پنڈورا پیپرز: شوکت ترین، فیصل واوڈا، شرجیل میمن، مونس الٰہی اور علی ڈار سمیت 700 پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں سامنے آگئیں

زیک

مسافر
ایک کرپٹ پارٹی کا صاف ستھرا سربراہ :)

F500-F683-D09-C-40-B9-BCA9-DA650-F04004-B.jpg
چوروں کا سردار ایماندار 🤪
 
جس شخص کی اوقات اسلام آباد کے میئر جتنی بھی نہیں اس کے موقف کو بیس سال بعد دنیا صحیح تسلیم کر رہی ہے۔ بغض عمران لا علاج ہے۔
بجا فرمایا۔
1400 کی گھڑی وقت بتاتی ہے اور 14 کروڑ کی گھڑی اوقات۔
 
آخری تدوین:
اسکے اتحادیوں کی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں پسپائی عمران خان کے موقف کی فتح ہے۔
ضروری نہیں کہ وہی بات یا شخص درست ہو جس کے میڈیا صبح شام گن گاتا رہے۔ جب تک امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں موجود رہے، طالبان کتنی دفعہ اقتدار میں آئے؟ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جانے کے بعد (ظاہر ہے انہوں نے ایک دن جانا ہی تھا) طالبان نے اپنے ہی ملک پہ قبضہ کر کے امریکہ کو پسپا کیسے ثابت کر دیا؟ طالبان اگر امریکہ پہ قبضہ کر لیتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہاں تو دیار غیر سے آئی ہوئی قوم کی موجودگی میں بھی طالبان اپنے ہی ملک پہ کبھی قابض نہ ہو سکے۔ امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی محض ایک غلطی ہے کہ وہ مغربی سوشوپولیٹیکل آرڈر یہاں نافذ کرنا چاہتے تھے جو وہ نہ کر سکے، اس کے علاوہ خون ریزی اور وحشیانہ پن میں امریکہ اور طالبان دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ عمران خان صاحب جو اقتدار سے قبل ویسٹرن ڈیموکریسی پہ قوم کو لیکچر دیا کرتے تھے، آج اپنے اقتدار کے لیے ریاست مدینہ اور اسلام کے پاپولر نعروں کا سہارا لے کر قوم کے مستقبل کی پرواہ کیے بغیر ضیائی دور کے اقدامات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ اگر خان صاحب نے اپنی ناکام پالیسیوں کا اسلامی سہارا نہ چھوڑا اور یہی تسلسل جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں صورتحال افغانستان سے مختلف نہیں ہو گی اور ہر ضیائی جہادی طالبان کے روپ میں بر سرِ اقتدار نظر آئے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ضروری نہیں کہ وہی بات یا شخص درست ہو جس کے میڈیا صبح شام گن گاتا رہے۔ جب تک امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں موجود رہے، طالبان کتنی دفعہ اقتدار میں آئے؟ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جانے کے بعد (ظاہر ہے انہوں نے ایک دن جانا ہی تھا) طالبان نے اپنے ہی ملک پہ قبضہ کر کے امریکہ کو پسپا کیسے ثابت کر دیا؟ طالبان اگر امریکہ پہ قبضہ کر لیتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہاں تو دیار غیر سے آئی ہوئی قوم کی موجودگی میں بھی طالبان اپنے ہی ملک پہ کبھی قابض نہ ہو سکے۔ امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی محض ایک غلطی ہے کہ وہ مغربی سوشوپولیٹیکل آرڈر یہاں نافذ کرنا چاہتے تھے جو وہ نہ کر سکے، اس کے علاوہ خون ریزی اور وحشیانہ پن میں امریکہ اور طالبان دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ عمران خان صاحب جو اقتدار سے قبل ویسٹرن ڈیموکریسی پہ قوم کو لیکچر دیا کرتے تھے، آج اپنے اقتدار کے لیے ریاست مدینہ اور اسلام کے پاپولر نعروں کا سہارا لے کر قوم کے مستقبل کی پرواہ کیے بغیر ضیائی دور کے اقدامات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ اگر خان صاحب نے اپنی ناکام پالیسیوں کا اسلامی سہارا نہ چھوڑا اور یہی تسلسل جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں صورتحال افغانستان سے مختلف نہیں ہو گی اور ہر ضیائی جہادی طالبان کے روپ میں بر سرِ اقتدار نظر آئے گا۔
امریکہ کو طالبان سے کیا مسئلہ تھا؟ اس کی جنگ تو القاعدہ و اس کے سربراہ اسامہ بن لادن سے تھی جنہوں نے امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ طالبان نے ان کو پناہ دے کر غلطی کی تھی مگر امریکہ کی طالبان سے براہ راست کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہے۔ ایسے میں ۲۰ سال افغانستان میں قیام جبکہ القائدہ کو شکست ہو چکی تھی اور اسامہ بن لادن مارا جا چکا تھا بتاتا ہے کہ امریکہ کے افغانستان میں اصل عزائم کچھ اور تھے۔ طالبان چاہتے تو وہ امریکہ کی نافذ کردہ جمہوریت کو تسلیم کر لیتے مگر انہوں نے مسلسل مزاحمت کر کے اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور دوبارہ قابض ہو گئے جیسا کہ امریکہ کی یہاں آمد سے پہلے تھے۔
 
