ایک ملک میں ایک ایسا بادشاہ حکومت کرتا تھا جو کبھی کسی کا احسان نہیں مانتا تھا۔ اگر رعایا میں سے کوئی شخص اس کے کسی بھی کام آتا تو وہ اسے اپنا حق سمجھتا تھا۔
ایک دن بادشاہ شکار کے لئے جنگل کی طرف نکلا۔ اچانک وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے گر پڑا۔ گرنے کی وجہ سے اس کی گردن ٹیڑھی ہو گئی اور درد کی شدت تمام علاجوں کے باوجود کم نہ ہوئی۔ بادشاہ نے اعلان کروایا کہ جو شخص اس کا علاج کرنے میں کامیاب ہوگا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔
ان دنوں ملک میں ایک طبیب آیا ہوا تھا۔ وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے پاس چند بیج تھے جو اس نے آگ پر جلا کردھونی دی بادشاہ کو۔ اس علاج سے وہ چند ہی روز میں صحت یاب ہوگیا۔ حسبِ وعدہ بادشاہ نے اسے خوب انعامات دئے۔
کچھ عرصے کے بعد وہی طبیب بادشاہ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ اے بادشاہ سلامت آپ میری مدد کریں۔ آپ کے سپاہیوں نے میرے بیٹے کو پکڑ لیا اور اس پر زیور کی چوری کا الزام لگا رہے ہیں۔ آپ میرے حق میں انصاف کریں۔ میں وہی طبیب ہوں جس نے آپ کا علاج کیا تھا۔
بادشاہ نے فریاد سنی ، مگر اس طبیب کے احسان کو یاد نہیں کیا اور اس کے بیٹے کو سزا دے کر ملک سے نکلنے کا حکم دے دیا۔
خدا کی قدرت ، کچھ ہی دنوں کے بعد دوبارہ بادشاہ کی گردن میں جھٹکا لگا اور وہ تکلیف کی شدت سے بے قرار ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ فوراً طبیب کو ڈھونڈ کر لاؤ۔ اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ اس نے طبیب کا احسان نہ مانا اور اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اس لئے اسے یہ سزا ملی ہے۔
بادشاہ کے سپاہیوں کو بہت تلاش کے بعد بھی وہ طبیب نہ ملا لیکن اب پچھتانے کا کیا فائدہ ہو سکتا تھا۔ بادشاہ کو اپنی احسان فراموشی کی سزا مل چکی تھی۔
--××---------- اختتام ----------××--