جگر پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے

کاشف اختر

لائبریرین
ہندوستاں میں خیر سے ان کی کمی نہیں
لب پر ہیں جو خلوص کا دفتر لئے ہوئے
دیتے ہیں بات بات پر انسانیت کا درس
دل میں ہزار دشنۂ و نشتر لئے ہوئے
چہرے جنون ِ حب ِ وطن سے دھوئیں دھوئیں
سینے خباثتوں کا سمندر لئے ہوئے
ظاہر میں اک مجسمۂ امن و آشتی
باطن میں لاکھ فتنۂ محشر لئے ہوئے
کہتے ہیں بھائی بھائی ہیں اہل ِ وطن تمام
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے
انسان جس مین بستے ہوں اس طرح کے جگر
بھاگ ایسی سرزمین سے بستر لئے ہوئے
(دوران ِ قیام ِ بمبئی ۱۹۴۶؁ء)​
 
Top