مسلسل مزاحمت کر کے اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا
قومی مفاد کا اگر تقاضا ہو کہ فلاں فلاں ملک پہ حملہ کیا جائے تو ہر عالمی طاقت کرتی ہے اور جب وہی حملہ قومی مفاد کے خلاف چلا جائے تو عالمی طاقت اپنے بدلتے مفادات کے پیشِ نظر اپنی پالیسیوں پہ نظرِ ثانی کرتی ہے، ہماری طرح اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اپنی غلطیوں کو لگاتار دہرا کر ملک کو مسلسل بند گلی کی طرف دھکیلے نہیں جاتی۔ دنیا میں کوئی بھی عالمی طاقت دوسرے ملک پہ غیر محدود مدت تک قابض نہیں رہتی، بدلتے مفادات کے ساتھ ساتھ پالیسیز تبدیل ہوتی جاتی ہیں۔ ہماری حالت اس قدر کمزور ہے کہ امریکہ کے واپس اپنے ملک جانے کو بھی اس کی پسپائی اور اپنی فتح سے تعبیر کر رہے ہیں (حالانکہ ان کے یہاں ہوتے ہوئے تو پاکستان بھی ان کی طرف بہت محتاط رویہ رکھتا تھا)۔ اس احساسِ کمتری کے اظہار کا پسِ منظر ریاستی حمایت یافتہ مذہبی تاریخ اور دہائیوں پہ محیط امریکی دشمنی کی فضا ہے۔ کمزور ہمیشہ طاقتور کے جانے کا انتظار کرتا ہے اور اس کے جانے کے بعد اپنے احساسِ کمتری اور کمزوری کو چھپانے کے لیے اس کو دوسرے کی ہزیمت اور اپنی بھرپور فتح سے تعبیر کرتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قومی مفاد کا اگر تقاضا ہو کہ فلاں فلاں ملک پہ حملہ کیا جائے تو ہر عالمی طاقت کرتی ہے اور جب وہی حملہ قومی مفاد کے خلاف چلا جائے تو عالمی طاقت اپنے بدلتے مفادات کے پیشِ نظر اپنی پالیسیوں پہ نظرِ ثانی کرتی ہے، ہماری طرح اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اپنی غلطیوں کو لگاتار دہرا کر ملک کو مسلسل بند گلی کی طرف دھکیلے نہیں جاتی۔ دنیا میں کوئی بھی عالمی طاقت دوسرے ملک پہ غیر محدود مدت تک قابض نہیں رہتی، بدلتے مفادات کے ساتھ ساتھ پالیسیز تبدیل ہوتی جاتی ہیں۔ ہماری حالت اس قدر کمزور ہے کہ امریکہ کے واپس اپنے ملک جانے کو بھی اس کی پسپائی اور اپنی فتح سے تعبیر کر رہے ہیں (حالانکہ ان کے یہاں ہوتے ہوئے تو پاکستان بھی ان کی طرف بہت محتاط رویہ رکھتا تھا)۔ اس احساسِ کمتری کے اظہار کا پسِ منظر ریاستی حمایت یافتہ مذہبی تاریخ اور دہائیوں پہ محیط امریکی دشمنی کی فضا ہے۔ کمزور ہمیشہ طاقتور کے جانے کا انتظار کرتا ہے اور اس کے جانے کے بعد اپنے احساسِ کمتری اور کمزوری کو چھپانے کے لیے اس کو دوسرے کی ہزیمت اور اپنی بھرپور فتح سے تعبیر کرتا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے امریکہ کو ۲۰۲۱ تک افغانستان میں موجود رہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ القائدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن دس سال قبل ۲۰۱۱ میں مارا جا چکا تھا؟ ظاہر ہے طالبان کی مزاحمت اور افغان فوج کی غیر موجودگی میں افغانستان کا دفاع امریکہ و اس کے اتحادیوں نے ہی کرنا تھا۔ اب جب انہوں نے دیکھا کہ طالبان کہیں جانے والے نہیں تو ان کیساتھ ڈیل کر کے راتوں رات فرار ہو گئے۔ اپنی حمایت یافتہ عین جمہوری صدر غنی کی حکومت کیلیے کچھ بھی نہ کر سکے۔ اور وہ جو افغانستان کے دفاع کیلئے لاکھوں افغان فوجی ٹرینڈ کیے تھے وہ خود طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک کر ہمسایہ ممالک فرار ہو گئے۔
اب بھی آپ کو لگتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست نہیں ہوئی تو لگتا رہے۔ زمینی حقائق آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔
 
