پولیو زدہ معاشرہ؟...عوام کی عدالت از افتخار احمد

پولیو جیسے موذی مرض سے دنیا بھر میں چھٹکارا پانے کا جو عمل کئی دہائیوں پہلے شروع ہوا تھا وہ بہت سے ممالک میں پایہٴ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔
بر اعظم افریقہ کے چند غریب ممالک اور ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان کو چھوڑ کردنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ترقی پذیر ملک ہو گا جہاں اب بھی پولیو کا مرض ننھے بچوں کو شکار کر رہا ہو۔ لیکن یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں نہ صرف ابھی تک پولیو موجود ہے بلکہ اس کے سدباب کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے خلاف بھی ایک مخصوص طبقے کی جانب سے سازش کی جارہی ہے۔ پولیو سے بچاؤ ممکن ہوتے ہوئے بھی ہمارے ملک میں ایسے بچے ہیں جو اس بیماری کا شکار ہو کر زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جاتے ہیں۔ ان معصوم بچوں کی زندگیوں سے رعنائی چھین کر انہیں اپاہچ کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والے افراد کس طرح کے والدین ہیں یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ کوئی والدین کیسے اپنے معصوم بچے کی زندگی کو عمر بھر کے لئے تباہ کرنے پر خود کو آمادہ کر لیتے ہیں، یہ ایک ایسا معمہ ہے کہ جس کو شاید ہی کوئی سمجھ پائے۔ ایسی کون سے وجہ ہے کہ پولیو جیسی بیماری کہ جس سے باآسانی نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے ہر سال پاکستان میں چالیس سے پچاس شکار کر لیتی ہے؟
پہلے پہل تو پولیو کی ویکسین کے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ یہ ایک امریکی دوائی ہے جسے پاکستان کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ مولوی فضل اللہ کا یہ دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا،پاکستان کی آبادی پچھلے سالوں میں جس تعداد سے بڑھی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیو کی ویکسین میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا اور اس ملک میں گردش کرتی بہت سی سازشی تھیوریوں کی طرح اس تھیوری میں بھی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس مفروضے کی بنیاد پر خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقوں اور قبائلی علاقوں میں بہت عرصے تک پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کے داخلے پر بھی پابندی لگی رہی،مگر وقت گزرنے کے ساتھ ایسا محسوس ہواکہ اب پولیو کے خلاف جنگ میں ان علاقوں میں بھی شعور پیدا ہوگیا ہے ۔لیکن گزشتہ دنوں ہونے والے افسوسناک واقعے میں جس طرح سے پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر کراچی، پشاور اور چارسدہ میں حملے کئے گئے اور تین روز میں9 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ایسی کیا وجہ ہے کہ پولیو کے قطروں کے خلاف اس طرح کا ردعمل سامنے آ رہا ہے؟ ان ٹیموں پر حملہ آور ہونے والے کیا نہیں جانتے کہ پولیو کے قطرے نہ پینے والے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمر بھر کے لئے معذور ہوسکتی ہے؟ یہ افراد نہ صرف اپنے بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں بلکہ اس کے خلاف آگاہی اور شعور پھیلانے والے افراد کو موت بھی تحفے میں دے رہے ہیں۔
انتہا پسندانہ رویے کے حامل لوگ یہ کہتے ہیں کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے پولیو کے قطرے اپنے بچوں کو نہیں پلائیں گے۔انہیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ یہ قطرے انگریز کے بنائے ہوئے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے دین کے مطابق ” ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“ افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں بھی، جو علاقہ غیر نہیں ہے یہ واقعات ہوئے۔جولائی میں جب ورکرز کو یہ وارننگ دی گئی تھی کہ ان علاقوں میں مت آیا کرو تب ہی کراچی کی انتظامیہ کو سوچنا ا چاہیے تھا کہ شہر میں انتہاپسندوں سے ان ٹیموں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے ۔ جولائی میں ہی سہراب گوٹھ میں اسحق نور کو ایک کلینک میں مارا گیا۔ جب ایک واقعہ ہو گیاتھا تو اس کی مستقبل میں روک تھام کے لئے کچھ کیوں نہیں کیا گیا؟ کیایہ ہماری نا اہلی نہیں؟ اب صدر پاکستان ،نواز شریف اور دوسرے رہنما اس اقدام کے خلاف بیانات جاری کر رہے ہیں، مگر کیا وہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ریاست کا کنٹرول ختم ہوتا جارہا ہے اور یہ علاقے ان لوگوں کو پاس جارہے ہیں جو کسی قانون کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں ا ور ہر محلے میں ریاست بنارہے ہیں ۔کیا یہ اس علاقے اور پورے ملک کی سیاسی قیادت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان مجرموں کو سزا دلوائیں؟ کیا یہ اس معاشرے کی ذمہ داری نہیں کہ ایسے افراد سے تعلقات ترک کریں؟ اگر سماج اور سوسائٹی کھڑی نہیں ہوگی تو مدیحہ کی والدہ کی طرح جانے کتنی مائیں اپنی بچیوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتے ہوئے یہ کہیں گی کہ ” غریب کو دیتا کوئی نہیں، چھین سب لیتے ہیں“ اٹھارہ سال کی مدیحہ، انچاس سال کی فہمیدہ ، چوون سالہ نسیم اختر، چالیس سالہ کنیز فاطمہ اور چودہ سالہ فرزانہ کی کیا غلطی ہے ؟ کیا 250 روپے یومیہ حلال رزق کمانے کے لئے گھر سے نکلنا ان کی غلطی ہے ؟
کراچی اور پشاور میں ہونے والے واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے غم وغصے کا اظہار کرنے کے بیانات تو ہم سب نے سنے ، مگر وہ وقت کب آئے گا کہ یہ سیاسی قائدین صرف بیانات جاری کرنے کی بجائے اس سلسلے میں اپنے سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کریں گے۔پولیو کے خلاف جنگ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر کسی نئے اتفاق رائے کی ضرورت ہو، یہ کوئی ایسا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ جس کی کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے مخالفت کئے جانے کی توقع ہو، تو پھر سیاسی قائدین کیوں پولیو کے خلاف صحیح معنوں میں محاذ بنا کر قوم کو اس موذی مرض سے چھٹکارا نہیں دلا دیتے؟ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ جہاں آنے والی نسل کو تعلیم اور روزگار کے مواقع دیئے جانے کے بارے میں سیاسی جماعتیں دعوے کرتی ہیں وہاں بچوں سے صحت مند زندگی کا حق چھیننے والے افراد کی نہ صرف نشاندہی ہونی چاہئے بلکہ قانون سازی کر کے ایسے افراد کے خلاف کڑی کارروائی کی جانی چاہیے جو اپنی ہٹ دھرمی کے باعث ننھے معصوم بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ان درندہ صفت افراد کی غلطیوں کی سزا معصوم جانوں کو بھگتنی پڑتی ہے جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس ملک میں بہت کچھ کر لینے کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں، پولیو کے خلاف جنگ ایک ایسا مقصد ہے کہ جسے حاصل کرنے کے لئے ہمیں شاید بہت زیادہ محنت نہ کرنی پڑے لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹاناہوگا ۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین سے میری التماس ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی مدد سے اس امر کو یقینی بنائیں کہ ہر گھر اور ہر چھوٹے بچے کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں ۔ ان کارکنوں کی مدد سے ایسے تمام افراد کی نشاندہی بھی کی جا سکتی ہے جوکسی علاقے میں یا تو پولیو کی مہم کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں یا پھر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے منع کر دیتے ہیں۔ محلے کی سطح پر پولیو کی مہم کے دوران جو افراد اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کریں یا پھر پولیو ٹیم کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کریں ان کیلئے قانون میں سزا تجویز کی جائے۔ یاد رہے کہ اس ملک میں اقدام خودکشی کی بھی سزا موجود ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کو اپنی جان لینے کا بھی حق نہیں ہے تو پھرکسی کو کیسے معصوم بچوں کی زندگی تباہ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ ہمارے معاشرے میں بہت سی ایسی جنگیں ہیں جو ہم شاید کبھی جیت نہ سکیں، لیکن پولیو کے خلاف جنگ ان میں سے نہیں ہے، یہ جنگ ہم جیت سکتے ہیں۔ ضرورت ہے تو محض صحیح نیت اور ایک قومی کوشش کی کیونکہ اگر ہم نے ٹھوس اقدامات نہیں کئے ، ان واقعات کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے اور ریاست انچ بائے انچ پیچھے ہٹتی گئی تو ریاست کا وجود ختم ہو جائے گا۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ۔
 
Top