اقتباسات پِیا رنگ کالا از بابا محمد یحیٰی خان

ہوا یوں کہ ایک دُوپہر بابا جی کے قدموں میں خاک سے بنے ہوئے پڑے تھے، فضا اور ماحول میں بڑی اُداسی اور سنجیدگی دَر آئی تھی۔ بابا جی اس وقت نیم مراقبہ کی حالت میں تھے، ویسے بھی یہ وقت بابا جی کے قیلولے کا ہوتا تھا۔ ہم دو چار حاضر بچّے ، دَم سادھے ہوئے تھے کہ کہیں کُھل کر سانس لینے سے بابا جی کی محویّت یا آرام میں خَلل نہ پڑ جائے۔ پچھلے دِنوں مجھ سے ایک دو غلطیاں سَر زد ہو چکی تھیں۔ میں اندر ہی اندر چُھپا، ڈرا سہما بیٹھا تھا کہ دیکھیں ، کب پیشی پڑتی ہے اور یہ بھی سوچے بیٹھا تھا کہ کبھی موقع یا خِلوت نصیب ہوئی تو بابا جی سے عرض کروں گا کہ یہ درویشی ، دُنیا داری کے ساتھ کس طرح نبھائی جا سکتی ہے، دو متضاد سَمتوں میں بیک وقت سفر کرنا ایک کمزور انسان کے لئے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیچڑ اور غلاظت بھرے بازار سے گذرنا بھی ہے لیکن دامن پر چھینٹ نہ پڑے، جسم بھی پلید نہ ہو اور جبیں پہ شکن بھی نہ آئے۔ یہی کچھ سوچ سوچ کر اپنے ذہن میں سوالنامے کو ترتیب دے رہا تھا کہ بابا جی پشت پہ تکیئے کی ٹیک چھوڑ کر ذرا آگے کو ہو لئے، پانی طلب فرماتے ہوئے مجھ سے فرمانے لگے کہ تم نے کبھی نَٹوں اور بازیگروں کا ایسا تماشہ دیکھا ہوگا جس میں تنی تار پہ چھوٹا سا لڑکا یا ننھی سی بچّی چلتے ہیں اور پھر ایک پہیہ والی سائیکل بھی چلاتے ہیں؟۔۔۔ میں نے ادب سے اثبات میں سَر ہلاتے ہوئے کہا۔
"جی ہاں، بازی گروں کے ایسے بہت کھیل تماشے اور سرکس میں بھی اتنی تار پہ چلنے والے کرتب اکثر دیکھے ہیں۔ بعض تو آنکھوں پہ پٹی باندھے ہوئے، نیچے احتیاطی جال کے بغیر بھی لمبی تار پہ ایک لمبا فاصلہ طے کرتے ہیں۔۔۔"
بابا جی نے ایک نظر میری جانب دیکھ کر مُسکراتے ہوئے فرمایا۔
"شاباش، تم نے بالکل ٹھیک کہا۔۔۔ اتنی باریک تار پار کرنا تو کجا، انسان اتنی بلندی پہ دو فٹ چوڑے راستے پر بھی نہیں چل سکتا۔ ایسا کرنا صرف مشق پہ اعتماد اور دوسری جانب سلامتی سے پار لگنے کے یقین سے ہی ممکن ہوتا ہے اور یہ مشق، یہ اعتماد اور یہ یقین ان کے استاد پیدا کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مَت دیکھو کہ تمہارے پاؤں تلے کتنی باریک تار ہے۔ تمہارے پاؤں اپنا راستہ اور جگہ خود بنا لیں گے۔ تم صرف اپنے توازن اور جہاں تم نے پہنچنا ہے، وہاں پہ توجّہ اور نظر رکھو۔ جونہی محسوس کرو تم ایک طرف جُھک رہے ہو، فوراً اس جانب کے نتھنے سے سانس لینا بند کردو اور ایک قدم آگے بڑھا کر توازن برقرار کرلو لیکن ٹارگٹ سے نگاہ نہ ہٹے ورنہ جھکنے والی جانب دھڑام سے گِر جاؤ گے ۔ بس ایسے ہی جُھکتے، سنبھلتے، ایک ایک پَگ آگے بڑھاتے اپنی منزل تک پہنچ جاؤگے۔اِس سارے کام میں مشق، سانس کا کنٹرول، اعتماد و یقین کی بحالی اور اپنے توازن پہ قابو بڑا اہم ہوتا ہے۔۔۔
تنی ہوئی تار زندگی ہے، بلندی آزمائش ہے۔ دائیں دِین ہے، بائیں دُنیا ، سامنے آخرت اور سِکھانے والا اُستاد مُرشد، رہبر یابابا، اسے تم کوئی بھی نام دے سکتے ہو۔ بس، اتنا یاد رکھو کہ تم نے اپنی منزل پہ ایمان اور جان کی سلامتی کے ساتھ پہنچنا ہے ۔ دائیں بائیں جھپکنے لپکنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ چھوٹی موٹی غلطی کوتاہی سَر زد ہو جائے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، بس اگلا قدم بڑھاتے ہوئے اپنے توازن کو دُرست کرنا ضروری ہوتا ہے
 
Top