آپ کا کیا خیال ہے امریکہ کو ۲۰۲۱ تک افغانستان میں موجود رہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ القائدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن دس سال قبل ۲۰۱۱ میں مارا جا چکا تھا؟ ظاہر ہے طالبان کی مزاحمت اور افغان فوج کی غیر موجودگی میں افغانستان کا دفاع امریکہ و اس کے اتحادیوں نے ہی کرنا تھا۔ اب جب انہوں نے دیکھا کہ طالبان کہیں جانے والے نہیں تو ان کیساتھ ڈیل کر کے راتوں رات فرار ہو گئے۔ اپنی حمایت یافتہ عین جمہوری صدر غنی کی حکومت کیلیے کچھ بھی نہ کر سکے۔ اور وہ جو افغانستان کے دفاع کیلئے لاکھوں افغان فوجی ٹرینڈ کیے تھے وہ خود طالبان کے سامنے ہتھیار پھینک کر ہمسایہ ممالک فرار ہو گئے۔
اب بھی آپ کو لگتا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست نہیں ہوئی تو لگتا رہے۔ زمینی حقائق آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔
جو بات آپ کہہ رہے ہیں اس کو جواب اوپر مراسلے میں دے دیا گیا ہے۔
امریکہ اور مغربی اتحادیوں کی محض ایک غلطی ہے کہ وہ مغربی سوشوپولیٹیکل آرڈر یہاں نافذ کرنا چاہتے تھے جو وہ نہ کر سکے
لیکن اگر اسے آپ امریکہ کی پسپائی سے تعبیر کرتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے۔
 

علی وقار

محفلین
اقتدار میں آنے کے لیے دو راہیں تھیں: کرپٹ و بادشاہ گر مافیاز سے سمجھوتا اور ان کے دیے گئے افراد کی پارٹی میں شمولیت۔ دوسری، مگر مشکل راہ یہ تھی کہ محض عوام کے بل بوتے پر اقتدار تک رسائی حاصل کی جاتی۔ دوسری راہ مشکل بھی تھی، اور عوام اس کے لیے بوجوہ ذہنی طور پر تیار بھی نہیں، اس لیے خان صاحب نے پہلا راستہ چُن لیا۔ اب جو کچھ ہے، وہ وضاحتیں ہیں اور پچھتاوے ہیں۔ اقتدار کی کرسی کے جھولے تین سال تک لے لیے گئے، اب وہ محض روایتی سیات دان ہیں، اور اس کے علاوہ ان کی حیثیت کچھ اور نہیں۔ ممکنہ طور پر وہ کسی کے خلاف کاروائی نہیں کر پائیں گے اور اقتدار کے آخری برس یہ تیر مار بھی لیا تو اس کا حاصل وصول شاید کچھ نہ ہو گا۔
 
اقتدار میں آنے کے لیے دو راہیں تھیں: کرپٹ و بادشاہ گر مافیاز سے سمجھوتا اور ان کے دیے گئے افراد کی پارٹی میں شمولیت۔ دوسری، مگر مشکل راہ یہ تھی کہ محض عوام کے بل بوتے پر اقتدار تک رسائی حاصل کی جاتی۔ دوسری راہ مشکل بھی تھی، اور عوام اس کے لیے بوجوہ ذہنی طور پر تیار بھی نہیں، اس لیے خان صاحب نے پہلا راستہ چُن لیا۔ اب جو کچھ ہے، وہ وضاحتیں ہیں اور پچھتاوے ہیں۔ اقتدار کی کرسی کے جھولے تین سال تک لے لیے گئے، اب وہ محض روایتی سیات دان ہیں، اور اس کے علاوہ ان کی حیثیت کچھ اور نہیں۔ ممکنہ طور پر وہ کسی کے خلاف کاروائی نہیں کر پائیں گے اور اقتدار کے آخری برس یہ تیر مار بھی لیا تو اس کا حاصل وصول شاید کچھ نہ ہو گا۔
آپ کی بات اصولی سطح پر بالکل درست ہے۔ جب انسان اپنے نظریات پہ کمپرومائز کرنا شروع کرتا ہے تو پھر اس کا روایت کی طرف سفر خود بخود شروع ہو جاتا ہے۔
 
Top