پھر تمھارا فسانہ لے بیٹھا ٭ راحیل فاروق

پھر تمھارا فسانہ لے بیٹھا
ہائے ہم کو زمانہ لے بیٹھا

ہاتھ میں تازیانہ لے بیٹھے
ہاتھ کو تازیانہ لے بیٹھا

خود تو تنہا ہی تھا ہمیں بھی کیا
ایک یکتا یگانہ لے بیٹھا

سو سو ایک ایک کے اٹھے طوفان
دل کا آئینہ خانہ لے بیٹھا

لے تو بیٹھے نشانہ وہ میرا
انھیں ان کا نشانہ لے بیٹھا

شکر ہے آپ نے نہیں پوچھا
نام میں آپ کا نہ لے بیٹھا

اتنے دشمن بھی ہم نہ تھے اپنے
آپ سے دوستانہ لے بیٹھا

میں کہاں بندگی کا ظرف کہاں
سانپ تھا اور خزانہ لے بیٹھا

پیر و مرشد کا کیا گیا لیکن
آس کو آستانہ لے بیٹھا

ایسے کافر بھی ہم نہ تھے راحیلؔ
غمزۂِ کافرانہ لے بیٹھا

راحیل فاروق​
 
Top