پُراَسرار اَموات

کعنان

محفلین
پُراَسرار اَموات

امریکی تحقیقاتی صحافی جیرالڈ پوزنر کی ایک کتاب "Why America Slept" کے کچھ مندرجات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے ستمبر 11 کے وقوع پذیر ہونے کی وجوہات اور اس کے بعد کے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ان کے مطابق اس واقعے کی ذمہ داری ناقص انٹیلی جنس پر عائد ہوتی ہے۔

اس کتاب کے خلاصہ میں جس چیز نے مجھے چونکایا وہ القاعدہ کے ایک ذمہ دار ”ابو زبیدہ“ کی گرفتاری اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات تھی۔


کہا جاتا ہے کہ ابو زبیدہ نامی شخص جو کہ ایک سعودی باشندہ تھا کو پاکستان کے علاقے فیصل آباد سے مارچ سن 2002 میں گرفتار کیا گیا۔ یہ ابھی "گوانتاناموبے" کی جیل میں ہے اور اسے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

ابو زبیدہ سے معلومات کا حصول سی آئی اے کا سب سے بڑا مسئلہ تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شخص القاعدہ کی اعلیٰ قیادت اور آپریشنل ٹیم کے درمیان رابطہ کار کا فریضہ انجام دیتا تھا۔

معلومات کے حصول کے لیئے اسے شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کہا جاتا ہے کہ تقریبا 82 دفعہ واٹر بورڈنگ کے عمل سے گذارا گیا۔ جب سی آئی اے اس سے معلومات حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تو ایک اور طریقہ آزمایا گیا جسے فالس فلیگ کہا گیا۔ اسے ایک ایسے ماحول میں رکھا گیا جو سعودی طرز کا تھا اور سی آئی اے کے عربی افسران نے سعودی بن کر اس سے باز پرس کی اور اسے انتہائی سخت سعودی تشدد کی دھمکی دی۔

خوفزدہ ہونے کے بجائے ابوزبیدہ بہت خوش ہوا اور اس نے ایک سعودی نمبر اپنے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ اس پر بات کرنا چاہتا ہے۔ یہ نمبر سعودی شاہی خاندان کے ایک فرد کا تھا اور وہ اس کی رہائی کے احکامات جاری کر دے گا۔

یہ نمبر شہزادہ احمد بن سلمان بن عبدالعزیز کا تھا۔

اس کے علاوہ تین اور سعودی شہزادوں کے نام بھی اس نے لیئے

جن میں شہزادہ سلطان بن فیصل بن ترکی،

شہزادہ فہد بن ترکی بن سعود الکبیر
اور شہزادہ ترکی جو کہ سعودی انٹیلیجنس چیف تھے۔

چونکا دینے والے ناموں میں
ایک نام ایئر چیف مارشل مصحف علی میر کا بھی تھا۔

کہا جاتا ہے کہ 1996 میں ابوزبیدہ نے مصحف علی میر کے ذریعے آئی ایس آئی کو القاعدہ کو ہتھیاروں کی فراہمی اور اسامہ کے تحفظ کی بات کی تھی۔

سی آئی اے کے تحقیق کاروں کی امیدوں کے برعکس یہ نمبر بالکل درست ثابت ہوا اور اس طرح انہیں سعودی- پاکستانی اور القاعدہ کے مثلث کا ایک بڑا سراغ مل گیا۔

ابوزبیدہ کے مطابق اسامہ بن لادن نے اسے خود بتایا کہ شہزادہ ترکی اور اسامہ کا یہ معاہدہ 1991 میں طے ہوا تھا کہ اسامہ سعودیہ چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے تو اسے سعودی حکومت خاموشی سے امداد فراہم کرتی رہے گی شرط صرف یہ ہو گی کہ وہ سعودی عرب میں اپنے جہادی ایجنڈے کو فروغ نہیں دے گا۔

1998 میں قندھار میں شہزادہ ترکی، پاکستانی آئی ایس آئی ، طالبان اور اسامہ کے درمیان ایک ملاقات میں یہ بات پھر طے پائی گئی کہ سعودی امداد طالبان کو ملتی رہے گی اور اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ بھی نہی کیا جائے گا جب تک اسامہ اور طالبان اس جہادی ایجنڈے کو سعودی عرب سے دور رکھتے ہیں۔

چونکا دینے والے حصے میں مصنف کہتا ہے کہ

X جولائی 2002 کو شہزادہ احمد دل کا دورہ کے باّعث انتقال کر گئے ان کی عمر صرف 43 سال تھی۔

X دوسرے ہی دن شہزادہ سلطان بن فیصل بن ترکی تیز رفتار کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

X ایک ہفتے ہی بعد شہزادہ فہد بن ترکی بن سعود الکبیر ریاض کے قریب ایک ریگستان میں سفر کرتے ہوئے پیاس کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے۔

X سات مہینے بعد فروری 2003 ائیرچیف مصحف علی میر ایک ناگہانی فضائی حادثہ میں اپنی بیوی اور دوسرے ہائی کمان افسران کے ہمراہ شہید ہو گئے۔

اس تمام لسٹ میں صرف شہزادہ ترکی الفیصل زندہ بچے کیونکہ مصنف کے بقول وہ اتنا کچھہ جانتے تھے کہ انہیں مارنا سعودیوں کے لیئے خطرناک تھا۔ انٹیلیجنس سے ہٹا کر انہیں برطانیہ میں سعودی سفیر کی حیثیت سے تعینات کر دیا گیا، ساتھ ہی انہیں کسی بھی مجرمانہ پراسیکیوشن سے خصوصی سفارتی استشناّ دیا گیا ہے۔

ان تمام اموات کی وجوہات کو نہ تو سعودی حکومت اور نہ ہی پاکستانی حکومت نے جانچنے کی کوشش کی۔ مصحف علی میر کے فضائی حادثے میں موسم اور پائلٹ کو قصور وار قرار دے دیا گیا۔

اسی سلسلے میں نیشنل جیوگرافی کی ایک ڈاکومینٹری بھی دیکھی جو کہ ان مندرجات سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

ویڈیو کلپس

خدا ہی جانے کیا سچ ہے اور کیا فکشن ۔۔۔۔
یہ کچھ حقائق میرے لیے خاصے چونکا دینے والے تھے ۔

(تحقیق، محمد طاہر، ١٨ /٠١/ ٢٠١٢)
 
Top