پنشنرز کے لئے بنیکوں کا فرسودہ نظام

کعنان

محفلین
پنشنرز کے لئے بنیکوں کا فرسودہ نظام
تحریر: بلال اے شیخ
01 جنوری 2017

pens-350x263.jpg

دنیا میں معمر افراد کی تعداد تقریباً 65 کروڑ ہے جو 2025ء میں ایک ارب سے تجاوز کر جائیں گے۔ پاکستان میں معمر افراد کی تعداد بہت کم تھی جو 2000ء سے بڑھنا شروع ہوئی ہے۔ اس وقت تقریباً 80 لاکھ پاکستانی معمر ہو چکے ہیں۔ دنیا میں معمر افراد کی عمر 60 سے زائد سمجھی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں معمر افراد کی عمریں اب اوسطاً مردوں کے لئے 75 سال اور خواتین کے لئے 82 سال ہو جائے گی۔ پاکستان میں 98 فیصد معمر افراد خاندان کے ساتھ رہتے ہیں، جو معاشرتی سطح پر ایک روایت کی عکاس ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں معمر افراد کے لئے کئی ایک مسائل موجود ہیں جن سے نبردآزما ہونا بہت ہی مشکل کام ہے۔ خصوصاً ان معمر افراد کے لئے ایک آزمائش ہے جو ساری زندگی سرکاری ملازمتوں میں رہے اور اب ان کو پنشن کے حصول کیلئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ملازمت میں اردگرد کے لوگ اسی انتظار میں لگ جاتے ہیں کہ کوئی کب ریٹائرہو اس کی سیٹ خالی ہو۔ جب اپنی سیٹ سے ہٹتا ہے تو اس کی وہ قدر نہیں رہتی اس لئے اس کے سبھی فوائد جو اسے فوری میسر آ جانے چاہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاغذات کی تیاری میں کئی ماہ صرف کر دئیے جاتے ہیں۔ ان معمر افراد سے بھی نذرانے لینے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ جب وہ ان مشکلات سے نکل جاتے ہیں تو پھر بینک میں اکاؤنٹ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سرکاری بینکوں میں معمر افراد کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اس کی مثال شاید ہی کسی مہذب ملک میں ملتی ہو۔

اس ساری صورتحال کے پیش نظر عدالت عالیہ کے حکم پر سٹیٹ بینک آف پاکستان نے معمر افراد کے لئے بینکاری کی خصوصی سہولتوں کا اعلان کیا تھا اور بینکوں کو اس سلسلے خصوصی انتظامات کا بھی پابند بنایا گیا تھا۔ اس کے باوجود بینکوں میں خصوصاً بڑے سرکاری بینک میں معمر افراد کے لئے اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کا سلسلہ بہت سے مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے خود معمر افراد کا محکمہ یا ادارہ ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ پنشن کی تیاری، فنڈز کی ادائیگی اور اس کی بروقت ترسیل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اگرچہ سارا ملبہ بینکوں پر ہی ڈال دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے خود سرکاری ادارے ہی اس سلسلے میں سستی، لاپرواہی اور کرپشن کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد جب یہ صورتحال پیچیدہ ہوتی ہے تو ادائیگیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ خصوصاً عید پر حکومت فنڈز جاری کرنے میں ہمیشہ تاخیر کا مظاہرہ کرتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں سارا سرکل ہی تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے۔ حالیہ عید پر بینکوں میں اس سلسلے بہت شور مچا اور میڈیا نے بھی اس خبر کو خوب نشر کیا لیکن حقیتاً بینکوں کو فنڈز کی فراہمی ہی تاخیر سے ہوئی جس کے باعث حکومت کو اپنی عزت بچانے کے لئے بینک ہفتہ کو بھی کھولنا پڑے۔

اگرچہ حکومت نے نجی بینکوں کو بھی پینشن اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن اس سے سہولت اس لئے نہیں پیدا ہو رہی کیونکہ سارا نظام ہی فرسودہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کی سہولت کے لئے خصوصاً پروگرام تربیت دیا جائے ۔ان کو سہولت کے لئے خصوصاً شناختی کارڈ دئیے جائیں جس سے وہ آسانی سے ہر شعبہ میں جا کر امداد حاصل کر سکیں۔ بینکوں میں ان کو مفت چیک بکس، ڈیبٹ کارڈز اور دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں۔

سرکاری بینکس میں پنشن بھیجنے کی بجائے چند نجی بینکوں کو پنشن کے مخصوص فنڈز فراہم کئے جائیں اور ساتھ ہی طریقہ کار واضح کر دیا جائے جس کے تحت ہر ماہ بینکس ضروری دیکھ بھال اور طریقہ کار سے خود ہی اداروں کی تصدیق کے بعد فنڈز پنشنرز میں تقسیم کر دیا کریں۔
پاکستان میں معمر افراد کی تعداد اگلے چند سالوں میں ایک کروڑ تک ہو جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں معمر افراد کے لئے مخصوص قوانین اور سہولتوں کا آغاز کیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو بے بس اور کمزور محسوس نہ کریں۔


نوٹ: بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں متفق ہونا ضروری نہیں۔

ح
 
Top