............پنچھی ...........

تازہ نظم ------------- أسامة جمشید

............پنچھی ...........

شاموں كا اور صبحوں كا

صدیوں كا اور میلوں كا

درد كے پہلے رشتوں كا

آس كے رم چھم حصوں كا

بارش كے سب قطروں كا

شبنم كا اور بھولوں كا

قوس وقزح كے رونگوں كا

پنچھی تیری آنكھوں میں

پیار بھرا ہے جھیلوں كا


سچی رت متوالوں سی

كویل كی آوازوں سی

لہروں سی طوفانوں سی

كھیتوں اور كھلیانوں سی

الفت كے درباروں سی

رندوں كے میخانوں سی

رات كوئی انجانوں سی

پنچھی تیرے چہرے پر

خیر عیاں ارمانوں سی


زلف میں ٹھہرے پیچوں كے

اٹھتی گرتی كرنوں كے

نہر میں چلتی نیوں كے

اس پار سے اٹھتے جذبوں كے

دلدل دید اور رستوں كا

سہمے سہمے قدموں كے

بلبل باغ اور نغموں كے

پنچھی تیری باتوں میں

راز ہیں پنہاں بختوں كے


جنگ میں جیت كے روتوں پر

سفر میں تھك كر ہنستوں پر

ہاتھ میں لرزاں سپنوں پر

خلد كے باقی لمحوں پر

عشق پہ برسے سنگوں پر

خاك پہ گرتے اشكوں پر

نیند قلم اور كتبوں پر

پنچھی تیری یادوں كا

بوجھ پڑا ہے پلكوں پر


ندّی ہو یا ساحل ہو

جام میں سرخی مایل ہو

بادل پہنے پایل ہو

رقص كا ساماں نازل ہو

دل میں شرارت حایل ہو

عقل كی بات اب باطل ہو

ساری بستی جاہل ہو

پنچھی تیری چاہت كا

اجر ذرا سا حاصل ہو

(أسامة جمشید)
 
ايك نظم مرمت كے بعد ...

..........پنچھی ...........


شاموں كا اور صبحوں كا

صدیوں كا اور میلوں كا

دھڑكن ساز اور رشتوں كا

آس كے رم چھم حصوں كا

بارش كے سب قطروں كا

شبنم كا اور بھولوں كا

قوس وقزح كے رنگوں كا

پنچھی تیری آنكھوں میں

پیار بھرا ہے جھیلوں كا



سچی رت متوالوں سی

كویل كی آوازوں سی

لہروں سی طوفانوں سی

كھیتوں اور كھلیانوں سی

الفت كے درباروں سی

رندوں كے میخانوں سی

رات كوئی انجانوں سی

پنچھی تیرے چہرے پر

خیر عیاں ارمانوں سی


زلف میں ٹھرے پیچوں كے

اٹھتی گرتی كرنوں كے

نہر میں چلتی نیوں كے

اس پار سے اٹھتے جذبوں كے

دلدل دید اور رستوں كے

سہمے سہمے قدموں كے

بلبل باغ اور نغموں كے

پنچھی تیری باتوں میں

راز ہیں پنہاں بختوں كے


بازى جیت كے روتوں پر

تھك كر سفر میں ہنستوں پر

ہاتھ میں لرزاں سپنوں پر

خلد كے باقی لمحوں پر

لوگوں پر اور سنگوں پر

خاك پہ گرتے اشكوں پر

نیند قلم اور كتبوں پر

پنچھی تیری یادوں كا

بوجھ پڑا ہے پلكوں پر


(اسامه جمشيد)
 
Top