پھر خریدارِ جنوں سرمدِ مجذوب ہوا

سید ذیشان

محفلین
فاتح بھائی اپنے خیلات کے اظہار کے لئے مشکور ہوں۔آپ کے اٹھائے گئے نقطے بھی خوب ہیں۔ :)

سفرِ ہند کا وہ جوہری، مطلوب ہوا
پھر خریدارِ جنوں سرمدِ مجذوب ہوا
اول تو مطلع کے دونوں مصرعوں کا ربط نہیں سمجھ سکا اور دوم یہ کہ مطلوب کیا طلب کرنے والے کے معنوں میں استعمال کیا ہے آپ نے؟

مطلوب، طلب کیا گیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس جوہری نے سفرِ ہند کو طلب کیا یا اس کی خواہش کی۔ ربط جوہری اور خریدار ہے۔ جوہری جوہر بیچتا ہے جب کہ خریدار خریدتا ہے۔ یعنی ہند آ کر معاملہ الٹا ہو گیا کہ جوہری بیچنے تو جوہر آیا تھا لیکن جنون کا خریدار بن گیا۔

شائد پہلے مصرعے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ آپ نے خوب نشاندہی کی۔ :)


چاہِ کنعانِ دلِ من، میں نہیں، یوسفِ من!
یوسفِ من سے کیا مراد ہے

یوسفِ من سے محبوب مراد ہے۔ یوسف خوبصورتی کے لئے استعارہ ہے۔

خضر نے اس میں ملا دی نہ کہیں آبِ حیات
آب جب پانی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو اسم مذکر ہے۔۔۔ ہاں آب دینا بمعنی چمکانایا دھار لگانا مونث ہے۔

اس کو درست کر دیا گیا ہے۔

خضر نے ڈال دیا اس میں نہ ہو آبِ حیات

خونِ اصغر سے رخِ شاہ پہ مرطوب ہوا
مرطوب صفت ہے اور یہ مصرع اگر پہ نکال کر پڑھا جائے تو معنی کے لحاظ سے درست ہے یعنی پہ اضافی ہے اور اس کے ساتھ معنی ہی نہیں بن رہا
خونِ اصغر سے رخِ شاہ مرطوب ہوا

پہ یہاں مگر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

خونِ اصغر سے رخِ شاہ مگر مرطوب ہوا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
سفرِ ہند کا وہ جوہری، مطلوب ہوا
مطلوب، طلب کیا گیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس جوہری نے سفرِ ہند کو طلب کیا یا اس کی خواہش کی۔ ربط جوہری اور خریدار ہے۔ جوہری جوہر بیچتا ہے جب کہ خریدار خریدتا ہے۔ یعنی ہند آ کر معاملہ الٹا ہو گیا کہ جوہری بیچنے تو جوہر آیا تھا لیکن جنون کا خریدار بن گیا۔
۔۔
مصرع میں الفاظ کی ترتیب کی بندش سے سفر ہندفاعل اور جوہری اس کا مفعول بن رہا ہے۔اور مذکورہ بالا معانی نہیں دے رہا۔ کوما کے ذریعے دیئے گئے وقفہ سے آپ نے شاید انہی معانی کے ابلاغ میں مدد لینی چاہی لیکن یہ پھر بھی (میرے خیال میں) کافی نہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
مصرع میں الفاظ کی ترتیب کی بندش سے سفر ہندفاعل اور جوہری اس کا مفعول بن رہا ہے۔اور مذکورہ بالا معانی نہیں دے رہا۔ کوما کے ذریعے دیئے گئے وقفہ سے آپ نے شاید انہی معانی کے ابلاغ میں مدد لینی چاہی لیکن یہ پھر بھی (میرے خیال میں) کافی نہیں۔

جی آپ کی بات درست ہے۔ غلطی میری ہی ہے۔ اس کو درست کرتا ہوں۔ :)
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی اپنے خیلات کے اظہار کے لئے مشکور ہوں۔آپ کے اٹھائے گئے نقطے بھی خوب ہیں۔ :)
محبت ہے آپ کی


مطلوب، طلب کیا گیا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس جوہری نے سفرِ ہند کو طلب کیا یا اس کی خواہش کی۔ ربط جوہری اور خریدار ہے۔ جوہری جوہر بیچتا ہے جب کہ خریدار خریدتا ہے۔ یعنی ہند آ کر معاملہ الٹا ہو گیا کہ جوہری بیچنے تو جوہر آیا تھا لیکن جنون کا خریدار بن گیا۔

شائد پہلے مصرعے کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ آپ نے خوب نشاندہی کی۔ :)
یہی معنی میں نے بھی اخذ کیے تھے اور تبھی حیران تھا کہ آپ نے اسم مفعول "مطلوب" کو اسم فاعل یعنی "طالب" یا "طلبگار" کے معنوں میں باندھ دیا ہے۔


یوسفِ من سے محبوب مراد ہے۔ یوسف خوبصورتی کے لئے استعارہ ہے۔
شکریہ وضاحت کے لیے


اس کو درست کر دیا گیا ہے۔

خضر نے ڈال دیا اس میں نہ ہو آبِ حیات
شکریہ تبدیلی کے لیے


پہ یہاں مگر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

خونِ اصغر سے رخِ شاہ مگر مرطوب ہوا۔
پہ مگر کے معنوں میں استعمال کرنا درست ہے لیکن اس مصرع میں یہ مطلب اخذ کرنے کے لیے پوچھنا پڑ رہا ہے کیونکہ سامنے کا مفہوم چہرے "پر" مرطوب ہوا ملتا ہے اس لیے اگر اسے بھی تبدیل کر لیں تو بہتر ہے
 

سید ذیشان

محفلین
اب اس کو یوں کر دیا ہے:

جوہری کا تو متاعِ جہاں مطلوب ہوا
پر خریدارِ جنوں سرمدِ مجذوب ہوا

امید ہے کہ ابلاغ کا مسئلہ کچھ بہتر ہو گیا ہو گا۔اگرچہ معنوی خوبی کچھ کم ہو گئی ہے :)
 
Top