پھر وہ فریادوں اور گزارشوں پر اتر آئے گا

جب پیمان وفا توڑ دیئے جائیں تو پھر انتشار و افتراق کی خار دار جھاڑیوں کو اگنے سے کوئی نہیں روک سکتا، جب حب الوطنی کے جذبات و احساسات کی چنگاریاں کسی راکھ کے ڈھیر تلے دب کر راکھ بن جائیں تو زنجیر اخوت کٹ جایا کرتی ہیں، جب وسیع تر قومی مفادات کے لئے خود اپنے آپ کا اقتدار میں رہنا ضروری سمجھ لیا جائے تو رگوں میں اندھیرے اتر جاتے ہیں اور جب اغیار کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر لئے جائیں تو پھر اجالے بھی تیرگیوں میں ڈھل جاتے ہیں پھر نام نہاد جمہوریت بھی مسائل کی جڑ بن جاتی ہے۔ دیکھ لیجئے کہ ساری دنیا کے مسلمان امریکا کے مخالف ہیں مگر اس کے باوجود جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے حکمرانوں میں سے کوئی ایک بھی امریکا مخالف نہیں، ہر اسلامی ملک میں امریکی مداخلت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ جہاں چاہے دندناتے ہیں، وہ جسے چاہے روند ڈالتے ہیں، وہ جہاں چاہے یلغار کر ڈالتے ہیں، میر ایمل کانسی کو ایف بی آئی اور سی آئی اے کے بدمعاشوں نے 13 جون 1997ء کو ڈیرہ غازی خاں کے شالیمار ہوٹل سے اچک کر 14 نومبر 2002ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003ء میں تین بچوں سمیت اغوا کر کے 86 سال قید کی سزا سنا دی۔ المیہ یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلم ممالک میں موجود بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں میں کوئی ایک بھی ایسی پارٹی موجود نہیں جو امریکا مخالف ایجنڈے کی حامل ہو۔ یہ آدم خور سیاست کتنے ہی مسلمانوں کو نگل گئی کہ آج تک ان کے اعزہ و اقربا عدالتوں کے باہر سرگرداں و احتجاج کناں اپنے پیاروں کی تلاش میں چیخ رہے ہیں مگر انہیں نہیں پتا کہ ان کے جگر گوشے کون سے گوانتاناموبے یا ابو غریب کے زندانوں کی خوراک بن رہے ہیں، جب اس قدر زہر ناک ہڑبونگ مچ جائے تو پھر تیونس جیسا انقلاب اٹھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر مصر جیسے حالات طلوع ہونے کے آثار واضح دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مشرف بھی یہی کہتا تھا کہ اگر میں نے اقتدار چھوڑا تو ملک تباہ و برباد ہو جائے گا، مصر کا حسنی مبارک بھی لاکھوں لوگوں کی پھٹکار کے باوجود کہتا تھا کہ اگر میں نے استعفا دیا تو ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کی بکری کا پچھلا دھڑ کسی دیگ میں پھنس گیا، اس کے خاندان کے سارے لوگ جمع ہو گئے کہ بکری کو کس طرح دیگ سے نکالا جائے مگر کسی کے پاس کوئی تدبیر نہ تھی سو انہوں نے اپنے خاندان کے سب سے ذہین شخص کو کہا کہ بکری کو دیگ سے نکال دے، اس ’’دانا‘‘ شخص نے تیز چھری سے بکری کا پچھلا دھڑ کاٹ ڈالا اور بکری باہر نکال دی۔ ظاہر ہے بکری مر گئی مگر اس کے خاندان کے سب لوگ اس شخص کی ’’ذہانت‘‘ کی داد و تحسین کرنے لگے کہ اس نے کمال ذہانت سے بکری دیگ سے نکال دی۔ اچانک وہ دانا شخص رونے لگا، لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ مجھے اس بات پر رونا آیا ہے کہ میرے مرنے کے بعد تمہارے یہ مسئلے کون حل کیا کرے گا؟ ایسے ہی دانا و بینا یہ لوگ ہیں کہ انہیں اور ان کے قبیلے کے لوگوں کو یہی دکھ کھائے جاتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد اس ملک کے مسائل کون حل کرے گا؟ مگر دیکھ لیجئے ان کے جانے کی خوشی میں لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، تیونس کا زین العابدین علی جاتے ہوئے بیالیس من سونا لے بھاگا، حسنی مبارک کے اثاثے 70 ارب پونڈ کے لگ بھگ ہیں۔ اتنا کچھ ڈکارنے کے باوجود ان کے پیٹ بھرنے میں نہیں آتے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت ہے مگر چین کسی پل نہیں آتا، یہ ہماری گیس کو ہڑپ کر گئے مگر پیٹ نہ بھرے، یہ ہماری بجلی کھا گئے مگر پیٹ خالی ہیں، انہوں نے چینی ہضم کر لی مگر ڈکار تک نہ لی، ان کے معدے کسانوں کی کھادیں کھا گئے مگر پیٹ خالی ہیں۔
انہوں نے قوم کے بیٹے بیٹیوں کو بیچ کھایا مگر پیٹ نہ بھرے اور اب پاکستانیوں کے قاتل اور جاسوس کو فروخت کرنے کے لئے مناسب موقع کی تاڑ میں ہیں۔ امریکی قونصل جنرل کارمیلا کانرائے کا مطالبہ ہے کہ ریمنڈ کو رہا کیا جائے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا ترجمان بی جے کرائولی تڑی لگاتا ہے کہ ریمنڈ کو امریکا کے حوالے کیا جائے، ہیلری کلنٹن اور امریکی سفیر کیمرون مسلم لیگ کی قیادت اور صدر سے ملاقات کر کے دبائو ڈالتے ہیں کہ ریمنڈ کو رہائی دی جائے، پاکستانی سفیر حسین حقانی کو بار بار وائٹ ہائوس طلب کر کے دبائو ڈالا جاتا ہے کہ ریمنڈ کو رہا کیا جائے اور اب باراک اوباما نے سفارتی تعلقات ختم کرنے اور حسین حقانی کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ زور اس بات پر ہے کہ ریمنڈ سفیر تھا سو اسے ویانا کنونشن کے تحت استثنا حاصل ہے، ظالمو! اسی ویانا کنونشن کا اطلاق ملا عبدالسلام ضعیف پر کیوں نہ کیا کہ وہ بھی تو سفیر تھا، اسے گوانتاناموبے کے عقوبت خانے میں تشدد کر کے نیم پاگل کیوں بنا دیا گیا؟
ریمنڈ ڈیوس دو پاکستانیوں کا قاتل ہی نہیں اس ملک کا جاسوسی بھی ہے۔ اس سے جو چیزیں برآمد ہوئیں ان میں جی پی ایس سسٹم، وائرلیس، موبائل فون، سروائیول کٹ، ڈیجیٹل کیمرہ حساس اداروں کے مورچوں کی تصاویر، پسٹل پانچ عدد، میگزین سترہ، گولیاں ایم 16کی 100عدد، سرچ لائٹ اور دینی مدارس کی تصاویر ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف قاتل ہی نہیں جاسوس بھی ہے۔ فہیم اور فیضان کے والدین کو ریمنڈ کی معافی کے لئے کیوں تیار کیا جا رہا ہے، بالفرض وہ معاف کر بھی دیں تب بھی ریمنڈ اس ملک کا جاسوس تو ہے۔
اے وڈیرو، زمیندارو، کھوسو، سیدو، گیلانیو، ہاشمیو، قریشیو اور زرداریو! قاتل اور جاسوس ریمنڈ کو مہمان خصوصی بنا کر تو نہ رکھو، تم اس مسئلے پر ڈٹ جائو اور استقامت دکھائو دیکھ لینا امریکا دھمکیوں کے بعد فریادوں اور گزارشوں پر اتر آئے گا اور وہ تمہارا ہر مطالبہ مان لے گا، بس استقامت، استقامت اوراستقامت۔

بشکریہ۔۔۔۔ہفت روزہ جرار

والسلام۔۔۔علی اوڈ۔۔۔ali-oad
 
Top