیا ہوا ہے، اس سے چاروں طرف یعنی دنیا کے ہر گوشے میں چار قسم کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور اپنے تنوع سے عالم کو دلکش منظر بنا رہی ہیں۔ یہ چار قسم کی لہریں دوسرے مصرع میں بیان کی ہیں۔ گل میں موج کا ثبوت یہ ہے کہ اس کی بو چاروں طرف پھیلتی ہے اور اس کا رنگ چاروں طرف دلکشی پھیلاتا ہے۔ شفق میں اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی حرکت سے ہر صبح اور ہر شام جلوہ گر ہوتی رہتی ہے۔ صبا کی حرکت سب جانتے ہیں۔ جب حرکت موجود ہو تو موج سے انکار نہیں ہو سکتا۔ شراب کی لہر کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے جوش اور تندی سے دل و دماغ میں حرکت پیدا کرتی ہے اور یہ حرکت اس کی موجِ متحرک کا ثبوت ہے کیونکہ متحرک چیز ہی ساکن کو متحرک کر سکتی ہے۔)
جس قدر روحِ نباتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں بہ دمِ آبِ بقا موجِ شراب
(روحِ نباتی سے مراد ہے نباتات میں نشوونما کی قوت۔ جگر تشنۂ ناز یعنی ناز کرنے کے لئے بے قرار۔ دم بہ معنی گھونٹ۔ فرماتے ہیں اس موسم میں جس قدر نشوونما کی قوت اپنے امنگ اور جوش پر ناز کرنے کے لئے بے قرار ہے، اسی قدر شراب شراب کی لہریں بھی آبِ حیات کے گھونٹ پلا کر تسکین دے رہی ہیں اور انسان کے امنگ اور جوش میں نشوونما پیدا کر کے فخر و ناز پیدا کرتی ہیں۔)
بسکہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہو ہو کر
شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب
(بال کشا بہ معنی اڑنے کے لیے پر کھولنے والا۔ رنگ اڑ جانے والی چیز ہے اس لیے اس کو شہپر کہا۔ فرماتے ہیں موجِ شراب نے رنگ سے شہپر لے لیے اور اڑنے کے لیے پر کھول دیے، وہ انگور کی رگوں میں خون بن بن کر دوڑنے لگی اور اس خون سے اس نے انگور میں بھی شراب کا جوہر پیدا کر دیا۔)
موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہِ خیال
ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب
(شراب اور گل دونوں کا رنگ سرخ ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ شراب کی موجیں ہمارے تصور میں اس کثرت سے جلوہ دکھا رہی ہیں کہ خیال کا میدان پھولوں کے حسن سے روشن ہو گیا ہے یعنی موجِ شراب نے ہمارے تصور کے میدان میں چمن جیسی بہار اور چراغاں کی سی روشنی پیدا کر دی ہے۔)
نشے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ
بسکہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب
(شراب نشہ بن کر ہمارے دماغ میں کیوں چڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ موجِ شراب کو نشوونما کی بہت سی خواہش ہے۔ وہ ترقی کی خواہش میں جام سے نکل کر دماغ میں چڑھ گئی ہے اور وہاں سیر و تماشا میں محو ہو گئی ہے اور یہاں پہنچ جانا اپنی نشوونما خیال کرتی ہے۔)
ایک عالم پہ ہیں طوفانیِ کیفیّتِ فصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب
(طوفانی کی یے مصدری ہے۔ فرماتے ہیں نئے اُگے ہوئے سبزے سے لے کر شراب تک ہر ایک چیز سارے جہان پر موسم کے حسن اور اُس کی خوبصورتی کا طوفان برپا کر رہی ہے۔ موج کی وجہ سے لفظ طوفان کی خوبی ظاہر ہے۔ اس لفظ میں حسن پیدا کر دینے کی معنوی وسعت بھی قابلِ داد ہے۔)
شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب
(دونوں مصرعوں میں تقابل اور حسنِ ترصیع کی شان پیدا کی ہے۔ زہے اور خوشا حرفِ تحسیں ہے۔ غزل میں اتنا کچھ کہہ کر خلاصۂ بیان یوں فرماتے ہیں کہ پھولوں کا موسم آ گیا ہے، جس نے ہنگامۂ ہستی کی تشریح کی ہے، اور موجِ شراب کیا ہے، قطرے کو دریا میں ملا کر دریا بنا دینے کا رستہ بتاتی ہے یعنی عجیب فصلِ بہار ہے کہ زندگی کی گرم بازاری اسی کے دم سے ہے اور عجیب موجِ شراب ہے کہ ہر جزو کو کل کا رستہ بتانے میں خضرِ راہ ہو گئی ہے۔)
ہوش اڑتے ہیں مرے، جلوۂ گل دیکھ، اسدؔ
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کشا موجِ شراب
(اڑنے کی رعایت سے موجِ شراب کو بال کشا کہا۔ دیکھ کو دیکھ کر کے معنی میں استعمال کیا اور یہ لفظ اس صورت میں بہت پرانی زبان کا ہے۔ مقطع میں مطلع کے مصرعِ اول دہرایا ہے۔ یہ تکرار بھی بات کو ختم کرنے لیے پرلطف ہے۔ اہلِ موسیقی بھی اسی طرح مصرعِ اول کی تکرار اپنے نغمے کے خاتمے پر کیا کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں اے اسد، پھولوں کے حُسن کی بے پناہ آب و تاب کو دیکھ کر ہوش اڑ رہے ہیں۔ نگاہوں کو اس حسن کے دیکھنے کی تاب نہیں۔ ایسے لاثانی اور پربہار موسم میں شراب کا دور بھی چلنا چاہیے تاکہ دل و دماغ کامل بے خودی میں آ جائیں۔)
(مرزا اسد اللہ خان غالب)
× شرح جوش ملسیانی صاحب کی ہے۔
 
Top